۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
سید نثار حسین

حوزہ؍برصغیر ہند و پاک میں روایات و اجتہاد کا اجازہ حاصل کرنے کے علاوہ نماز جمعہ و جماعت کا اجازہ حاصل کرنے کی روایت بھی عام رہی ہے، ہندوستان میں جس کے بانی مجدد شریعت حضرت غفران مآبؒ تھے۔ موجودہ مضمون کا مرکز نماز جمعہ و جماعت کی امامت کے لیے تیس علماء کی اجازت کا وہ متن ہے جسے علامہ سید نثار حسین عظیم آبادی کی خدمت میں اکابر علماء کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی؍

از قلم: سید لیاقت علی کاظمی

برصغیر ہند و پاک میں اجتہاد و روایات کا اجازہ حاصل کرنے کے علاوہ نماز جمعہ اور جماعت کا اجازہ حاصل کرنے کی روایت بھی عام رہی ہے ہندوستان میں جس کے بانی مجدد شریعت حضرت غفران مآب تھے۔ موجودہ مضمون کا مرکز نماز جمعہ و جماعت کی امامت کے لیے تیس علماء کی اجازت کا وہ متن ہے جسے علامہ سید نثار حسین عظیم آبادی کی خدمت میں اکابر علماء کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ مضمون کے آغاز میں علامہ سید نثار حسین کی سوانح اور کارنامے پیش کیے گئے ہیں۔

مولانا سید نثار حسین بن سید اکبر حسین شوّال 1268ہجری میں علی نگر ، گیا، بہار میں پیدا ہوئے اور آپ کے خاندان میں کچھ افراد جیسے مولوی سید افضل علی بن مولوی وزیر علی اور مولوی ذاکر حسین بھی علماء میں سے تھے۔آپ نے مختلف اساتذہ سے کسب فیض کیا اور فارسی زبان پر مضبوط گرفت رکھتے تھے اسی طرح فارسی اور اردو میں اشعار کہتے تھے اور اصلاح کے لیے مرزا عطا کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کے ابتدائی اساتیذ میں مولوی وزیر علی ، مولوی سید ذکی زنگی پوری ، مولوی سید علی حسین اور مولوی سید محمد عسکری لکھنوی کا نام آتا ہے جن سے میزان و منشعب اور صرف و نحو کی تعلیم لی۔

شادی کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے لکھنؤ کا سفر کیا اور وہاں مولوی علی نقی، مولوی حبیب حیدر(رئیس سجلات) اور ممتاز العلماءسید محمد تقی، سید العلماء ثانی سید محمد ابراھیم اور ملک العلماء سید بندہ حسین فرزندسلطان العلماء ، مفتی محمد عباس اور علامہ سید احمد علی محمد آبادی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور مروّجہ علوم سیکھے۔

علمائے اہل سنّت میں سے مولوی عبد الحی اور مولوی فضل اللہ اور مولوی عبد النعیم سے درس حاصل کیا جب کہ علم طب کے حصول کے لیے طبیب عالم نوّاب مظفر حسین خان بن نوّاب مسیح الدولہ سے استفادہ کیا اور بوعلی سینا کی کتاب قانون کو فتحپور بسواں کے تعلقہ دار مولاناشیخ تفضّل حسین کی خدمت میں تمام کیا اور پھر علوم طب کی تکمیل کے بعد اپنے وطن واپس پلٹے اور طبابت اور علمی امور میں مشغول رہے۔

چھ بار حج اور نو بار عتبات عالیات کی زیارت سے مشرّف ہوئے اور دو بار مشہد مقدس کا سفر کیا۔ ایک سفرِ حج کے دوران مولانا سید نیاز حسن برستی حیدرآبادی اور مولوی سید مظہر علی بنارسی حیدرآبادی سے ملاقات رہی اور یہی دو بزرگ آپ کو حیدرآباد لے آئے۔

حیدرآباد میں تین سو روپیہ ماہوار پر اس وقت کے حیدرآباد کے مضافات میں واقع یونانی ہاسپیٹل دار الشفاء میں سرپرست کے طور پرمشغول ہوگئے اور 1337 ہجری تک ریٹائر ہونے تک رہے۔

ایران کے اپنے دوسرے سفر میں ناصر الدین شاہ سے ملاقات رہی اور اس نے انھیں "عمدۃ العلماء، بحر العلوم ، حسام الاسلام" جیسے القاب سے نوازا۔

عراق کے سفر میں ایک مہینہ آقائے میرزا محمد حسن شیرازی ، چار مہینے شیخ زین العابدین مازندرانی اور ملّا حسین اردکانی ، ایک مہینہ میرزا حبیب اللہ کے درس میں شرکت کیا۔

آپ نہایت خوش اخلاق، سادہ زیست، مقدّس اور متقی تھے،ایک پّر افتخار زندگی بسر کرنے کے بعد آخر کار 1338 ہجری کو حیدر آباد دکن میں انتقال ہوا۔مولوی سید زین العابدین آپ کے فرزند ہیں۔

آپ کے شاگرد: مولوی سید میرن، مولوی سید بندہ حسن، مولوی سید اکابر حسین زیدپوری، مولوی سید احمد حسین برستی، مولوی سید بن علی۔

آپ کی تالیفات تقریباً 38 تمام اور ناتمام عربی، فارسی اور اردو زبان میں ہیں ۔

آقا بزرگ تہرانی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب الذریعہ میں آپ کے مختصر حالات کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی بعض تالیفات کا ذکر کیا ہے اور "فاضلِ کامل و ماہر" جیسے اوصاف سے یاد کیا ہےاور آپ کے اساتیذ میں ممتاز العلماء کے فرزند سید العلماء سید محمد ابراہیم کا ذکر کیا ہے۔

"کتاب الاجازات" کے "سید نثار حسین عظیم آبادی" والے حصے میں بعض علماء کے تصدیق نامے ہیں جو سید نثار حسین عظیم آبادی کی امامت جماعت کی اہلیت و صلاحیت کی تصدیق و تائید میں ہیں جن میں سے اکثر تصدیق نامے مقام وعظ ونصیحت کو آپ کے حق میں تائید کرتے نظر آتے ہیں گویا یہ سارے اجازے امامت جماعت کی اہلیت کو ثابت کرنے کے لیے ہیں مقام فقہ و اجتہاد کو ثابت کرنے کے لیے نہیں ہیں۔جن علماء نے آپ کے لیے امامت جماعت کے تصدیق نامے جاری کیے ہیں ان میں سے دو علماء شیخ ہدایت اللہ ابہری مشہدی اور میرزا محمد رضا واعظ ہمدانی نے آپ کو اجازۂ روایت بھی دیا ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان اجازات اور اس قسم کے اجازات کی ضرورت ہی کیوں پڑی کیونکہ اس طرح کے اجازات کا سابقہ ہمارے یہاں نہیں ملتا جن اجازات کا رواج تھا وہ اجازۂ روایت تھا اور پھر اس کے بعد تیرھویں و چودھویں ہجری میں اجازۂ اجتہاد کا رواج رہا اور اس کے بعد امور حسبیہ میں اجازہ کا رواج ہے،ممکن ہے اس کا جواب یہ ہو کہ کیونکہ آپ طبابت سے وابستہ تھے اس لیے عوام آپ کے پیچھے نماز پڑھنے سے کترا رہی ہو خیر آپ حقیقتاً ایک عالم تھے اور علوم مذہبی پر دسترس رکھتے تھے اور اپنے زیارتی سفر کے دوران بہت سے علماء سے کسب فیض کیا تھا اس لیے علماء نے آپ کے کہنے پر آپ کے لیے تصدیق نامے جاری کردیئے۔

"کتاب الاجازات" کا "سید نثار حسین عظیم آبادی" والا حصہ پی ڈی ایف کی شکل میں الصاق کیا جاتا ہے جس میں علماء کے تصدیق نامے موجود ہیں جس کی تحقیق فارسی زبان میں حجۃ الاسلام علی فاضلی نے انجام دی ہے، ڈاؤنلوڈ فرمائیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .