۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
لکھنو

حوزہ/ ڈاکٹر کلب صادق صاحب، لوگوں کے بے جاں تبصرو ں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ،اپنے ایک کان بند رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے مقصد میں آگے بڑھتے رہے۔ اسی لیے وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوئے ۔اگر ہم بھی ہرکس و ناکس کی بات پر دھیان دینے لگے تو ہماری ترقی کی رفتارمدہم پڑجائے گی۔ اس لیے ہمیں صرف اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہنا چاہئے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید کلب صادق مرحوم کی یاد میں ادارہ مقصد حسینی ، کشمیری محلہ، لکھنؤکی جانب سے کل بعد از نماز مغربین مسجد قدم رسول میں ایک تعزیتی جلسہ اور مجلس سید الشہداکا انعقاد کیا گیا جس میں شہر کے مختلف علمائے کرام نے شرکت کی۔ جلسہ کا آغاز تلاوت کلام الٰہی سے ہوا۔اس کے بعد ناظم جلسہ ڈاکٹر حیدر مہدی صاحب نے یکے بعد دیگر علمائے کرام کو خطاب کی دعوت دی۔ تمام علمائے کرام نے مولانا کلب صادق صاحب کی خدمات کا ذکر کیا۔

مجلس علمائے ہند کے سکریٹری آفتا ب شریعت مولاناسید کلب جواد صاحب نے مولانا صادق صاحب کے سلسلے میں کہا کہ مرحوم، تعلیم اور اتحاد کے عظیم نمائندہ تھے۔ انہوں نے ہمیشہ قوم و ملت میں یکجہتی کو قائم رکھنے پر زوردیا۔مولانا کلب جواد نے اضافہ کیا کہ ڈاکٹر کلب صادق صاحب، لوگوں کے بے جاں تبصرو ں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ،اپنے ایک کان بند رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے مقصد میں آگے بڑھتے رہے۔ اسی لیے وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوئے ۔اگر ہم بھی ہرکس و ناکس کی بات پر دھیان دینے لگے تو ہماری ترقی کی رفتارمدہم پڑجائے گی۔ اس لیے ہمیں صرف اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہنا چاہئے ۔

مولانا فیروز حسین صاحب نے اپنے بیان میں فرمایاکہ مولانا کلب صادق نے علوم اہل بیت کی نشر و اشاعت میں نہایت مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ملک و معاشرہ میں پائی جانے والی غلط رسومات کے خلاف آواز اٹھائی۔ شادی بیاہ میں مختلف غلط رسموں کے خلاف بھی کھڑے رہے ۔ مولانا کلب صادق صاحب ایک سادہ اور آسان تقریب شادی کے خواہاں تھے تاکہ معاشرہ میں ہر کوئی آسانی سے دین کے نصف حصہ کو حاصل کرلے اور فضول خرچی سے بھی محفوظ رہ سکے۔
مولانا منظر علی عارفی نے مولانا کلب صادق صاحب کے حوالہ سے بتایا کہ مرحوم نے نہ صرف تعلیمی میدان میں کام کیا بلکہ آپ نے ایرا میڈیکل کالج بھی قائم کیا۔ تعلیم کے ذریعہ روح سیراب ہوتی ہے جبکہ اسپتال کے ذریعہ جسمانی صحت کا علاج کیا جاتا ہے۔ مولانا کلب صادق صاحب نے یوں روح و جسم کی ہم آہنگی کابہترین درس دیا ہے۔مرحو م لڑکیوں کے بہترین تعلیمی مرکز کے خواہاں تھے ۔ اس عظیم کام کے لیے انہوں نے نجمی صاحب کو بہترین نائب کی شکل میں دیکھا۔انشاء اللہ ، آپ کے مشن کو آگے بڑھانے میں جناب نجمی صاحب مؤثر اقدام کریں گے۔

ڈاکٹر حیدر صاحب نے مولانا کلب صادق صاحب کے حوالہ سے بیان کیا کہ کلب صادق صاحب نہایت خوش مزاج انسان تھے اورانہوں نے اپنی پوری زندگی خوش اخلاقی میں صرف کی۔انہوں نے قوم میں پھیلے غلط رسم ورواج کے خلاف آواز اٹھائی ۔ قوم سے ایسے ہی محبت کرتے جیسے ایک باپ ، بیٹے سے کرتا ہے۔ اسی لیے قوم و ملت کے درمیان ہمیشہ الفت و محبت سے پیش آئے ۔ انہوں نے تعلیم پر خاصی توجہ دی اور ہونہار طالب علموں کی خوب ہمت افزائی بھی کی۔
ادارہ کے صدر عالی جناب مولانا سیدر ضا حسین رضوی صاحب نے ڈاکٹر سید کلب صادق صاحب سے اپنی والہانہ محبت کوبیان کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ مرحوم سے ہمارے ویسے ہی تعلقات تھے جیسے مولانا کلب جواد صاحب سے ہیں۔ آپ ابتدائی ایام سے ادارہ کی سرپرستی فرماتے رہے ہیں ۔ جب مولانا کلب جوادصاحب نہیں تھے ، تب بھی آپ پروگرامز میں شرکت فرماکر ہمت افزائی کرتے تھے۔ جب بھی ملاقات کے لیے دعوت دیتے ، ایک ہی پیغام پر زور دیتے ۔ تعلیم اور قومی ترقی ۔مرحوم ملت کے ہر نوجوان کو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔

جلسہ تعزیت کے بعد مجلس سید الشہدا منعقدہوئی جس کو عالی جناب مولانا سید تسنیم مہدی رضوی زید پوری نے خطاب کیا۔ مولانا نے فضائل امیرکائنات بیان کرتے ہوئے ، مولانا کلب صادق صاحب کی دوراندیشی کا ذکر کیا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ مولانا کلب صادق صاحب کے خلاف بہت کچھ لکھا گیامگر آپ نے ان کی پرواہ نہیں کی اوراپنے مقصد میں کوشاں رہے۔ قابل ذکر بات یہ کہ یہی حضرات آپ کے ادارے سے مدد بھی لیتے مگر آپ نے انسانیت کے ناطے کبھی انہیں محروم نہیں کیا۔

مجلس کے بعدعلمائے عظام کے درمیان یہ بھی ایک تجویز رکھی گئی کہ جناب کلب سبطین نوری صاحب کو والد محترم کی نیابت میں قدم بڑھانا چاہئے اور منبر کے ذریعہ انہیں مشن کوآگے بڑھانا چاہئے۔ کیوں کہ قوم کو ابھی بھی کلب صادق صاحب کی ضرورت ہے اور دنیا ان کی ضرورت کو ان کے فرزند کی شکل میں دیکھ رہی ہے۔  

جلسہ میں شہر کے مختلف مشہور علمائے کرام تشریف لائے، مولانا فیروز حسین ، مولانا سرکار حسین، مولانا منظر علی عارفی، مولاناتسنیم مہدی، مولانا اختر حسین ، مولانا شہاب صاحب، مولانا عرشی صاحب، جناب امن رضوی، جناب شاذ رضوی، جناب شیخ جون صاحب ، جناب شیخ کمیل صاحب اور جناب علی جواد صاحب وغیرہ بھی شریک تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .