حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، الجواد فاؤنڈیشن کی جانب سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کی مناسبت سے ملک کے مختلف مقامات پر مجالس و عزاداری کا سلسلہ جاری ہے۔ آج لکھنؤ درگاہ حضرت عباس میں عزائے فاطمیہ کی دوسری مجلس کو مولانا ڈاکٹر کلب رشید رضوی مقیم دہلی نے خطاب کیا۔
مولانا موصوف نے مجلس میں سیرت حضرت فاطمہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی شہادت کا دن اجر رسالت ادا کرنے کا دن ہے، لہذا امت اسلام کا یہ فریضہ ہے کہ وہ حتی الامکان آنحضرت ﷺ کی اجر رسالت ادا کرنے کی کوشش کریں۔
انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ زہرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوہر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔
تصویری جھلکیاں: لکھنؤ درگاہ حضرت عباس میں عزائے فاطمیہ کی دوسری مجلس
مزید بیان کیا کہ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوہر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔
ڈاکٹر کلب رشید صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گذرتا تھا۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ہے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔
ہندوستان ممتاز خطیب نے کہا کہ فاطمہ زہرا (س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر میں عملی جامہ پہنایا ۔ وہ ایک سمجھدار خاتون کی طرح زندگی کے تمام مراحل طے کۓ اور اپنے گھر کے امور و تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر خاص توجہ دیا اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رہتی تھیں اور اپنے شوہر کے حق کا دفاع کرتی تھیں۔
مجلس کے آخر میں مولانا نے حضرت زہرا پر گذرے مصاٰئب بیان کرتے ہوئے کہا کہ شہزادی کے دروازہ پر آگ لگائی گئی اور آپ پر جلتا ہوا دروازہ گرایا گیا، جس کی وجہ سے شہزادی کونین کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اور انہی مظالم کی وجہ سے جناب محسن کی شہادت بھی واقع ہوئی شہزادی کو دشمنان دین اپنے بابا کو یاد کرکے رونے تک نہیں دیتے تھے شہزادی پر اتنے مصائب ڈھائے گئے کہ شہزادی کو یہ کہنا پڑا کی اگر یہ مصائب دن کے اجالے پر پڑتے تو اندھری رات میں تبدیل ہو جاتا۔ مولانا کے مخصوص انداز میں مصائب سن کر درگاہ کی فضاؤں میں یا زہرا یا زہرا کی صدائیں گونجنے لگیں۔
مولانا کلب رشید کی مجلس کے بعد درگاہ حضرت عباس لکھنو میں شب شہادت شہزادی دو عالم کا جلوس فاطمی برآمد ہوکر روضہ فاطمین تک گیا جس میں ہزاروں عزاداران حضرت زہرا کے ساتھ ساتھ علماۓ کرام نے بھی شرکت کی اور یا زہرا یا زہرا کی صداؤں سے شہر لکھنو کی فضائیں گونج اٹھی۔