۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا باقر سجاد عرفی

حوزہ/ ہندستان کے برجستہ مبلغ نے بیان کیا کہ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں، وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، الجواد فاونڈیشن کی جانب سے مختلف شہروں میں ایام فاطمیہ کی جاری مجالس کے ہردوئی کے گوری خالصہ میں مولانا باقر سجاد عرفی نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نطام زندگی طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔

مولانا موصوف نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔

انہوں نے مزید فرمایا کہ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہور ہے ۳۴مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله ۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔

ہندستان کے برجستہ مبلغ نے بیان کیا کہ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں، وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔

مولانا باقر سجاد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں۔ بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے۔ اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔

اطلاع کے مطابق، مجلس میں ہزارون کی تعدات میں عزادار فاطمہ زہرا سلام اللہ موجود تھے، مجلس کے آخر میں مولانا نے مصایب فاطمہ زہرا کو اس طرح بیان کیا کہ اس ذات پر اتنے مصائب ڈھائے گئے کے اٹھارہ سال کی عمر میں ضعیفہ نظر آنے لگیں سر کے بال سفید ہو گئے کمر جھک گئی بعد وفات پیغمبر بی بی پر اتنے ظلم ڈھائے گۓ کہ بی بی کو رونے بھی نہیں دیا جاتا تھا یہ سنکر عزاداروں کی آنکھیں عشق بار ہو گئی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .