حوزہ نیوز ایجنسی سے یوم القدس کے تعلق خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صدر الجواد فاؤنڈیشن مولانا مناظر حسین نقوی اپنی گفتگو کا آغاز سورہ نساء کی آیہ 75 سے کرتے ہیں « وَ ما لَکُمْ لا تُقاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجالِ وَ النِّساءِ وَ الْوِلْدانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْ هذِهِ الْقَرْیه الظَّالِمِ أَهْلُها وَ اجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا وَ اجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْکَ نَصِیراً »؛
ترجمہ -: اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ھمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں , اور ھمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے ,
مولانا مناظر حسین نقوی نے کہا کہ یوم القدس یومِ حمایتِ مظلوم ہے ، یوم قدس ظلم پر زمین تنگ کرنے کا دن ہے ، یوم قدس مظلوم کے شانہ سے شانہ ملانے کا دن ہے ،یوم قدس پرچم و رایتِ مظلوم بلند کرنے کا دن ہے
"یوم القدس عالمی ہے اور یہ صرف قدس سے متعلق نہیں ہے. یہ مستضعفین کا مستکبرین کے ساتھ مقابلے کا دن ہے، یہ ان اقوام کے مقابلے کا دن ہے جو امریکہ اور غیر امریکہ کے ظلم تلے دبے ہوئی تھیں، ایسا دن ہے جب مستضعفین کو چاہئے کہ مستکبرین کے خلاف پوری طرح تیار ہو جائیں اور ان کو ذلیل و خوار کریں."
صدر الجواد فاؤنڈیشن تمام ملت اسلامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے؛ یہ اسلامی حکومت کا دن ہے. ایسا دن ہے جب اسلامی جمہوریہ کا جھنڈا تمام ممالک میں بلند کیا جانا چاہئے. ایسا دن ہے جب سپر طاقتوں کو سمجھانا چاہئے کہ اب اسلامی ممالک میں آگے نہیں بڑھ سکتے. میں یوم القدس کو اسلام اور رسول اکرم کا دن سمجھتا ہوں، ایسا دن ہے جب ہمیں چاہئے اپنی تمام طاقتوں کو یکجا کریں؛ اور مسلمانوں کو اپنے خول سے نکلنا چاہئے، اور اپنی تمام طاقت و توانائی کے ساتھ اجانب اور بیگانوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں."
مولانا مناظر حسین نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "یوم القدس ایسا دن ہے جب تمام سپر طاقتوں کو وارننگ دی جانی چاہئے کہ اب اسلام آپ کے خبیث ہتھکنڈوں کی وجہ سے آپ کے زیر تسلط نہیں آئے گا، یوم القدس، اسلام کی حیات کا دن ہے."
"یوم القدس ایک اسلامی دن ہے، اور یہ ایک عام اسلامی رضاکاروں کا دن ہے. مجھے امید ہے کہ یہ مقدمہ بنے گا ایک "حزب مستضعفین" کے لئے."
"اگر امت مسلمہ نہ جاگی اور اپنے وظایف سے واقف نہ ہوئی، اگر علمائے اسلام نے ذمہ داری کا احساس نہ کیا اور اٹھ نہ کھڑے ہوئے، اگر واقعی اور اصیل اسلام جو اجانب کے خلاف تمام مسلمان فرقوں کے درمیان اتحاد و تحرک کا باعث ہے اور مسلمان اقوام اور اسلامی ممالک کی سیادت و استقلال کا ضامن ہے، اگر بیگانوں اور اجانب کے عوامل کے ہاتھوں اور سامراجی سیاہ پردوں کے اندر بھڑکنے لگے تو اسلامی سماجوں کے لئے اس سے بھی زیادہ سیاہ اور برے دنوں کا انتظار کیجئے اور اسلام کی بنیاد اور قرآن کے احکام کو بہت تباہ کن خطرہ لاحق ہے."
"تاکید کے ساتھ مناسب ہے کہ بلکہ واجب ہے کہ شرعی وجوہات کا ایک حصہ جیسے زکات اور دوسرے صدقات کافی مقدار میں ان راہ خدا کے مجاہدوں کے لئے مختص کیا جانا چاہئے ... اور اپنے تمام افراد اور امکانات کے ساتھ ان کی مدد کرنا واجب ہے."
مولانا مناظر حسین نقوی رہبر معظم انقلاب اسلامی کے کلام کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای کے کلام میں
"مہم چیز یہ ہے کہ اسلامی دنیا کو فلسطین کے مسئلہ سے غفلت نہیں کرنی چاہئے ۔۔۔ امریکہ، استکبار اور صہیونیوں کے حامیوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان فلسطین کو بھول جائیں لیکن امت مسلمہ اور ایرانی عوام کو چاہئے کہ فلسطین کے مسئلہ کو نہ بھولیں۔"
"خود فلسطین کے اندر بھی اس مقدس شعلے کو بھڑکتا رہنا چاہئے۔ وہ جوان وہ خواتین وہ مرد اور وہ تمام ایسے فدا کار لوگ جو فلسطین کے اندر رہ کر غاصب حکومت کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اصلی نقطہ وہی ہے جس پر انھوں نے ہاتھ رکھا ہے، یہ وہی مقام ہے جہاں پر دشمن کو شکست ہو گی۔ یہ جو فلسطینی سرحدوں سے باہر بیٹھ کر یہ آرگنائزیشنیں آپس میں مذاکرت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اور تقریروں میں خود نمایی کر رہے ہیں، ان سے یہ مشکل حل نہیں ہو گی۔ باہر سے اسلامی دنیا کی حمایت اور اندر سے فلسطینی عوام کے محسوس مقابلہ مل کر اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ اور فلسطین کے دشمن کو عبرتناک شکست ہو گی۔"
مولانا نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ "یوم القدس کو منانا چاہئے اور اس کا احترام کرنا چاہئے، اگر دنیا کا میڈیا اس کو منعکس نہ بھی کرے تو نہ کرے۔ وہ لوگ جو فلسطینی زندانوں میں محبوس ہیں ۔۔۔ آپ کی اس صادقانہ نیت اور عزم سے قوت کا احساس کرتے ہیں اور مقاومت کرتے ہیں۔ وہ مبارز شخص جو مقبوضہ فلسطین کے زندانوں میں ہے، اس کو تنہائی کا احساس نہیں ہونا چاہئے تا کہ کھڑا رہ سکے۔ وہ خواتین اور مرد جو بیت المقدس اور غزہ کی پٹی اور اسی طرح فلسطین کے دوسرے شہروں کی گلی کوچوں میں صہیونی اوباش و غنڈوں کے ہاتھوں پٹتے ہیں ان کو یہ احساس ملنا چاہئے کہ آپ ان کی حمایت کر رہے ہیں تا کہ وہ مقاومت کر سکیں۔ ہاں البتہ حکومتوں کے بھی اپنی خاص وظائف ہیں۔"
"میں صراحت سے اعلان کر رہا ہوں کہ ہر فلسطینی جوان جو خون میں نہلا دیا جاتا ہے یا ہر فلسطینی گھرانہ جو بےسرپرست رہ جاتا ہے اور ان کا خاندان بکھر جاتا ہے اس میں امریکی حکومت اور اس کے صدر کا بلا واسطہ طور پر ہاتھ ہے اور وہ اس جرم میں شریک ہے۔"
"فلسطینی مسئلے کا صرف ایک ہی راہ حل ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام فلسطین کی سرزمین میں ایک فلسطینی حکومت تشکیل دی جائے۔"
"فلسطینی مٹی کا ایک ایک بالشت، تمام مسلمانوں کے گھر کا ایک بالشت ہے۔ فلسطینی حاکمیت کے علاوہ کوئی بھی دوسری حکومت اور مسلمانوں کے علاوہ کوئی بھی دوسری حکومت غاصب ہے۔ ہمارا موقف بھی وہی ہے جو امام راحل حضرت امام خمینی نے فرمایا تھا: اسرائیل کو صفحے ہستی سے مٹ جانا چاہئے۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا مسئلہ یہودیوں سے نفرت اور دشمنی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا گھر غصب کیا گیا ہے۔"
مولانا مناظر یوم القدس کے اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
آیت اللہ خامنہ ای کی نظر میں یوم القدس کے اہم اہداف کو ان بنیادی امور میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔
یوم القدس مظلوموں کی مستبد اور ظالموں کے خلاف صف آرائی کا دن
دنیا کے جغرافیائی نقشے سے فلسطین کا نام ختم کرنے اور فلسطین کے مسئلے کو بھول جانے میں رکاوٹ
ایسا دن جب فلسطینی عوام کو یہ احساس ہوتا ہے کہ دوسری اقوام ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں.
امت مسلمہ کی رگوں میں خون پھونکنے کا دن
ایسا دن جب مسلمان اقوام اپنے سربراہوں کی وساطت کے بغیر اپنی بات دوسروں کے کانوں تک پہونچا سکتے ہیں.
ایسا دن جب ایرانی قوم کو دوسری اقوام اپنے سر مشق بنا سکتی ہیں.
ملکی سلامتی اور اسلامی انقلاب کے سرمایوں کی حفاظت کا دن
آخر میں، سید حسن نصراللہ حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری کے فرمان کو ذکر کرتے ہیں: صہیونی دشمنوں کے ساتھ مقابلہ اور ان سے جنگ کو اولویت ہونی چاہئے اور اگر ابتدا سے ہی اس طرح ہوتا تو جس نقطے پر آج کھڑے ہیں، یہاں نہ ہوتے ۔۔۔۔ اگر اعراب نے جو پیسہ ایران اور شیعہ دشمنی پر خرچ کر ڈالا اس کا پانچواں حصہ بھی فلسطین کے لئے خرچ کرتے تو ابھی تک فلسطین آزاد ہو چکا ہوتا
صحیفہ امام، ج۹، ص۲۶۷
ڈاکٹر ابراہیم یزدی کے خاطرات، ج۳، ص۷۳۷
آپ کا تبصرہ