۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مسلم پرسنل لاء پھر نشانہ پر، ایک سے زیادہ شادی کو سپریم کورٹ میں چیلنج

ہندوستان کے سپرریم کورٹ میں وکیل وشنو شنکر جین نے مسلم پرسنل لاء (شریعت)ایپلیکیشن ایکٹ 1937 کے سیکشن 2 کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ اس میں مسلمانوں کے لیے ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دی گئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں مسلم مردوں کو ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دینے والی تعزیرات ہند کی دفعہ اور شریعت قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ عرضی گزاروں نے کہا ہے کہ ایک فریق کو تعدد ازدواج کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے جبکہ دیگر مذاہب میں اس طرح تعدد ازدواج پر پوری طرح سے پابندی ہے۔درخواست داخل کرنے والے وکیل وشنو شنکر جین نے مسلم پرسنل لا (شریعت)ایپلیکیشن ایکٹ 1937 کے سیکشن 2 کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 494 کے تحت ایسی شادی کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ہندو ، پارسی یاعیسائی کی دوسری شادی جب کہ بیوی زندہ ہے ، یہ تعزیرات ہند کی دفعہ 494 کے تحت جرم ہے۔ درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ لہٰذا دفعہ 494 مذہب کی بنیادپرامتیازی سلوک اور آئین کے سیکشن 14 اور 15 (1) کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ایک سے زیادہ شادی خواتین کی زندگی کو قابل رحم اوربے عزت کرتی ہے۔درخواست میں مزیدکہاگیاہے کہ در حقیقت یہ عمل خواتین کا استحصال کرتا ہے اور یہ انسانی وقار ، شائستگی اورمساوات کے منافی ہے۔درخواست گزاروں نے کہاہے کہ فوجداری قانون ذات ، نسل یا مذہب پر مبنی نہیں ہوسکتا۔ سپریم کورٹ کی طرف اشارہ کیاگیاکہ اس عمل کی اجازت صرف ایک مذہبی برادری کو ہی نہیں دی جاسکتی جب کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ درخواست کے ذریعے مسلم پرسنل لاء (شریعت) ایپلیکیشن ایکٹ ، 1937 کی دفعہ 2 کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب مسلم پرسنل لاء بورڈکی جانب سے دائردرخواست کے تعلق سے یہ کہنا ہے کہ تعدد ازدواج کے بہانے مسلم پرسنل لاء نشانے پرہے جس کی آزادی دستورمیں دی گئی ہے۔نشانہ مسلمان ضرورہیں لیکن برادران وطن میں ایسی مثالیں موجودہیں جہاں ایک سے زائدشادی ہوئی۔رام ولاس پاسوان،ملائم سنگھ یادواس کی مثالیں موجودہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .