حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دیوبند: بڑھتی ہوئی آبادی کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے اترپردیش کی یوگی حکومت کے ذریعہ جاری کی گئی نئی آبادی پالیسی 2021-2030 پر ہندستان کی دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند نے اپنا سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے حکومت کے اس قدم کو انسانی حقوق کے خلاف بتایا ہے۔ اس سلسلہ میں عظیم دینی دانش گاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس انداز سے یہاں پاپولیشن کنٹرول ایکٹ نافذ کیا جارہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر دو سے زیادہ بچے پیدا ہوگئے اور انہیں ہر طرح کی سہولیات سے محروم کر دیا گیا تو اس میں ان بچوں کی کیا خطا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قانون انصاف پر مبنی نہیں ہے، یہ غلط ہے۔‘‘
مفتی ابوالقاسم نے کہا کہ عالمی و ملکی آبادی پالیسی اور اعداد و شمار کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے اور انصاف پر مبنی قانون ہونا چاہئے۔ انہوں نے نئی پالیسی کو ہر طبقہ کے لئے ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو سے زائد بچوں کے والدین کو سزا دینے والے فیصلہ کا براہ راست اثر ان کے بچوں پر پڑے گا۔
غور طلب ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اتوار کے روز اتر پردیش کی نئی آبادی پالیسی 2021-2030 جاری کی ہے۔ بل کے مسودے کے مطابق دو سے زائد بچوں والے افراد کو سرکاری ملازمتیں نہیں ملیں گی اور نہ ہی وہ بلدیاتی انتخابت لڑنے کے اہل ہوں گے۔ اتنا ہی نہیں اس مسودہ کی تجویز کے مطابق جہاں ایک اور دو بچوں والے افراد کو سرکاری سہولیات میں خصوصی فوائد دیئے جائیں گے وہیں دو سے زائد بچوں والے خاندان کو 77 قسم کی سرکاری سہولیات سے محروم کر دیا جائے گا۔ حالانکہ آبادی کے متعلق ریسرچ کرنے اور اس کے ماہرین کے مطابق اترپردیش یا ملک میں فی الحال اس قسم کے کسی بھی قانون کی ضرورت نہیں کیونکہ نیشنل یا انٹرنیشنل سطح پر اس قسم کے قوانین کی تصدیق نہیں ہوتی ہیں۔ وشو ہندو پریشد نے بھی اس پر اعتراض ظاہر کیا کیونکہ 2015 نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق ملک کی آبادی کی شرح 2.2 ہے جبکہ اترپردیش کی آبادی کی شرح 2.7 ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق اگر ایک بچہ کی پیدائش کی ترغیب اور ترجیح دی گئی تو آبادی کا تناسب بھی بگڑ سکتا ہے۔