۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مدرسہ

حوزہ/ وزیر تعلیم ہیمانتا بسواس شرما نے اعلان کیا کہ ریاستی حکومت، ان تمام سرکاری مدرسوں کو بند کردے گی جو سرکاری فنڈز سے چلائے جارہے ہیں، سرکاری پیسوں پر صرف قرآن کی تعلیم نہیں دی جاسکتی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندستان کے شمال مشرقی ریاست آسام میں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی سربراہی میں قائم حکومت نے ریاست میں سرکار کے زیرانتظام مدرسوں کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ہندوستانی خبررساں ادارے کے مطابق ریاست کے وزیر ہیمانتا بسواس شرما نے اعلان کیا کہ ریاستی حکومت، ان تمام سرکاری مدرسوں کو بند کردے گی جو سرکاری فنڈز سے چلائے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری فنڈ سے مذہبی تعلیم کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس حوالے سے نوٹیفیکشن آئندہ ماہ جاری کردیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری فنڈ سے مذہبی تعلیمی ادارے چلانے کی اجازت نہیں دینگے۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ نجی طور پر چلائے جانے والے مدارس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

جماعت اسلامی ہند کے مرکزی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین نصرت علی نے آسام حکومت کے فیصلہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک جانب نئی قومی تعلیمی پالیسی کے تحت تعلیم کو عام کرنے اور پسماندہ طبقات کو تعلیمی نظام سے جوڑنے کی بات کہی جارہی ہے تو دوسری جانب آسام میں بی جے پی حکومت مسلم مدرسوں کو بند کرنے کے درپہ ہے، جس سے مسلم مخالف پالیسی کا اظہار ہوتا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ آسام حکومت کے فیصلہ سے اقلیتی طبقے کے طلبا تعلیم سے محروم ہوجائیں گے اور مدرسوں سے جڑے اساتذہ بیروزگار ہوجائیں گے جبکہ ریاستی حکومت کا رویہ قابل مذمت ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گذشتہ فروری میں ہیمنت بسوا شرما نے اعلان کیا تھا کہ ’ریاستی حکومت مدرسوں اور سنسکرت کی تعلیم دینے والے مدارس جو سرکاری فنڈز سے چلائے جاتے ہیں بند کرنے کا اعلان کیا تھا‘ تاہم دو روز قبل انہوں نے مدرسوں کو بند کرنے کا اعلان کیا لیکن سنسکرت کے مدارس کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا۔

واضح رہے کہ آسام میں 614 سرکاری اور 900 نجی مدرسے ہیں۔ حکومت مدرسوں پر سالانہ تین تا چار کروڑ روپئے صرف کرتی ہے۔ دو سال قبل آسام حکومت نے ریاستی مدرسہ بورڈ ختم کرکے سکینڈری بورڈ آف ایجوکیشن کے تحت کردیا تھا۔ نجی مدرسوں میں بیشتر مدرسے جمعۃ علمائے ہند کے تحت چلائے جاتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .