۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
عالمی یوم اردو

حوزہ/ آج جب کہ اردو زبان دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئی نسل بالخصوص ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ  کو اپنی قومی زبان سیکھنے کی ترغیب دیں ؛ کیونکہ اپنی زبان سے دوری ہماری نسل کو دین سے بھی دور کر رہی ہے۔

تحریر : محمدجواد حبیب کرگلی

حوزہ نیوز ایجنسی | آج پوری دنیا میں احباب اردو زبان، عالمی یوم اردو کا جشن منارہے ہیں محققین کا کہنا ہے کہ ۹؍ نومبرکوبیسویں صدی کے معروف مفکر، مایہ ناز فلسفی،علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے،علّامہ اقبال اردو کے پہلے شاعر ہیں جن کا کلام ملّی تشخص، دینی فکر اور فلسفۂ خودی سے آراستہ ہےاسی بنیاد پر انھیں پیامبر شاعر بھی کہا جاتا ہے انھیں ہم حکیمُ الاّمت اور شاعرِ مشرق کے نام سے بھی پہچانتے ہیں۔ آج کے دن بہ طور خاص علامہ اقبال کو یاد کیا جاتا ہے کیونکہ علامہ اقبال نے اپنی زندہ و پائندہ شاعری کے ذریعہ دنیائے اردو میں ایسا انقلاب برپا کیا اورایسی روح پھونکی جسے محبان اردو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔لہذا ان کی یوم پیدایش کے موقع پر عالمی یوم اردو کا جشن انعقاد کرکےدنیا کو اردو کی اہمیت و ضرورت سے روشناس کرتے ہیں ۔
بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا

عالمی یوم اردو کا جشن کب اور کس نےشروع کیا ؟

جب ہم عالمی یوم اردو کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں وہاں مقریر ین اور دانشوریہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ۹؍نوبر کو یوم اردو منانے کا آغاز ایک غیر سرکاری اور نجی تنظیم نے کیا تھا؛ جس کا نام اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (Urdu Development Organization)ہے پھر ایک اور نجی تنظیم یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا(United Muslims of India) نے بھی اس کے ساتھ اشتراک کیا اور اس کار خیر میں برابر کی حصہ دار رہی، اس طرح ان دونوں تنظیموں کے قابل قدراور لائق تحسین اقدام سے1997میں یوم اردو منانے کا سلسلہ شروع ہوا اور آج یہ ننھا سا پودا ایک تناور درخت بن چکا ہے یہ بہت بڑی بات ہے کہ محض ڈیڑھ دہائی کے اندر یوم اردو نے عالمی یوم اردو کا جامہ پہن لیا اور یہ تاریخ اردو کے حوالے سے ایک یادگااور قابل رشک تحریک بن گئی۔

اردو زبان کیا ہے؟

جب ہم اردو زبان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں معلوم ہوتا ہےکہ محققین کا اس بات پر بڑی حد تک اتفاق ہے کہ اردو زبان کی ابتداء مسلمان فاتحین کے آمد سے ہوئی ہے؛ البتہ جگہ کی تعین میں اختلاف ہے اس بارے میں مولانا شمیم اکرم رحمانی یوں بیان کرتے ہیں : “ ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد ایک سروے کے مطابق 427 ہے، تاہم کچھ زبانیں ایسی ہیں جو اپنی نمایاں خصوصیات کی بنیاد پر الگ شناخت رکھتی ہیں اور پوری دنیا کے لئے مرکز توجہ بنی ہوئی ہیں، انہی زبانوں میں سے ایک زبان اردو بھی ہے جس کی خمیر میں مختلف تہذیبوں، زبانوں اور فرقوں کی خوبیوں کو سمولینے کی مکمل استعداد موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں ہر کوئی اردو کو بڑی آسانی سے اپنا لیتا ہے تو دوسری طرف اردو بھی بڑی آسانی سے ہر کسی کو اپنالیتی ہے اور اس طرح اپناتی ہے کہ نہ سرحدوں کے اختلاف کو دیکھتی ہے نہ مذہب و ملت کی تفریق کو گوارہ کرتی ہے میرا خیال ہے کہ اگر کسی زبان کو یہاں کی روایتی گنگا جمنی تہذیب کی ترجمانی کا حق حاصل ہوسکتا ہے تو وہ زبان صرف اردو ہی ہوسکتی ہے، اردو زبان محض علاقوں اور خطوں کو آپس میں نہیں جوڑتی بلکہ دلوں کو فتح بھی کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ اردو جدید زبان ہونے کے باوجود دنیا کے مختلف خطوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے”۔
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اُردو آئے

اردو، ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں ، اس کے اور بھی کئی معانی ہیں ؛مگرعام طور پر لشکر، پڑاؤ، خیمہ،بازار، حرم گاہ اور شاہی قلعہ اور محل کے لئےا ستعمال عام ہے اردو زبان ہندی،ترکی،عربی،فارسی اور سنسکرت زبانوں کا مرکب تھا۔بہرصورت اس وقت اس زبان کو ہندوی، ہندوستانی، ریختہ، دکنی اور گجراتی کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ مرزا اسداللہ غالبؔ کے ہاں اردو دیوان میں کئی مقامات پر ریختہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں اس کا ذکر کیا ہے۔
ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب !
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

اردو کے ساتھ ناانصافی:

اردو زبان کے حق میں کئے گئے نا انصافی کون کررہا ہے ؟ کیوں اس زبان کو مٹانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ؟ اس میں ایک اردو دان ماھر جناب ایم۔ڈبلیو۔انصاری اپنے مضمون میں یوم بیان کرتے ہیں : “واضح رہے کہ اُردو کو لے کرسرکاری طور پر ہویا غیر سرکاری طور پر، اجتماعی طور پر ہو انفرادی،ان تمام حالات، وجوہات، لاکھ اندیکھی، بے توجہی اور لاپرواہی کے باوجود اُردو (جو ہماری شناخت ہے) آج اُردو یو این او کی دفتری زبان بن گئی ہے،جو ہم سب کے لیے اور خاص کر ہمارے ملک بھارت کے لیے باعث فخر ہے۔کیونکہ اُردو زبان کی پیدائش بھارت میں ہوئی ہے، اُردو زبان بھارت کی بیٹی اور بھارت کی نیک دختر ہے۔ جو اپنے دم پر اپنی طاقت کی بدولت بین الاقوامی زبان بن گئی ہے۔ یہ اُردو داں اور محبانِ اُردو کے لیے خوشی کی بات ہے۔وہیں آج اُردو کولیکر تمام طرح کی بے توجہی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ تمام اُردو اکیڈمی، سرکاریں اور اُردو داں کی جانب سے دیکھی جارہی ہے۔
اُردو پہ جو چلاتے ہیں وہ شمشیر ہمیشہ
اُردو میں کرتے ہیں جو تقریر ہمیشہ

یومِ اُردوکے موقع پر اُردو کے مسئلہ ومسائل پر غوروخوض کرنا چاہئے اوراُردو کے ساتھ کئے گئے ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنا چاہئے۔نصاب کی کتابیں اُردو میں مہیا کرانے /اُردواساتذہ کی تقرری کیلئے سرکار سے مطالبہ کیا جائے۔بچوں کو اُردو میڈم میں /مادری زبان میں بنیادی تعلیم دی جائے۔عالمی یومِ اُردو کے تمام تقاریب/مشاعرہ/اُردو اکیڈمیوں کے تقاریب/خط وکتابت اُردو زبان میں کی جائے۔

ملک بھرمیں اُردو اساتذہ کی ہزاروں سیٹیں صوبہ وار خالی پڑی ہوئی ہیں۔ اساتذہ کی تقرری جان بوجھ پر نہیں کی جارہی ہیں۔ہر جگہ، ہرشہر،ہرصوبہ میں طلباء موجود ہیں،طلباء وطالبات اُردو پڑھنے کے لیے بے چین ہیں، لیکن صوبے کی سرکاریں جان بوجھ کر اساتذہ کی تقرری نہیں کررہی ہیں۔نصاب کی کتابیں دستیاب نہیں کرائی جارہی ہیں۔جہاں کالجوں میں اُردو ڈپارٹمنٹ ہے اُردو اساتذہ کی تقرری نہ کرکے زبردستی بند کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔جہاں اُردو اکیڈمی ہیں اُردو بورڈ تشکیل نہیں دی جارہی ہے۔یعنی ہر طرح سے اُردو کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یہ ایک طور پر اُردو دشمنی کی مثال ہے۔”۔ ان کی اس بات سے یہ واضح ہوجاتی ہے کہ اردو زبان کے ساتھ خواستہ و ناخواستہ طور پر نا انصافی ہورہی ہے اس لئے سارے محبان اردو کو چاہئے کہ وہ اس کے خلاف آواز حق کو بلند کرے۔اور اردو زبان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔

اردو زبان کی اہمیت:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم انسان زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کا اظہار الفاظ کے ذریعے ہی کرتے ہیں اور کسی شہر یا ملک کی زبان خود وہاں کے باشندوں کے جذبات کی عکاس بھی ہوتی ہے نیز“زبان” تہذیب اور تمدن کا وہ حصہ ہے جو انسانی معاشرے کی اساس اور بنیاد ہے، زبان معاشرے کے قیام کے لیے وہ خون ہے ؛جس کے بغیر زندگی کی نبضیں سکڑ جاتی ہیں ۔ اور“اردو” ہماری قومی زبان ہے، اردو میں ہمارا علمی ورثہ موجود ہے، ہماری تہذیب ، تمدن ومعاشرت کی تاریں اردو زبان سے جڑی ہوئی ہیں ۔ اس وقت اس زبان میں ہمارے دانشوروں لاکھوں تصانیف موجود ہیں جواردو کی اہمیت و افادیت کو خوب واضح کرتی ہیں ۔

ہمیں یومِ اُردو کے موقع پر تقاریب،اشتہارات اور دیگر طریقوں سے اُردو کی بقاء وفروغ کے لیے عوام تک پیغام پہنچانا چاہئے۔سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اُردو کی رسم الخط کو اختیار کرنے کے پیغام کو عام کرنا چاہئے۔آج زمانہ سائنس وٹیکنالوجی کا ہے ہمیں اُردو کی بقاء وفروغ کے لیے اس کا بھرپور استعمال کرنا چاہئے۔ اُردوکی بقاء وفروغ کے لیے صرف یومِ اُردو کے موقع پرنہیں بلکہ مسلسل کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر عزم کریں کہ اُردو کی بقاء وفروغ کے لیے ہم اپنے حصہ کی ذمہ داری نبھائیں گے۔ اُردو کی بقاء وفروغ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

آج جب کہ اردو زبان دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئی نسل بالخصوص ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنی قومی زبان سیکھنے کی ترغیب دیں ؛ کیونکہ اپنی زبان سے دوری ہماری نسل کو دین سے بھی دور کر رہی ہے، اور آج کل کے زمانے میں غیر زبان کی لپیٹ میں اردو لکھنا اور بولنا نئے بچوں کے لیے کسی محاذسے کم نہیں رہا،لہذا اردو کی ترویج و ترقی کے لیے ہم سب اس مہم میں شریک ہوں ۔ اگر ہم اردو سے محبت کرتے ہیں اور اس کی بقا اور تحفظ اور اس کو اس کا حق دلوانے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اب سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .