حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سیوان، بہار کے امام بارگاہ قرآن و عترت میں خمسہ مجالس کی اختتامی مجلس نہایت خلوص و عقیدت کے ساتھ منعقد ہوئی۔ شہر سیوان میں محبان اہل بیتؑ کی تعداد زیادہ نہیں ہے، کیونکہ اکثر افراد اپنے آبائی علاقوں میں مجالس کا انعقاد کرتے ہیں۔ تاہم اس سال ایام فاطمیہ کے دوران شہر میں قابلِ ذکر رونق دیکھی گئی۔
اقبال حسین ایڈووکیٹ نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا: "یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں یہاں پانچ دن تک مجلس میں شرکت کا موقع ملا۔ بی بی دو عالم کے غم میں آنکھیں اشکبار ہوئیں اور ان کے مصائب یاد کیے گئے۔"
مجلس کے دوران سوزخوان، سید صفدر رضا کٹوکھری نے بی بی فاطمہؑ کے مصائب کو پرسوز انداز میں پیش کیا۔ ان کے اشعار میں حضرت فاطمہ زہرا (س) کے دربار میں بلائے جانے اور ان پر ڈھائے گئے مظالم کا ذکر تھا۔ انہوں نے بیان کیا: یہ قیامت خیز مناظر دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ لوگوں نے نبیؐ کی اکلوتی بیٹی کے ساتھ وہ سلوک کیا جو عقل انسانی کو حیران کر دیتا ہے۔
مجالس کے دوران متعدد علمائے کرام نے خطاب کیا اور حضرت زہرا (س) کے فضائل، مصائب اور اہمیت پر روشنی ڈالی:
مولانا سید فیض ظفر رضوی نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شہادت ایک تاریخی حقیقت ہے جس پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے بارہا فرمایا کہ جو فاطمہ کو اذیت دے گا، وہ درحقیقت مجھے اور خدا کو اذیت دے رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ نبی کی ان ہدایات کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔
خطیب اہل بیتؑ سید عارف عباس رضوی نے حدیث رسول (ص) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: فاطمہؑ میرے بدن کا ٹکڑا، میری روح اور میرا دل ہیں۔ ان پر ظلم کرنا، پیغمبر اکرم (ص) اور خداوند عالم کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ یہ باتیں پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی حیات میں بارہا بیان کیں، لیکن بعد میں لوگوں نے ان کو فراموش کر دیا۔"
مولانا سبط حیدر اعظمی نے حضرت فاطمہؑ کے مقام اور فضائل پر گفتگو کرتے ہوئے بیان کیا کہ: حضرت فاطمہ (س) کی معرفت کا حصول قرآن و احادیث کی روشنی میں ہی ممکن ہے۔ آپ وہ شخصیت ہیں جنہیں قرآن میں 'لیلۃ القدر' اور 'دین قیم' کے عنوانات سے یاد کیا گیا۔ آپ کے فضائل اور قربانیوں کے بغیر دین ناقص رہتا ہے۔"
مولانا نور عابدی نے اختتامی خطاب میں کہا: حضرت فاطمہ زہرا (س) کی عظمت کو معصومین (ع) کے علاوہ کوئی مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتا۔ سورہ نور کی آیت 37 کے تحت نبی اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کے گھر کو سب سے برتر و مقدس قرار دیا۔ لیکن افسوس کہ اس مقدس گھر پر ہجوم کیا گیا اور ایسے مظالم ڈھائے گئے جن سے آج بھی انسانیت شرمندہ ہے۔"