۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
اشوک شرما

حوزہ/تقسیم کے وقت پاکستان کے راولپنڈی سے ہجرت کرکے میرٹھ پہنچے اشوک شرما کے والد اپنی مادری زبان اردو سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اس کی مثال ان کی دکان کے سائن بورڈ پر آج بھی نظر آتی ہے۔ اشوک شرما کے مطابق ان کے والد کی سخت ہدایت تھی کہ دکان کا سائن بورڈ ہندی اور انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی لگایا جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،میرٹھ ۔ زبانوں کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن بہت سی زبانیں گزرتے عہد کے ساتھ مذہب اور مخصوص طبقے کے دائروں میں سمٹتی ضرور نظر آتی ہیں۔ اردو زبان کے ساتھ بھی یہ تلخ حقیقت نظر آتی ہے لیکن ایک وقت تھا جب اس زبان کی مقبولیت اور اہمیت کا دائرہ کسی ایک فرقے تک محدود نہیں تھا بلکہ ملک کی تقسیم کے وقت پاکستان سے ہجرت کرکے ہندوستان میں بسنے والے غیر مسلم افراد میں آج بھی اپنی مادری زبان سے محبت نظر آتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے کی زندگی سے یہ زبان دور ہوتی جا رہی ہے۔

تقسیم کے وقت پاکستان کے راولپنڈی سے ہجرت کرکے میرٹھ پہنچے اشوک شرما کے والد اپنی مادری زبان اردو سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اس کی مثال ان کی دکان کے سائن بورڈ پر آج بھی نظر آتی ہے۔ اشوک شرما کے مطابق ان کے والد کی سخت ہدایت تھی کہ دکان کا سائن بورڈ ہندی اور انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی لگایا جائے۔ اپنے والد کی اردو زبان سے اسی محبت کے تقاضے کو محسوس کرتے ہوئے اشوک شرما نے اس روایت کو زندہ رکھا ہے۔ وہ اپنے والد کی نجی ڈائری بھی دکھاتے ہیں جس کو ان کے والد اردو میں لکھتے تھے۔حالانکہ اشوک شرما اردو نہیں جانتے لیکن اپنے والد کی ان کی مادری زبان سے محبت کی قدر کرتے ہیں اور زبان کو کسی مخصوص طبقے کے دائرے میں محدود نظریہ سے نہیں دیکھتے ہیں۔

دوسری جانب مسلمانوں سے منسوب کرکے دیکھی جانی والی اردو زبان اپنے ہی چاہنے والوں کے درمیان اپنی پہچان کھوتی جارہی ہے۔ میرٹھ جیسی بڑی مسلم آبادی والے شہروں میں آبادی کا بڑا طبقہ اردو لکھنے اور پڑھنے سے قاصر ہے۔ مسلم کاروباریوں کی دکانوں کے سائن بورڈ پر بھی اردو نظر نہیں آتی ہے۔

اردو مترجم کی حیثیت سے سرکاری محکمہ میں خدمات انجام دینے والے ضیاء الدین سیف کے مطابق اتنی بڑی مسلم آبادی والے شہر میں ایک بھی درخواست اردو میں موصول نہ ہونا اردو والوں کے لیے افسوس کا مقام ہے۔ صوبہ اُترپردیش میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن اردو کی زبوں حالی کے لئے حکومت سے زیادہ وہ لوگ ذمہ دار نظر آتے ہیں جن پر اردو کی آبیاری کی ذمہ داری ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .