تحریر: سکندر علی بہشتی
حوزہ نیوز ایجنسی | انقلاب کسی معاشرہ میں ذہنی، فکری، عقیدتی، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی سمیت ہرپہلو سے جامع تبدیلی کانام ہے جو تمام انبیاء واولیائے الہٰی کے اہداف میں سرفہرست رہاہے۔
قرآن کریم ،سیرت پیغمبر وائمہ معصومین ؑ میں انقلاب کے فلسفہ واسباب واضح صورت میں نظرآتاہے۔انقلاب اسلامی بھی قرآنی انقلاب ہی ہے۔ جوالہٰی ادیان وانبیاء کی تعلیمات وکردار کی روشنی میں اسلامی اقدار کے احیا کی خاطر وجود میں آیا ہے۔ اورقرآن وسنت کی روشنی میں ہمہ جہت تغیر وتحول اس کا حقیقی مقصد ہے۔اسلامی انقلاب کے فلسفہ کوسمجھنےکے لیے ہمیں سب سے پہلے انبیاء کے اہداف کی طرف نظر کرنی چاہیے۔
قرآنی آیات کی روشنی میں انبیا کے اہداف میں توحید وبندگی،عدالت کا قیام،آزادی، اسلامی حکومت کی تشکیل،تعلیم وتزکیہ ،اختلافات کاحل جیسے اہم مقاصد نمایاں طور پر نظرآتے ہیں۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی مختلف زمانوں کے تقاضوں اور فرق کے باوجود انہی اہداف کے حصو ل کی راہ میں قربایاں پیش کیں۔حفظ اصول اسلام، مسلمانوں کی حفاظت،انحرافی گروہوں اور ان کے نظریات سے مسلمانوں کو بچاکر رکھنا ، اخوت وبھائی چارگی ،قرآن وسیرت رسول اور اسلامی اصولوں پر مبنی اسلامی نظام ومعاشرہ کاقیام تمام ائمہ کی جدوجہد کامحور رہاہے۔
اسی تسلسل میں اگر انقلاب اسلامی کے رہبران خصوصا با نی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی اور رہبر انقلاب کے فرامین کی جانب توجہ دیں تو امامین انقلاب کی نظر میں بھی انقلاب اسلامی کااصل مقصد بھی قرآن،انبیا اور ائمہ معصومین کے مذکورہ اہداف ہی ہیں ۔
اسلام کا نشر و فروغ
امام خمینی ایک جگہ دنیا کے سامنے مکتب اسلام پیش کرنے کو اسلامی انقلاب کا مقصد قرار دیتے ہیں:
ہم ابھی بیچ راستے میں ہیں یعنی وہ چیز جو اسلام ہم میں سے ہر ایک سے چاہتا ہے کہ ہم سب جگہ اسلام کا صحیح تعارف کرائیں اس کی نسبت ابھی راستے کے شروع میں ہیں کہ ہمیں یہ کام ضرور انجام دینا ہے۔ہم اسلامی اقدار کو مشرق ومغرب پر مسلط کرنا نہیں چاہتے،کسی بھی شخص اور جگہ پر اسلام مسلط نہیں کیا جائے گا،اسلام مسلط کئے جانے کامخالف ہے،اسلام مسلط کرنے والا مکتب نہیں۔اسلام نے آزادی کی ہر شکل کی ترویج کی ہے۔ہم صرف اسلام پیش کر رہے ہیں جوشخص چاہے قبول کرے جو چاہے قبول نہ کرے۔(اسلامی حکومت اورولایت فقیہ،امام خمینی،۱۴۲۹ھ:۴۸۵)
اسی طرح فرماتے ہیں:
اسلام کے مقدس قوانین تسلیم کرنے کے بعد اسلام کی سربلندی کے راستہ میں جان ومال کے ذریعہ دفاع کرنے سے زیادہ واجب کوئی چیز نہیں۔(ایضا۔ص479)
مستضعفین جہاں کی حمایت:
حضرت امام انقلاب کا مقصد مستضعفین جہاں کی حمایت قرار دیتے ہیں:
ہمیں دنیا کے مستضعفین کی حمایت کرنا ہے،ہمیں انقلاب کو دنیا میں برآمد کرنے کے لیے کوشش کرنا چاہیے اور یہ فکر چھوڑ دیں کہ ہمیں اپنا انقلا پوری دنیام میں نہیں پہنچانا ہے،کیونکہ اسلام مسلمان ممالک کے بیچ فرق کا قائل نہیں ہے اور وہ پوری دنیا کے مستضعفین کاحامی وہمدرد ہے۔
(اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ ،امام خمینی،۱۴۲۹ھ:۴۸۵)
عدالت کا قیام:
ایک اہم مقصدعدالت کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: جنگ ایک ایسی چیز ہے جو عدالت کے لئے ضروری ہے،اگر لوگ عادل ہوں تو پھر جنگ کی ضرورت نہیں ہے لیکن جب ایک گروہ مستضعفین کی اکثریت پامال ہورہی ہو،جبکہ اسلام اور مسلمانوں کا وقار خطرہ میں ہو، جبکہ ہماری اس ملت کا وقار خطرہ میں ہو،ہم نے جنگ شروع نہیں کی،ہم اب تک اپنا دفاع کر رہے ہیں۔(امام خمینی،۱۴۲۹ھ:۴۸۱)
امام خمینی کی نظر میں اسلام کا نشروفروغ، مظلومین کی حمایت، عدل وانصاف کا قیام اور اسلام ومسلمانوں کا دفاع انقلاب کے بنیادی اہداف میں سے ہیں۔
یہ ذمہ داری اب علمائے امت کی ہے کہ وہ وارث انبیاء ہونے کے لحاظ سے انہی اہداف کو اپنا مطمع نظر قرار دے۔ اور انبیاء وائمہ معصومین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی توانائیاں اسلامی انقلاب کے لیے خرچ کریں اور انقلاب اسلامی کے لیے کوشاں فکر وعلمی شخصیات، تحریکوں،تنظیموں اور علما کے لیے ضروری ہے۔ انقلاب اسلامی کی حقیقی شناخت کے لئے قرآن کریم ،سیرت پیغمبر،ائمہ معصومین اور دیگر اجتماعی مصلحین کی سیرت ونظریات کا مطالعہ کرئے تاکہ فلسفہ انقلاب کو سمجھ کر اس راہ میں قدم اٹھا سکیں۔