۲۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 10, 2024
جامعة البنات حیدرآباد

حوزہ؍مسلمان بادشاہوں نے چھوٹے رجواڑوں کو ملا کر ایک عظیم ملک ہندوستان بنایا، خوبصورت عمارتوں اور باغات اور فارسی و اردو جیسی زبانوں کا تحفہ دیا، انگریزوں کی طرح ملک کو برباد کرکے لوٹ کر نہیں لے گئے بلکہ ہندوستان کو اپنا وطن بنا کر آباد کیا اگر وہ مذہبی جبر کرتے تو آج یہاں اتنی بڑی تعداد ہندوؤں کی نہ بستی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق؍حیدرآباد: ہمیں اتحاد کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اور اللہ کے سوا کسی نہ ڈریں۔ان خیالات کا اظہار محترمہ خالدہ پروین صاحبہ ڈائریکٹر امومت سوسائٹی و سوشیل ایکٹیوسٹ نے جامعة البنات حیدرآباد میں منعقدہ 29جلسہ تقسیمِ اسناد و فارغات میٹ اپ پروگرام کے موقع پر کیا۔ جلسہ کا آغاز معلمہ حافظہ و فاضلہ لبنیٰ آفرین کی قرآت سے ہوا۔ اور آیات کی ترجمانی نعمت جہاں طالبہ فضیلت ثانیہ نے پیش کی۔

افتتاحی کلمات نائب صدر معلمہ بشریٰ فاطمہ نے پیش کئے۔ اور جامعہ کی چند اہم امتیازی خصوصیات کا ذکر کیا جو جامعہ کو دیگر دینی مدارس سے ممتاز کرتی ہیں ۔ محترمہ مونسہ بشریٰ عابدی صاحبہ رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جو بطور خاص اس جلسہ کے لیے ممبئ سے تشریف لائی تھیں انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمیں حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مساجد کو ڈھانا ، لاؤڈ اسپیکر نکالنے کی بات کرنا، تاج محل کے 22 دروازے کھولنا۔حجاب اور اذان پر پابندی اس بات کی علامت ہے کہ اب اس ملک سے انصاف ختم ہوچکا ہے ۔ لھذا مسلمانان ہند کی بقاء اسی میں ہے کہ وہ حالات سے ہرگز نہ گھبرائیں نہ مایوس ہوں بلکہ انصاف کے حصول کے لیے جد وجہد کریں ایمان کی سلامتی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور کبھی کمپرومائز کا راستہ اختیار نہ کریں۔ ان شاء اللہ درست راستہ اختیار کریں گے تو اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔ جب سے آر ایس ایس قائم کی گئی تب سے ہی یہ ڈسپیوٹ کی کوششیں جاری ہیں وہ جھوٹ کو اتنی دفعہ بول رہے ہیں کہ اسے سچ کر دکھائیں تو ہمیں سچ اتنی دفعہ بولنا ہے کہ جھوٹ کا پردہ فاش ہو۔

ہمارے پرکھوں کو جان بوجھ کر بدنام کیا جارہا ہے تاکہ ہمیں حاشیہ پر لایا جائے ۔ مسلمان بادشاہوں نے چھوٹے رجواڑوں کو ملا کر ایک عظیم ملک ہندوستان بنایا ، خوبصورت عمارتوں اور باغات اور فارسی و اردو جیسی زبانوں اور مغلئ کھانوں کا تحفہ دیا ، سلے ہوئے بہترین لباس انہی کی بدولت عام ہوئے یہاں کی تہذیب تو بغیر سلے کپڑے ساڑی اور دھوتی کی شکل میں ہوا کرتی تھی۔ معاشی ترقی دلوائی کہ ہندوستان سونے کی چڑیا کہلانے لگا۔ انگریزوں کی طرح ملک کو برباد کرکے لوٹ کر نہیں لے گئے بلکہ ہندوستان کو اپنا وطن بنا کر آباد کیا ۔اگر وہ مذہبی جبر کرتے تو آج یہاں اتنی بڑی تعداد ہندوؤں کی نہ بستی۔

جامعہ ھذا کی صدر معلمہ آنسہ سمیہ صاحبہ جو کہ جامعہ کی پہلے بیچ کی فارغہ بھی ہیں۔۔۔۔ کہا ہے کہ پینڈمک میں ناسازگار حالات کے باوجود آن لائن موڈ کے ذریعہ طالبات کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔ دینی مدارس اسلامی تہذیب کی بقاء اور اس کے احیاء کے امین ہیں عورت و مرد دونوں کو شریعت کے مقرر کردہ الگ دائرہ کار میں کام کرتے ہوئے دور جدید کے تجدد سے بچنے کی ضرورت ہے جو فتنہ فیمنزم کی شکل میں رائج ہوچکا ہے اس کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کے احیاء اور اسکی پہریداری کی زمہ داری دینی مدارس اور تحریکات پر عائد ہوتی ہے ۔ اور اس کام کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے قدم بقدم چلنے کی ضرورت ہے ۔

محترمہ عطیہ ربی صالحاتی ڈائریکٹر عطیہ ربی ایجوکیشن اکیڈمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی شخص کے تعلیم یافتہ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ اس کے اندر اعتماد ہو، وہ تخلیقی صلاحیت رکھتا ہو اور بہترین اخلاق و کردار کا حامل ہے ۔

محترمہ زبیدہ وہاب صاحبہ ناظمہ شعبہ دینی تعلیم جماعت اسلامی نے اپنے مخصوص مشفقانہ انداز میں طالبات کو نصیحت کی کہ وہ اعلی اخلاق و کردار اپنائیں اور تکبر و اخلاقی برائیوں سے بچتے ہوئے اپنے حاصل کردہ علم کا عملی نمونہ بن جائیں۔

یہ تقسیم اسناد کی ایک پراثر تقریب کے ساتھ فارغات کی میٹ اپ بھی تھی جس میں جامعہ کی تینتیس برسوں کی تین سو سے زائد فارغات نے شرکت کی ۔

اس نوعیت کا پروگرام جامعہ میں پہلی بار منعقد کیا گیا ۔جس کا مقصد جامعہ کی فارغات میں اپنے نصب العین کے تئیں جذبات کو بیدار کرنا اور انہیں یہ پیغام دینا تھا کہ ملت اسلامیہ کے احیاء کے لیے ہر فارغہ اپنی جگہ اقامت دین کے سپاہی کا کردار ادا کرے اور جہاں بھی رہے دین کی سربلندی و اصلاح کے لیے کوشاں رہے۔ چند فارغات نے بھی مادر علمی آج کی ملاقات کے موقع پر اپنے دلی تاثرات کا اظہار کیا اور جذبات سے لبریز احساسات بیان کیے ۔وہ کئی سالوں بعد اپنی ساتھیوں سے ملاقات کر کے جذباتی ہو گئی تھیں۔

جامعہ کی طرف سے طالبات کے لیے تحائف پر مشتمل ایک بیگ ہدیہ دیا گیا ،جس میں یادگار اور خوبصورت چیزیں بشمول بک مارکس ، نوٹ بک ،جامعہ کا تعارف ،جامعہ کا نام کندہ کیا ہوا قلم، اور مسنون دعاؤں کی ایک کتاب دی گئی۔ دعائیہ کتاب کا ہدیہ ہدی بک ڈسٹریبیوٹر کے مینیجر عبد الباسط شکیل صاحب کی طرف سے تھا۔

جلسہ میں علم دوست خواتین و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ اور جلسہ کو سراہا ۔اور یہ عزم لے کر واپس ہوئیں کہ احیاء اسلام کی کوششوں میں اپنا حصہ ضرور ادا کریں گی۔ڈاکٹر میمونہ صاحبہ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ مائیکرو بیالوجی دکن میڈیکل کالج نے جامعہ کے لیے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا ۔وہ کسی ایم میٹنگ کی وجہ سے جلسہ میں شریک نہ ہوسکیںمحترمہ آسیہ تسنیم صاحبہ ناظمہ شعبہ خواتین تلنگانہ جماعت اسلامی نے بھی اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا جو اپنی کسی مصروفیت کے سبب نہیں آسکیں۔اس پر اثر جلسہ کا انعقاد ناظم جامعہ حافظ رفیق احمد نظامی اور صدر جامعہ ڈاکٹر سید معراج الدین کی زیر نگرانی ہوا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .