تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی । مولوی محمد باقرعلیہ الرحمہ کا نام آتے ہی ایک مرد مجاہد ،جانباز ،اور بیباک صحافی کی تصویر ذہن کے کینوس پر ابھرتی ہے۔ جس عہد میں طباعت و اشاعت کی سہولیات نا کے برابر تھیں اس عہد میں قوم و ملت کی خدمت کرنا اور سامراجی نظام کے خلاف ببانگ دہل لکھنا آسان کام نہیں تھا۔ مولوی محمد باقر کی جرأت مندانہ صحافت ،اتحاد بین المذاہب و مسالک کی کوششوں اور قوت اظہارکو ہم آج کے عہد کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھیں گے تو اندازہ ہوگاکہ وہ کتنی جسمانی و ذہنی اذیتوں کا شکار رہے ہونگے۔ آ ج اکثر قلم کاروں کے قلم میں چاندی کی سیاہی انڈیل دی گئ ہے اور قلم سونے کے ہوگئے ہیں۔ فکر خوف و دہشت کے سائے میں پروان چڑھ رہی ہے یا پھر پروان چرھنے والے افکار کو کچل دیا جاتاہے۔ ذرا محسوس کریں کہ آخر مولوی محمد باقر کس عہد میں سانس لے رہے تھے۔ جہاں سامرجی نظام اور اسکی آمریت کے خلاف آواز اٹھاناگویا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ جس عہد میں انگریزی حکومت کے خلاف ہندوستانیوں کے دلوں میں نفرت کا لاوا ابل رہا تھا اور 1857 کی بغاوت قریب تھی اس عہد میں انقلابیوں اور مجاہدوں کی تحریک اور ان کی آواز کو ہر خاص و عام تک پہونچانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی ۔یہ کام ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ نے بخوبی انجام دیا اور بلاتفریق مذہب و ملت سامراجی نظام کے خلاف بغاوت اور ملت کے اتحاد کے لیے کوشاں رہا ۔
ولادت اور خاندانی پس منظر
مولوی محمد باقرؒ ۱۷۸۰ ء اور بروایت دیگر ۱۷۹۰ ء میں شہر دہلی میں متولد ہوئے ۔ان کے والد ماجد مولوی محمد اکبر دہلی کے نامور علماء میں شمار ہوتے تھے ۔ان کے جد اعلیٰ اخوند محمد ابراہیم جلیل القدر عالم دین تھے ۔صاحب مطلع انوار نے تحریر کیاہے کہ انہوں نے کئی ایسے معتبر رسالے دیکھے ہیں جن میں محمد ابراہیم کو اخوند لکھاگیاہے ۔اخوند عالم جلیل کو کہا جاتاہے ۔(مطلع انوار ۔مرتضیٰ حسین فاضل ۔ص ۴۹۰)مولوی محمد باقر کا خاندان ایران کے معروف شہر ہمدان سے ہجرت کرکے شاہ عالم کے دور حکومت میں ہندوستان آکر آباد ہوا تھا۔ انکے جد امجد حضرت محمد شکوہ 112 ہجری میں جب کشمیر سے دہلی آئے توشاہ عالم نے انکی شایان شان پذیرائی کی اور ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا۔ مولوی محمد باقر دہلوی کے بقول انکے جد امجد حضرت محمد شکوہ مسلم الثبوت مجتہد تھے لہذا انکی عظمت شاہی دربار اور عوام کے دلوں پر غالب رہی۔ اسی عظمت کی بنیاد پر مغل اقتدار میں بھی انہیں اپنے عقیدہ و مسلک کی تبلیغ کی آزادی دی گئی اور خزانۂ شاہی سے ماہانہ اعانت بھی معین کی گئی۔یہاں یہ بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ مولوی محمد باقری دہلوی کے آباء و اجداد درجۂ اجتہاد پر فائز نہیں تھے بلکہ اپنے عہد کے صف اول کے علماء میں شمار ہوتے تھے ۔بعض محققین نے مولوی محمد باقرؒ کو بھی شیعوں کا مجتہد قرار دیاہے جبکہ یہ سراسر غلط ہے ۔اس سلسلے میں تحقیقی اسناد کے لیے راقم الحروف کی مطبوعہ کتاب’’ اردو صحافت اور مولوی محمد باقر دہلوی‘‘ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے ۔
مولوی محمد باقر کے آباء اجداد صاحبان علم و فضل تھے ۔ اس خانوادے کے علماءعلم حدیث،علم تفسیر ،علم فقہ اور علم تاریخ میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ انکے والد مولوی محمد اکبر ایک برجستہ عالم دین اور بہترین مدرس تھے۔دہلی میں درگاہ پنجہ شریف کے قریب ہی انکی تعمیر کردہ امام بارگاہ تھی جسے آزاد منزل کے نام سے جانا جاتاتھا۔ آج اس عمارت میں موٹر پارٹس کی دوکان کھلی ہوئی ہے۔ حقیر کی تحقیق کے مطابق ’آزاد منزل‘ میں مولوی صاحب کا مکان تھا ۔امام باڑہ اسی عمارت کے قریب میں واقع تھا جو ۱۸۵۷ ء میں برباد ہوگیا ۔مرزا غالب ؔ کے خطوط میں مولوی صاحب کے امام باڑے کی تباہی اور انہدام کا ذکر ملتاہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ’آزاد منزل‘ کی موجودہ عمارت میں مولوی صاحب کا مکان تھا۔(دستنبو۔مرزا غالب۔مترجم خواجہ حسن نظامی ۔ص۲۴) درگاہ پنجہ شریف کے قریب ہی ان کی تعمیر کردہ مسجد ہے جسے ’کھجور والی مسجد ‘ کے نام جانا جاتاہے ۔یہ مسجد آج بھی موجود ہے ۔پنجہ شریف کے قریب ہی انکا معروف حوزہ علمیہ تھا جو اہل تشیع کی علمی و فکری تربیت میں کوشاں تھا۔ انکے حوزہ علمیہ میں مکتب تشیع کے مطابق تعلیم و تدریس کا انتظام تھا۔ سیکڑوں طلباء تحصیل علم کرتے تھے۔ ان کے مدرسے میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ (دلّی میں اردو صحافت کے ابتدائ نقوش از محمد یوسف ص 102) ۔ انکی اہم تصانیف میں ہادی التواریخ،سیف صارم المعروف بہ شمشیر تیز،ہادی المخارج،سفینۂ نجات،تفسیر آیہ ولایت،رسالہ عید غدیر،کتاب التقلیب،مفیدالعلوم ،رسالہ نکاح اور دیگر کتابیں شامل ہیں۔ (تاریخ صحافت از امداد صابری ،جلد اول،ص 220،مطبوعہ 1953)
تعلیم و تربیت :
مولوی محمد باقرکی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہی انجام پائی ۔وہ اپنے والد ماجد کے مدرسے میں زیر تعلیم رہے ۔اس مدرسے میں دہلی اور اطراف دہلی کے طلباء حصول علم میں مصروف رہتے تھے ۔ابتدائی تعلیم کے بعد مولوی عبدالرزاق کے حضور زانوئے ادب تہہ کیے جو اس وقت کابلی دروازے میں سکونت پذیر تھے ۔اسی مدرسے میں شیخ ابراہیم ذوقؔ سے ان کے دوستانہ مراسم ہوئے جو آخر عمر تک برقرار رہے ۔(مقدمہ دیوان ذوقؔ۔محمد حسین آزادؔ۔ص۴) میاں عبدالرزاق کے مدرسہ سے فراغت کے بعد انہوں نے ۱۸۲۵ ء میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور ۱۸۲۸ءمیں اسی کالج میں بحیثیت مدرس کے ان کا تقرر ہوا ۔ ۱۸۲۸ء سے ۱۸۳۶ء تک دہلی کالج میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۔دہلی کالج مذہبی عیسوی کی تبلیغ کا مرکز قرار پایا تو کالج سے علاحدگی اختیار کرلی ۔کالج سے مستعفیٰ ہونے کے بعد دہلی کے کلکٹر مٹکاف کے مشورے پر محکمۂ آب کاری میں ملازمت اختیار کرلی ۔ایک مدت تک تحصیلداری کے عہدے پر فائز رہے اورترقی کے بعد محکمے کے سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوئے۔(اردو کے اخبار نویس جلد۱۔مولانا امداد صابری ۔ص۱۴۶)
دہلی اردوخبار کا اجراء:
’’دہلی اردو اخبار ‘‘ کے سنہ اجرا کے سلسلے میں محققین کے درمیان اختلاف پایا جاتاہے۔ نئی تحقیق کے مطابق اس کا سنہ اجرا ۱۸۳۶ ء ہے جبکہ دیگر محققین ۱۸۳۷ ء تسلیم کرتے ہیں۔عتیق احمد صدیقی ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ کی تاریخ اجراء پر محققین کے اختلافات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مارگریٹا بارنس نے دہلی اخبار کا سنہ اجراء ۱۸۳۸ ء بتلایا ہے جو یقینا غلط ہے۔ نیشنل آرکائیوز میں جنوری ۱۸۴۰ ء سے دسمبر ۱۸۴۱ ء تک کے پرچے محفوظ ہیںان میں سے پہلے نمبر پر ’’نمبر ۱۵۳‘‘۲ ۲ جنوری ۱۸۴۰ ءیوم یکشنبہ جلد ۳ درج ہے۔ اس حساب سے دہلی اخبارا کا اجراء جنوری ۱۸۳۸ ء میں ہوا ہوگا لیکن قاسم علی سجن صاحب اور بعض محققین کا خیال ہے کہ ۱۸۳۶ ء میںاس کا اجراء ہوا ہو‘‘۔( ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں ۔عتیق احمد صدیقی۔ص۲۶۶)
نادر علی خاں عتیق احمد صدیقی کی تحقیق سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ لکھتے ہیں کہ عتیق صاحب نے جس شمارہ کا ذکر کیاہے اسکےحساب سے دہلی اردو اخبار کی تاریخ اجراء ۲۳ فروری ۱۸۳۷معلوم ہوتی ہے۔ نادرعلی خان ۱۸۵۷ کے تمام شماروں کی پیشانی پر جلد نمبر اور شمارہ نمبر کے اعتبار سے دہلی اردو اخبار کی تاریخ اجر ا ۱۸۳۹ ء بتاتے ہیں۔نادر علی خان اپنی تحقیق میں یہاں تک صحیح ثابت ہوتے ہیں کہ نیشنل آکارئیوز لائبریری میں ’’دہلی اردو اخبار‘‘کے جو شمارے موجود ہیں انکی جلد نمبر اور شمارہ نمبر کے لحاظ سے اخبار کا سن اجرا ۱۸۳۹ کے آس پاس نکلتا ہے۔ اس اندازہ کے باوجود نادر علی خان اخبار کا سن اجراء ۱۸۳۷ ء تسلیم کرتے ہیں۔ممکن ہے کہ بعض شماروں کے تلف ہوجانے کی بنیاد پر جلد نمبر اور شمارہ نمبر غلط درج ہوگیا ہو۔ محققین کے مطابق دہلی اردو اخبار دو سال تک بند رہا لہذا دو سال کے وقفہ کے بعد اخبار کی اشاعت میں بھی یہ تسامح ہوسکتاہےجبکہ بعض محقق دہلی اردو اخبار کے دو سال تک بند رہنے کی بات پر یقین نہیں کرتے کیونکہ اس کا کوئی ثبوت ابھی تک نہیں مل سکاہے۔ ان تمام تر تحقیقات کے برخلاف مولوی محمد حسین آزاد دہلی اردو اخبار کو پہلا اخبار تصور کرتے ہیں اور سن اشاعت بھی مختلف تحریر کرتے ہیں :
’’۱۸۳۵ سے دفاتر سرکاری بھی اردو ہونے شروع ہوئے۔چند سال کے بعد کل دفتروں میں اردوزبان ہوگئی۔ اسی سنہ میں اخباروں کو آزادی حاصل ہوئی۔ ۱۸۳۶ میں اردو کا اخبار دلّی میں جاری ہوااور یہ اس زبان میں پہلا اخبار تھا جو میرے والد مرحوم کے قلم سے نکلا‘‘۔(آب حیات ۔آزادؔ۔ص۲۶)
آزاد کے اس بیان پر خواجہ احمد فاروقی کچھ برہم نظر آتے ہیں۔لکھتے ہیں۔’’ مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے ایڈیٹر تھے اور وہ خود بھی اس سے وابستہ رہ چکے تھے، اس لئے انکا بیان اہم ہے۔ لیکن اس کا دوسرا ٹکڑا کہ یہ اردو کا پہلا اخبار تھا، صحیح نہیں ۔جام جہاں نما کی موجودگی میںیہ شرف دہلی اردو اخبار کو حاصل نہیں ہوسکتا‘‘۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جام جاں نما اردو کا پہلا اخبار تھا ۔لیکن جام جہاں نما پہلے فارسی میں نکلا اس کے بعد اردو زبان میں جاری ہوا ۔کچھ دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا اس کے بعد پھر فارسی زبان میں منتقل ہوگیا ۔مگر دہلی اردو اخبار اردو زبان کا پہلا باقاعدہ اور باضابطہ اخبار ہے لہذا اس لحاظ سے ہم ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ کو اردو زبان کا پہلا اخبار تسلیم کرسکتے ہیں ۔(مقدمہ دہلی اردو اخبار ۔خواجہ احمد فاروقی ۔ص الف)
۱۸۳۷ ء سے لیکر ۱۸۴۱ کا عرصہ ’’ دہلی اردو اخبار‘‘ کی ترقی کا عہد تھا۔ اس عرصہ میں اخبارات کی کاپیوں میں بھی معمولی اضافہ ہوا جو ۶۹ کاپیوں سے بڑھ کر ۷۹ کاپیوں تک پہونچ گیا۔ اسکے بعد اخبار کی ترقی میں خلاء واقع ہوا کیونکہ اخبار کے مستقل خریداروں نے اپنی سالانہ ممبر شپ وقت پرادا نہیں کی جسکے سبب اخبار کی اشاعت متاثر ہوئی۔
مظہرالحق
مولوی محمد باقر نے اکتوبر 1843ء میں ’’مظہر الحق ‘‘کے نام سے بھی ماہانہ رسالہ بھی جاری کیا تھا، جس میں شیعہ فرقے کے نقطہ نگاہ کی ترجمانی ہوتی تھی۔ اس کے مدیر امداد حسین تھے۔(صحافت: پاکستان و ہند میں۔ ڈاکٹر عبد السلام خورشید۔ناشر مجلس ترقی ادب لاہور، نومبر 2016ء، ص 109)
اس رسالےکے مطالعہ کے بعد مولوی محمد باقرکی فکری اور نظریاتی بنیادوں کا صحیح علم ہوتاہے۔ یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ غلامی کے خلاف کس طرح شیعہ نظریہ کی وضاحت کی جاتی تھی تاکہ سامراجی نظام کے خلاف شیعہ قوم میں بھی بیداری پیدا ہو۔ یہ کام جزوی طور پر ہوتا تھا مگر کلی طور پر یہ اخبار شیعہ عقائد و نظریات کی ترجمانی کرتا تھا۔ اس رسالہ کے اجرا کا اصل محرک دراصل بغداد کا وہ ہنگامہ عظیم تھاجس میں شیعوں کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ لیکن سنیّ مسلک کے اخبارات اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے منکر تھے۔(اردو صحافت انیسویں صدی میں،۔ڈاکٹر طاہر مسعود۔ناشرمجلس ترقی ادب لاہور، 2016ء، ص 871)
دہلی اردو اخبار کی ادارت:
دہلی اردو اخبار کی ادارت بھی اخبار کی طرح دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر تھے مگر ادارتی فرائض مختلف افراد نے ادا کئے جن میں مولوی صاحب کے والد محترم مولوی محمد اکبر مرحوم، مولوی محمد حسین آزاد بھی شامل تھے۔ اخبار میں اداریے پابندی سے شایع نہیں ہوتے تھے بلکہ سال کے چند شماروں میں ہی اداریے ملتے ہیں۔ادارتی کالم کی اشاعت کے لئے بھی کوئی صفحہ مخصوص نہیں تھا۔عام طورپر ادارتی کالم خط کی صورت میں شایع ہوتا۔ یہ خط مولوی باقر صاحب یا انکے والد محترم جب تک وہ بقید حیات رہے، ایڈیٹر کے نام لکھتے رہے،اور یہ خطوط ادارتی کالم کی جگہ شایع ہوتے رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ رہی کہ مولوی صاحب چونکہ کمپنی کے ملازم تھے لہذا وہ اخبار میں براہ راست اداریے نہیں لکھ سکتے تھے اس لئے انہوں نے یہ طریق کار اختیا ر کیا تاکہ ان کا نظریہ اور حالات کا تجزیہ خط کی صورت میں شایع ہوکر منظر عام پر آسکے۔
نادر علی خاں نے بعض ایسے شواہد پیش کئے ہیںجن سے معلوم ہوتاہے کہ ۱۸۴۳ ء تک اخبار کی ادارت کی ذمہ داری مولوی محمد اکبر مرحوم ہی نبھارہے تھے، مولوی محمدباقر فقط پریس کی انتظامی ذمہ داریوں کو دیکھتے تھے۔ نادر علی خاں نے ’’اردو صحافت کی تاریخ ‘‘ میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہےجس کاحاصل یہ ہے کہ مولوی باقر صاحب کے والد مولوی محمد اکبر صاحب ۱۸۴۳ تک دہلی اردو اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ انکی تحریریں جو سنہ مذکور تک شایع ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ مولوی محمد اکبر صاحب اخبار کے مدیر تھے اور وہی اداریے تحریر کرتے تھے۔ چونکہ مولوی محمد باقر کے سرکاری ملازم پیشہ ہونے کی بنیاد پر اخبار میں انکا نام مالکانہ یا مدیرانہ حیثیت سے نہیں دیا جاتا تھا،اشتہار ات میں بھی ان کا نام ایک گمنام شخص کی حیثیت سے شایع کیا جاتا تھا تاکہ یہ ظاہر نہ ہو کہ وہ اخبار کی کسی ذمہ داری کو نبھارہے ہیں۔مولوی محمد اکبر کے عہد تک پرنٹر پبلشر میں موتی لعل کا نام جاتا رہا۔ ۱۸۴۴ سے ۱۸۴۸ کی سرکاری رپوٹس بتاتی ہیں کہ مولوی باقر صاحب نے اخبار کی ادارتی ذمہ داری سنبھال لی تھی اور موتی لال کشمیری پرنٹر و پبلشر کے فرائض ادا کررہے تھے۔
۱۸۴۱ ء اور اسکے بعد کے شماروں میں جو خطوط یا اداریے شایع ہوئے ان میں مولوی محمد اکبر مرحوم کا نام شایع ہوتا تھا۔ اداریہ یا خط کے آخر میں ’’الراقم محمد فقط‘‘ یا ’م۔د۔‘‘ یا صرف ’’الراقم۔ م‘‘ بھی چھپتا تھا۔ اگر ان شواہد کی بنیاد پر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ۱۸۴۳ کے بعد مولوی محمد باقر نے ادارت کی ذمہ داری سنبھالی تھی تو۱۸۴۰ اور۱۸۴۱ ءکے بعض شماروں میں جو اداریے اور خطوط شایع ہوئے ان کے آخر میں ’’الراقم۔ م۔ب۔‘‘چھپاہواہے۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ ۱۸۴۱ ء میں بھی مولوی محمد باقر ادارتی فرائض نبھارہے تھے۔ لہذا اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ۱۸۴۳ تک مولوی محمد اکبر مرحوم ا خبار کے ایڈیٹر تھے۔ مگر یہ مسلم حقیقت ہے کہ اداریے کبھی باپ کے نام سے شایع ہوتے تھے اور کبھی خود مولوی محمد باقر اداریے لکھتے تھے۔ مگر تحریروں کا اسلوب ایک جیسا ہے جس سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ یا تو تمام تر خطوط اور اداریے مولوی اکبر صاحب لکھتے تھے یا مولوی اکبر صاحب کے اداریے اور خطوط بھی مولوی محمد باقرتحریر کرتے تھے۔ یا بیٹے کی تحریریں حسب سیاست باپ کے نام سے شایع ہوتی تھیں یا مولوی اکبر صاحب بیٹے کی تحریروں پر نظر ثانی کرکے اشاعت کے لئے بھیجتے تھے۔
پہلی جنگ آزادی میںدہلی اردو اخبار کا کردار
۱۸۵۷ء میں ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ نے سامراجی نظام کے خلاف اور مجاہدین آزادی کی حمایت میں کارہائے نمایاں انجام دیے ۔انگریزی سازشوں کو ناکام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور مذہبی و سماجی ہم آہنگی کے لیے پیش رفت کی ۔مولوی محمد باقرنے پہلی بار صحافت میں اسپاٹ رپورٹنگ کا آغاز کیا جس کے شواہد دہلی اردو اخبار میں جا بجا موجود ہیں ۔ان سے پہلے اسپاٹ رپورٹنگ کے شواہد نہیں ملتے ۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :اردو صحافت اور مولوی محمد باقر دہلوی ۔ص۲۰۲ تا۲۰۵)
جس وقت انگریزی فوج کے ہندوستانی سپاہی سامراج کی مکروہ پالیسیوں کے خلاف متحد ہورہے تھے اور کارتوسوں پر ممنوعہ چربی کے استعمال پر جارح ہوتے جارہے تھے اس وقت ان جارح رویوں کو منظم بغاوت کی شکل دینے میں ’’ دہلی اردو اخبار‘‘ کے کردار کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مولوی محمد باقر نے ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ میں انگریزوں کی اس قابل مذمت پالیسی کے خلاف مسلسل لکھا اور انگریزی نظام کے خلاف صف آرا ہونے والے فوجیوں اور ہندوستانیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے انگریزی سازشوں کو بے نقاب کیا۔انگریزوں نے کارتوسوں میں گائے اور سور کی چربی کا استعمال کیا تو ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ نے انکے اس فتنہ پرور اقدام کے خلاف آواز احتجاج بلند کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اخبار نے مختلف زاویہ ہائے نظر سے انگریزوں کے اشتہارات و اقوال کا تجزیہ پیش کیاہے اور ثابت کیاکہ کمپنی ہندو اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کررہی ہے۔ ۵ جولائی ۱۸۵۷ کو اخبار کمپنی کے مسیحی مشن اور مذہبی جذبات سے کھلواڑ پر اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کی ہے ۔اس کے علاوہ دیگر شماروں کو بھی ملاحظہ کیا جاسکتاہے ۔
۱۹ جولائی ۱۸۵۷ء مطابق ۲۶ ذیعقدہ ۱۲۷۳ ھ کو دہلی اردو اخبار کا نام بدل کر ’’اخبار الظفر ‘‘ کردیا گیا تاکہ تمام انقلابی اور سامراجی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے افراد بادشاہ کی ذات کو محور مانتے ہوئے ان کے گرد جمع ہوسکیں ۔اس کے بعد کے تمام شمارے اسی نام سے شایع ہوئے ۔کمپنی کی طرف سے بادشاہ کے خلاف جو پروپیگنڈے کیے جارہے تھے ان کا دنداں شکن جواب بھی اخبار میں شائع ہوتا تھا ۔ہندو مسلم یکجہتی کے فروغ کے لیے نمایاں کارنامے سرانجام دیے گئے۔ایسے اشتہارات جو فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے اور انقلابی جدوجہد کو ناکام بنانے کے لیے کمپنی کی طرف سے چھاپے جارہے تھے ،اخبار میں ان کا جواب بھی لکھا گیا ۔
انقلاب۱۸۵۷ میں دہلی اردو اخبار کے صحافتی سرگرمیاں:
۱۸۵۷ ء کی بغاوت شروع ہوتے ہی دہلی اردو اخبار نے اپنا اعتدال پسند رویہ چھوڑ کر انگریزوں کے خلاف محاذ کھول دیا۔ایسا نہیں ہے کہ ستّاون کی بغاوت سے قبل اخبار انگریزوں کی آمرانہ پالیسیوں اور جابرانہ نظام کے خلاف نہیں لکھتاتھا، اس لکھنے میں احتیاط اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا تھا۔ مگر ستّاون کی بغاوت کا آغاز ہوتے ہی اخبار ہندوستانی سپاہیوں کے شانہ بہ شانہ نظر آیا۔ ایک طرف باغی انگریزی نظام کی چولیں ہلانے میں مصروف تھے اور کمپنی کے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا جارہا تھا تو دوسری طرف دہلی اردو اخبار کے ایڈیٹر سڑکوں پر گھو م گھوم کر خبریں جمع کررہے تھے تاکہ انہیں اخبار میں چھاپ کر عوام تک پہونچانے کے ساتھ ساتھ ریکارڈ کے طورپر بھی محفوظ کردیں۔مولوی محمد باقر نے نہ صرف یہ کہ بغاوت کی خبروں کو اخبار میں جگہ دی بلکہ انگریزی پروپیگنڈہ کی بیخ کنی ۔غدر کے ایام میں اس ایڈیٹر کا سڑکوں پر بیباکی کے ساتھ گھوم گھوم کر خبریں اکٹھا کرنا آسان کام نہیں تھا جو علی الاعلان انگریزوں کے خلاف اپنے اخبار میں لکھ رہا تھا مگر انہوں نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر جائے موقعہ پر پہونچ کر خبریں جمع کرکے اخبارمیں نشر کیں۔
کشمیری گیٹ کے قریب کمپنی کا اسلحہ خانہ تھا جس میں ہزاروں بندوقیں،لاکھوں کارتوس اور گولہ بارود ذخیرہ کیا گیا تھا۔ ہندوستانی باغیوں کے خوف سے بعض انگریزی حکام اور ملازمین میگزین مین روپوش ہوگئے تھے۔دلی کالج کے پرنسپل ٹیلر بھی اسی جگہ پناہ گزیں تھے۔باغیوں نے اسلحہ خانہ پر قبضہ کے لئے جدو جہد شروع کی، انگریزی حکام بخوبی جانتے تھے کہ اگر یہ سارا اسلحہ باغیوں کے ہاتھ لگ گیا تو کمپنی کے خلاف جنگ میں استعمال ہوگا جسکے نقصانات کا بھی انہیں بخوبی اندازہ تھا۔ انگریزی سپاہیوں میں باغیوں سے مقابلہ کی تاب نہیں تھی اس لئے لفٹینٹ دلوبی کے حکم سے سپاہیوں نے اسلحہ خانہ کو باغیوں کے حوالے کرنے کے بجائے اس میں آگ لگادی۔ آگ لگتے ہی اسلحہ خانہ میں ایسا زور دار دھماکہ ہوا کہ دہلی ہل گئی۔ لفٹینٹ اپنی جان بچاکر فرار ہوگیا اور ہزاروں سپاہی بے موت مارے گئے۔ دہلی پر باغیوں کے تسلط اور کمپنی کو ابتدائی چوٹیں پہونچانے میں اس واقعہ کا بہت اہم کردار تھا۔ اسلحہ خانہ اڑ جانے کے بعد دہلی میں گویا انگریزوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ اخبار اس پورے واقعہ کی رپورٹنگ کچھ اس انداز میں کرتاہے:
’’۔۔۔حقیر فی الفور برائے دریافت حال کوٹھی پر گیاکہ دفعتاَ ایک زلزلہ ٔ عظیم بہ آواز مہیب،اس قدر صدمہ سے معلوم ہواکہ میں جانا کہ حضرت اسرافیل نے صورقیامت پھونک دیا۔غرض دیکھا تو معلوم ہوا کہ میگزین اڑگیا۔غبار تیرہ و تاریک تا سطح کرۂ ہوا چھاگیااور اس میں پتھر اور سنگباری دیوار مثل طیورو برگہائے درخت کے کہ آندھی میں اڑتے ہوںمعلوم ہوتے تھے۔حقیر بدیں خوف کہ مبادا پتھر اس کے یہاں بھی گرکرصدمہ پہنچے اسمائے متبرکہ ورد زبان کرتاہوا نیچے اتر آیا۔انجام کو معلوم ہواکہ پچیس بیس انگریزمع زن و بچہ جو اندر بند تھےان کے مارنے کو غازیان پلٹن سیڑھی وغیرہ کے وسیلے سے دیوار میگزین پر جانب فصیل شہر سے چڑھے۔اندر سے محصورین نے بھی انہیں گولیاں ماریںاور اس اثنا میں دوفیر گراب کی شست باندھ کر محصورین نے ماری مگر چونکہ افسر لوگ بجز قواعد و ضوابط مشاق و آزمودہ کارنہیں ہوتےلہذا ان سے کچھ چنداں کام نہ نکلا۔انجام کو جبکہ دروازہ پر توپیں لگادیںاور ارادہ دروازہ کے توڑنے کا کیا،محصورین نے اس عرصہ میںجو جانب فصیل سرنگ لگارکھی تھی اسے اڑادیا۔کچھ سپاہی بھی ان میں ضائع ہوئے اور اسی شور و شغب میںمحصورین اندر سے بھاگ نکلے۔چنداں آدمی شاید مارے گئے اور باقی نکل گئے کہ اغلب ہے بعد اس کے متفرق مارے گئے ہوں گے‘‘۔(دہلی اردو اخبار ،۱۷ مئی ۱۸۵۷ء۔مولوی محمد باقر )
اس خبر کا انداز ’’اسپاٹ رپورٹنگ‘‘ کے بیحد قریب ہے۔ اس وقت اایسی خبریں لکھنے کا چلن نہیں تھا اور نہ کوئی ایڈیٹر یا اخبار کا نمائندہ جائے واردات پر پہونچ کر رپورٹنگ کا فریضہ ادا کرتا تھا۔ اخبار کے پاس اتنا بجٹ بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ نمائندگان مقررکرسکیں۔بجٹ کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع کا بھی سرے سے فقدان تھا کہ انسان واقعہ کی خبر ملتے ہی جائے موقعہ پر پہونچ سکے۔ ایڈیٹر بھی سماعی خبروں پر زیادہ یقین کرتے تھے یا پھر وقائع نگاروں اور دوسرے اخبار میں شایع شدہ خبروں پر بھروسہ جتایا جاتا تھا۔ دہلی اردو اخبار میں بھی اس طریق کار کو اختیار کیاگیا تھا مگر ۱۸۵۷ ء کے دنوں میں مولوی صاحب نے زیادہ تر خبریں جائے واردات پر پہونچ کرحاصل کیں۔ اس طرح دہلی اردو اخبار اور دیگر اخبار کی رپورٹنگ میں یہ بنیادی فرق ہے کہ اس اخبار کی رپورٹنگ چشم دید ہے۔
اخبار نے دہلی کے علاوہ شمالی ہند اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی بغاوت کی خبریں بھی اہتمام کے ساتھ شایع کیں۔دہلی اور مضافات کی خبریں، باغیوں کا جذبۂ جہاد، انگریزوں کی شکست و ریخت اور دیگر حالات پر اخبار نے قابل ذکر رپورٹیں چھاپی ہیں۔۲۴مئی ۱۸۵۷ کے شمارے میں دہلی کے علاوہ شمالی ہند کے دیگر علاقوں کی فتح یابی، جدوجہد اور باغیوں کی جوانمردی کی خبریں ملتی ہیں۔ان میں کول، بلند شہر، کانپور، لکھنو، آگرہ، جھجر، سکندرہ، غازی آباد، بلب گڑھ، میرٹھ رُہتک اور کرنال شامل ہیں۔ اسی شمارے میں صفحہ اوّل پر مولوی محمد باقر کے فرزند مولوی محمد حسین آزاد کی نظم ”تاریخ انقلاب عبرت افزا“ کو اہتمام کے ساتھ شایع کیا گیاہے۔ یہ نظم انقلابیوں کی حوصلہ افزائی اور انگریزی نظام کی جاں بلبی کی کہانی بیان کرتی ہے۔
دہلی اردو اخبار پر انگریزی افسران کی رپورٹ:
دہلی اردو اخبار کو بدنام کرنے اور اسکی حیثیت کو ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے باضابطہ پروپیگنڈےکئے۔ اسے ایک ’’گندہ اخبار‘‘ کہکر تضحیک کی گئی۔ اسکی خبروں اور طریقۂ صحافت کا تمسخر کیا گیا۔ جبکہ اکثر رپورٹیں ۱۸۵۷ سے پہلے کی ہیں۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ انگریز افسران ’’دہلی اردو اخبار‘‘ اور اسکے ایڈیٹر سے خوش نہیں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو اخبار کی تعریف و توصیف کی جاتی۔ اس کی تضیحک کے جواز تلاش نہ کئے جاتے۔ عام مسلمانوں کو اخبار سے دور کرنے کے لئے اس پر ’’شیعہ اخبار‘‘ ہونے کی تہمت لگائی جاتی رہی۔ اخبار کے ایڈیٹر مسلک کے لحاظ سے شیعہ ضرور تھے مگر ان کا عقیدہ شدت پسند شیعوں سے باالکل مختلف تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اخبار میں خالص شیعہ عقائد سے متعلق گفتگو نہیں کرتے۔ انگریزی حکام نے جو رپورٹیں ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ کے سلسلے میں مرتب کی ہیں وہ متضاد ہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ وہ حاکم جو اخبار سے عداوت رکھتے تھے یا ایڈیٹر سے دلی عناد تھا،انہوں نے اخبار کو اہمیت دینے کی کوشش نہیں کی ،اسکے برخلاف بعض و ہ حاکم جو ایمانداری اور تعصب سے مبّرا رپورٹ بناتے تھے انکے یہاں اس اخبار کی اہمیت اور حیثیت کو بھی واضح کیا گیاہے۔ ۱۸۵۰ ء کی رپوٹ میں جے ڈی شے رر لکھتاہے :
’’اب بھی اس کے (دہلی اردو اخبار)ایڈیٹر محمد حسین(آزاد) ہی ہیںاخبار خوش اسلوبی سے نکالاجارہاہےخبریں بالعموم دہلی گزٹ سے اخذ کی جاتی ہیں۔گزشتہ سال اس کی اشاعت میں خفیف سی کمی ہوئی ہے ‘‘۔
۱۸۵۱ ء کی رپوٹ میں مطبع دہلی اردو اخبار کی آمدنی اور اسکے مصارف پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے نیز اخبار اور اسکے ایڈیٹر سے معاندت کی وجہ بھی سامنے آتی ہے۔ یہ رپورٹ بھی جے ڈی شے رر نے ہی مرتب کی ہے۔
’’اس سال کے اختتام پر مطبع کا اہتمام سید حسن کے ہاتھ میں تھا، جنہوں نے مطبع کی آمدنی اور اخراجات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتلایا ہےکہ آمدنی سے مطبع کے اخراجات وضع کرنے کے بعد جو رقم بچتی ہے و ہ غریبوں کی امداد اور اعانت پر صرف کی جاتی ہے۔اخبار کی لکھائی چھپائی اگر چہ صاف ستھری ہوتی ہے،مگر اس میں دلچسپ مضامین نہیں ہوتے۔اخبار میں عموما روزمرہ کی خبریں ہوتی ہیں،اور ان کو فراہم کرنے کے لئے بھی ایڈیٹرمقامی انگریزی اخبارکی خبروں کا ترجمہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا،جیساکہ پہلے کیا جاتا تھا،بلکہ دوسرے دیسی اخباروں کی خبریں ہی نقل کردی جاتی ہیں۔دہلی اردو اخبارکی اشاعت بھی اب بہت گرگئی ہے۔پہلے اس کی اشاعت ۷۳ تھی جو اب صرف ۴۴ رہ گئی ہے۔قیمت دو روپے ماہوار ہے،جو اور اردو اخباروں کے مقابلے میں زیادہ ہی ہے‘‘۔
اس رپورٹ کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ رپورٹ دہلی اردو اخبارپریس کے مصارف کو واضح طورپر بیان کررہی ہے۔ اخبار اپنی باقی ماندہ آمدنی کو غریبوں پر صرف کرتاہے جس سے اخبار کے متعلق قارئین کے دل میں عظمت کا احساس بڑھ جاتاہے۔ اخبار کی چھپائی اور لکھائی کی تعریف بھی کئی گئی ہے۔ اسکے برخلاف رپورٹ کا دوسرا رخ شکایت آمیز ہونے کے ساتھ ساتھ انتقادی لہجہ بھی لئے ہوئے ہے۔ رپورٹ کا بنانے والا اس لئے برہم ہے کہ اخبار میں شایع خبروں میں انگریزی اخبارات کی خبروں کو ترجمہ کرکے شایع نہیں کیا جاتا۔رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس سے پہلے یہ اخبار انگریزی اخبارات کی بعض خبروں کا ترجمہ کرکے شامل کرتا تھا مگر اب شامل کرنے سے کتراتاہے۔
۱۸۵۳ ء کی رپورٹ میںانگریزی حکام کی برہمی میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔ اب اخبار اور پریس کی خصوصیات بیان نہیں کی جاتیں بلکہ اس کو ایک کمتر اورحقیر درجہ کا اخبار ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ رپورٹ سی پی سی اسمتھ نے مرتب کی ہے جس میں تعصب کی جھلک نمایاں ہے۔
’’دہلی اردو اخبار’’مطبع اردو اخبار‘‘ میں ہی چھپتاہےاور یہیں سے محمدحسین جو دلی کالج کے سابق طالب علم ہیں،اس کو شایع کرتے ہیں،لیکن اس کے ایڈیٹر ان کے والد محمد باقر ہیں۔یہ ایک گندا اخبار ہے جو ذاتیات سے بھرا رہتاہے۔مقامی باعزت شرفاجو ایڈیٹر کے مذہبی خیالات سے اختلاف رکھتے ہیں،یا جن سے کسی اور وجہ سے و ہ ناراض ہیں،ان پر اپنے اخبار کے صفحات میںوہ براہ راست یا باالواسطہ حملے کیا کرتاہے‘‘۔(صوبہ شمالی و مغربی کے اخبارات و مطبوعات ۔عتیق احمد صدیقی ۔مطبوعہ انجمن ترقی اردو علی گڑھ ۔۱۹۶۲ء)
رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اسمتھ مولوی محمد باقر اور قاری جعفر علی کے مذہبی تنازعات سے بھی پوری طرح واقف تھا۔ رپورٹ میں اسی تنازع کی طرف اشارہ کرکے اخبار کو حقارت سے یاد کیا گیاہے۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ مولوی جعفرعلی کو انگریزوں کی حمایت حاصل تھی اگر ایسا نہ ہوتا تو اسمتھ اپنی رپورٹ میں انکے لئے بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا مگر اس کی خاموشی یہ ثابت کرتی ہے کہ مولوی جعفری علی کو مقدسات اہلسنت کی اہانت پر اکسانے میں انہی جیسے حکام کا ہاتھ تھا لہذا وہ کبھی مولوی باقر کی تعریف اور مولوی جعفر علی کی مذمت نہیں کرسکتے تھے۔ لہذا ضروری ہے کہ کسی کی کردار کشی اور شخصیت پر بیجا الزام تراشی سے پہلےاس عہد کے حالات اور سیاست کو بھرپور تجزیاتی مطالعہ کیا جائے۔ انگریزوں نے وطن پرستوں کے خلاف مختلف حیلہ سازیاں کیں تاکہ انہیں عوام کے درمیان بدنام کیا جاسکے۔ ان کے فرضی دستخط بنائے گئے، انکے ناموں سے جعلی خطوط لکھے گئے اور فرضی رپورٹیں بناکر لوگوں کو گمراہ کیاگیا۔مؤرخین ہمیشہ ریاست کے زیر اثر ہوتے ہیں، الّایہ کہ کوئی انصاف پسند اور حق نویس اس عہد کے حقائق کو قلم بند کرنے کی کوشش کرے،ورنہ تاریخ کے صفحات پر جو کچھ موجود ہے وہ سب اعتبار کے لائق نہیں ہے۔
غدر کی تباہی اور مولوی صاحب کا خاندان:
۱۸۵۷ ء کی بغاوت کی ناکامی کے بعد مولوی صاحب کو سزائے موت سنادی گئی۔ انکے گھر کو نذر آتش کردیا گیا جس میں انکی لائبریری، اخبارات کی تمام جلدیں،مال و اسباب اور اہم مخطوطات جل کر راکھ ہوگئے۔ منقولہ و غیر منقولہ املاک پر سرکاری قبضہ ہوگیا اور مولوی صاحب کے اکلوتے فرزند مولوی محمد حسین آزاد کی گرفتاری کو نوٹس بھی جاری کردیاگیا۔ باپ کی شہادت کے بعد مولانا محمد حسین آزاد انگریزوں کے عتاب سے چھپتے چھپاتے پھرتے رہے۔ اسی دوران انہوں نے لکھنؤ کا سفر بھی اختیار کیا مگر لکھنؤ جو کبھی کسی کو آسانی سے قبول نہیں کرتا،آزادؔ کو بھی قبول نہیں کیا۔ آزاد کی آدھی عمر دربدری اور عالم وارفتگی کی نذر ہوگئی۔ کبھی وہ لکھنؤ میں رہے اور کبھی پنجاب اور لاہور کی گلیوں میں سرگرداں گھومتے رہے۔ آزادؔ ایک حساس طبیعت کے مالک تھے۔ انہوں نے باپ کی شہادت کو بہت قریب سے دیکھاتھا۔ گھر کی تباہی اور املاک کی بربادی کا منظر انکی نگاہوں کے سامنے تھا ایسے پرآشوب حالات میں کسی کا بھی ذہنی توازن بگڑ سکتاہے۔ جس خاندان نے ہمیشہ دہلی میں عزت و تکریم حاصل کی ہو، علمی جلالت اور ادبی حیثیت کا لوہا منوایا ہو اورملک و قوم کی بے لوث خدمات انجام دی ہوں اس خاندان پر اچانک ایسی مصیبت آپڑے تو یقینا َ اس خاندان کے ورثاء کی ذہنی حالت کا اندازہ لگاپانا مشکل ہوگا۔آزادؔ جو اب دربدراور آوارہ وطن تھے،کہیں سرچھپانے کی جگہ نہیں تھی اور انگریز انکی کھوج میں لگے ہوئے تھے۔ جان کی حفاظت آسان نہیں تھی۔ ہر وقت دشمن کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ ذہن مفلوج ہوچکا تھا اور تمام راہیں مسدود ہوچکی تھیں۔ایسے عالم میں دیوانگی کا ذہن پر مسلط ہوجانا انتہائی مظلومیت کی دلیل ہے۔درمیان میں دیوانگی سے افاقہ بھی ہوا مگر آخر عمر تک وہ اس مرض سے نجات نہ پاسکے۔ اگر وہ اس ذہنی وارفتگی کا شکار نہ ہوتے ادب کی مزید خدمت انجام دیتے اور نہ جانے کتنے گہر ہائے آبدار جو انکے ساتھ قبر میں دفن ہوگئے،زمانے کے سامنے ہوتے۔
کہتے ہیں کہ آزاد ؔ کی وارفتگی کی وجہ انکی بیٹی کا اچانک فوت ہوجاناہے۔ یقینا آزاد ؔ کو اپنی بیٹی سے بڑی انسیت تھی اور انکے لئے بیٹی کی موت نہایت صدمۂ جانکاہ تھا مگر یہ وارفتگی کا غلبہ اچانک نہیں تھا۔ اسکے اسباب و علل تھے۔ آزادؔ جو اس قدر مصیبتیں اور غم جھیل کر ایک منزل تک پہونچے تھے، کسی طرح انہوں نے مصائب و آلام کی سختیوں کی تاب لاکر خود سنبھالا تھا مگر ابھی انکی طبیعت نے مکمل سنبھالانہیں لیا تھاکہ انکی بیٹی جو انکے دل کے بہت قریب تھی،فوت ہوگئی۔ آزاد جو مسلسل صدمے اور مصائب جھیلتے آرہے تھے اس غم کو برداشت نہیں کرسکے۔ ذہنی توازن جاتا رہا اور پھر تاعمر اسی مرض کا شکار رہے۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ آزادؔ بیٹی کی موت کےصدمے کی وجہ سے دیوانگی میں مبتلا ہوگئے تھے بلکہ انکی دیوانگی کے پیچھے وہ مصائب وآلام سے بھرا ہوا ماضی ہے جو کبھی انکے ذہن سے محو نہیں ہوسکا۔
مولوی محمد باقر کی شہادت
۱۶ ستمبر ۱۸۵۷ء کو مولوی محمد باقر کو پرنسپل ٹیلر کے قتل کے جرم میں قتل کردیا گیا ۔پرنسپل ٹیلر سے مولوی صاحب کے گہرے مراسم تھے ۔دہلی اردو اخبار کی بعض نصابی کتابیں مولوی صاحب کے پریس سے شائع ہوتی تھیں ۔ٹیلر اور مولوی صاحب کے دوستانہ تعلقات کا ذکر سبھی نے کیاہے ۔لیکن اس حقیقت کو بیان نہیں کیا گیاکہ پرنسپل ٹیلر اس بات کے سخت خلاف تھے کہ مولوی صاحب اپنے اخبار میں ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے کی مہم کا پردہ فاش کررہے تھے ۔اس بات کو لیکر دونوں کے درمیان کشیدگی بھی پیدا ہوئی مگر مولوی صاحب نے حق بیانی سے قدم پیچھے نہیں کھینچے ۔پرنسپل ٹیلر سے دوستی کی بنیاد پر بعض کم نظر افراد مولوی صاحب پر انگریز پرستی اور وطن مخالف ہونے کا بے بنیاد الزام بھی عائد کرتے ہیں ،جس پر ہم نے اپنی کتاب ’’اردو صحافت اور مولوی محمد باقر دہلوی‘‘ میں تفصیلی گفتگو کی ہے ۔
مولوی محمد باقر رحمتہ اللہ علیہ کی شہادت کے متعلق بھی کئ قول پائے جاتے ہیں۔ کسی مؤرخ نے لکھا ہے کہ انہیں انگریزوں نے گولی ماردی تھی اور کسی تاریخ نویس نے لکھاہے کہ انہیں توپ کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا گیا تھا۔ دوسرا قول زیادہ معروف ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالحق لکھتے ہیں ’’ ۱۸۵۷ کے ہنگامہ و آشوب میں بہ ہزار دقت ٹیلر صاحب کالج کے احاطہ میں آئے اور اپنے بڈھے خانساماں کی کوٹھری میں گھس گئے۔ اس نے انہیں مولوی محمد حسین آزاد کے والد کے گھر پہونچادیا۔ مولوی محمد باقر سے انکی بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ انہوں نے ایک رات تو ٹیلر صاحب کو اپنے امام باڑے کے تہہ خانے میں رکھا لیکن دوسرے دن جب انکے امام باڑے میں چھپنے کی خبر محلے میں عام ہوگئی تو مولوی صاحب نے ٹیلر صاحب کو ہندوستانی لباس پہناکر چلتا کیا مگر انکا بڑا افوسناک حشر ہوا۔ غریب بیرام خان کی کھڑکی کے قریب جب اس سج دھج سے پہونچے تو لوگوں نے پہچان لیا اور اتنے لٹھ برسائے کہ بیچارے نے وہیں دم دے دیا۔ بعد میں مولوی محمد باقر اس جرم کی پاداش میں سولی چڑھادیے گئے اور انکا کوئ عذر نہ چلا‘‘۔ (مرحوم دہلی کالج دوسرا ایڈیشن 1945 ص 61 از ڈاکٹر عبدالحق )خواجہ احمد فاروقی نے لکھاہے کہ مولوی ذکاء اللہ ،جہان بانو نقوی اور آغا محمد باقر کے بیانات اس سے قدرے مختلف ہیں لیکن سب اس پر متفق ہیں کہ مولوی محمد باقر کو پرنسپل ٹیلر کے قتل کے جرم میں موت کی سزا دی گئی۔ (مقدمہ دہلی اردو اخبار از خواجہ احمد فارقی ) انکے قتل کے سلسلے میں امداد صابری کی بیان کردہ روایت کسی حدتک حقیقت سے قریب معلوم ہوتی ہے(مطالعہ کریں : تاریخ صحافت جلد اول ص219) مگر ڈاکٹر عبدالحق کی بیان کردہ روایت اس لیے بھی مستند نہیں ہوسکتی کیونکہ ٹیلر کو بھی یہ علم تھا کہ اگر وہ پوری شان و شوکت کے ساتھ گلی کوچوں میں گھومیں گے تو انکا کیا حشر ہوگا۔ اس علم کے باوجود مولوی صاحب کے پہنائے ہوئے ہندوستانی لباس میں انکا سج دھج کر نکلنا انکی شناخت اور رنگ کو نہیں چھپا سکتا تھا لہذا یہ بعید ہے کہ ٹیلر صاحب سج دھج کر نکلے ہوں بلکہ ٹیلر صاحب اپنی شناخت چھپانے کے لیے ہندوستانی لباس پہن کر چھپتے چھپاتے نکلے ہوں گے اور انکی شناخت ہونے پر عوام نے انہیں پیٹ پیٹ کر مارڈالا ہوگا یہ قرین قیاس ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ مولوی صاحب کو ان کی حق بیانی ،سامراجی نظام کے خلاف مزاحمت اور مجاہدین آزادی کی حمایت کے جرم میں قتل کیا گیا ۔ورنہ ان کا قاتل ولیم اسٹیفن رائیکس ہوڈسن ، بخوبی جانتا تھا کہ مولوی محمد باقرکے پرنسپل ٹیلر سے گہرے مراسم تھے ،جیساکہ مورخین نے نقل کیاہے ،اس لیے ٹیلر کے قتل کے جرم میں ان کا قصاص کیا جانا قرین عقل نہیں ہے ۔
مختصر یہ کہ آج بھی شہید مولوی محمد باقر دہلوی کی خدمات کوانکے شایان شان یاد نہیں کیا جاتا ۔ انکی قومی ایثار ،ادبی و صحافتی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ دہلی اردو اخبار کو عرصۂ دراز تک کامیابی کے ساتھ نکالنا ہی انکا کارنامہ نہیں ہے بلکہ قومی و ملکی خدمت،مذہبی و مسلکی ہم آہنگی ور تحریک آزادی کی جدوجہد میں ان کے بے مثال کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ان کے قلمی آثار نایاب ہیں ۔ان کی بازیافت کے لیے بھی کوئی کوشش نظر نہیں آتی ۔