۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولانا کلب جواد نقوی امام جمعہ آصفی مسجد لکھنؤ

حوزہ/ کورونا وباکے چلتے ۹ ماہ کے تعطل کے بعد آصفی مسجد میں نماز جمعہ پھر سے شروع ہوئی، کرونا گائیڈ لائن کے مطابق نمازیوں نے جماعت میں شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ/ کورونا وائرس کے سبب مسلسل ۹ ماہ کے تعطل کے بعد آج آصفی مسجد لکھنؤ میں نماز جمعہ منعقد ہوئی ۔امام جمعہ مولانا سید کلب جواد نقوی نے جمعہ سے پہلے ہی لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ کورونا گائیڈ لائن پر عمل کرتے ہوئے نماز جمعہ کے لئے مسجدتشریف لائیں ۔مسجدمیں ماسک اور سنیٹائزر کا اہتمام کیا گیا تھا ۔نمازیوں نے بھی کورونا گائیڈ لائن پر عمل کرتے ہوئے نماز جمعہ ادا کی۔

اما م جمعہ لکھنؤ، مولانا سید کلب جواد نقوی نے خطبۂ جمعہ میں کہاکہ کورونا وبا کے سبب نماز جمعہ نہیں ہورہی تھی ۔مراجع کرام کے فتوے بھی اس سلسلے میں منظر عام پر ہیں جن کا مطالعہ کیا جاسکتاہے ۔اسلامی ممالک منجملہ ایران و عراق میں بھی نماز جمعہ نہیں ہورہی تھی ۔وہاں بھی ابھی نماز جمعہ شروع ہوئی ہے لہذا مراجع کرام کے فتوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں بھی نماز جمعہ پھر سے شروع کی گئی ہے ۔مولانانے کہاکہ مخالفین ہمیشہ ہر مسئلے میں ہماری تنقید کرتے ہیں مگر تنقید کرنے سے پہلے وہ مراجع عظام کے فتوئوں پر نظر نہیں کرتے ۔یا تو وہ لوگ ایسا نادانی میں کرتے ہیں یا عمداََ ہماری مخالفت کرتے ہیں ۔آیت اللہ سیستانی اور دیگر مراجع کے فتوئوں کے مطابق نمازجمعہ نہیں ہورہی تھی اور اب جبکہ کچھ حالات سازگارہوئے ہیں اورانہوں نے اجازت دی ہے کہ ایک معین فاصلے پر نماز ہوسکتی ہے لہذا پھر سے نماز جمعہ شروع ہوئی ہے ۔

مولانانے حالات حاضرہ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت پوری دنیا میں شیعہ ظلم و بربریت کا شکار ہیں ۔افغانستان ،پاکستان اور دیگر ممالک میں شیعوں پر ظلم ہورہے ہیں ۔کشمیر میں بھی گزشتہ ۷۰ سالوں سے شیعہ پسماندگی کا شکار ہیں اور انکی فلاح و ترقی کے لئے کوئی اہم کام نہیں ہوا۔دیگر علاقوں میں حکومتوں نے کام کیاہے مگر شیعہ علاقوں کو نظرانداز کیا گیاہے ۔انہیں بجلی پانی جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیاہے ۔اب ہم کوشش کررہے ہیں کہ کشمیر میں شیعوں کو ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں ۔

مولانا نے پاکستان میں ہزارہ شیعوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں ہزارہ قبیلے کے شیعہ مزدوروں کا قتل عام کیا گیا جو قابل مذمت ہے۔ان کا کیا قصور تھا؟ وہ تو عام مزدور تھے ۔ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ علی علیہ السلام کے شیعہ تھے ۔ مولانا نے کہاکہ مسلمان مولوی شیعوں پر ہونے والے ظلم و تشدد پر خاموش رہتے ہیں مگر جب دوسری قوموں پر ظلم ہوتا ہے تو وہ اس ظلم کے خلاف فتودے تک دیتے ہیں ۔ہم نے ہمیشہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔فلسطین میں اسرائیلی دہشت گردی ہو یا پھر ہندوستان میں دہلی اور مظفر نگر میں ہوئے فسادات کا معاملہ ہو ،ہم نے ہر جگہ پہونچ کر مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیا اور ظالموں کے خلاف احتجاج کیا ۔دہلی فساد کے بعد کسی مسلمان لیڈر میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ حالات کا جائزہ لینے کے لئے گھر سے نکلے ،یہی حال مظفر نگر فساد کے بعد بھی دیکھنے میں آیا ۔سیاسی پارٹیوں کے تلوے چاٹنے والے مولوی منظر سے غائب تھے۔مگر ہم ہر جگہ گئے ۔ مفساد متاثرین سے ملے ، ان کے مسائل کو سنااور ظالموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔مگر افسوس جب شیعوں پر ظلم ہوتاہے تو مسلمانوں کی زبان نہیں کھلتی ۔مولانانے کہاکہ وہ شیعہ نہیں ہوسکتا جو ظلم کے خلاف آواز احتجاج بلند نہ کرے اور مظلوموں کی حمایت نہ کرے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .