حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،یقینا واقعہ کربلا کو گزرے چودہ سو سال سے زیادہ کا زمانہ بیت چکا ہے لیکن جیسے جیسے انسان بیدار ہو رہا ہے وقت کے ساتھ اس کی معنویت میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ حضرت امام حسین اور شہدائے کربلا کے ماننے والوں کا تعلق اب کسی ایک مخصوص طبقے سے نہیں رہا ہے بلکہ بلا لحاظ قوم وملت اب اس میں تمام لوگ شامل ہوگئے ہیں ۔کربلا کے میدان سے امام عالی مقام حضرت امام حسین نے انسانیت کو سربلند کرنے کےلئے ظلم کے خلاف اپنے 72 جاں نثاروں کے ساتھ جو پیغام دیا تھاوہ بے مثل ہے۔
مدھیہ پردیش سندھیا گھرانے کو تو بہت سے لوگ جانتے ہونگے لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سندھیا گھرانے کو حضرت امام حسین اور شہدائے کربلا سے کتنی عقیدت ہے۔ یہ عقیدت ابھی نہیں پیدا ہوئی ہے بلکہ اس کی تاریخ بھی صدیوں پرانی ہے ۔ عاشورہ کے موقعہ پر گوالیار میں نکلنے والا تعزیہ سب سے بڑا سندھیا گھرانے کا ہوتا تھا۔ تعزیہ کو بنانے کے لئے بہترین کاریگر بلائے جاتے تھے اور وہ مہینوں پہلے سے تعزیہ بنانے کا کام کرتے تھے تب جاکر کہیں سونے چاندی سے مزین تعزیہ بن کر تیار ہوتا تھا۔ سندھیا گھرانے کا تعزیہ ہمیشہ دس سے بارہ فٹ بلند ہوتا تھا لیکن اس بار کورونا کے قہر کے چلتے چھوٹا تعزیہ بناکر پیش کیاگیا ہے۔
عاشورہ کے موقعہ پر سندھیا گھرانے کے تعزیہ کو بناکر جوش وعقیدت کے ساتھ گوالیار کے گورکھی میں رکھ دیا گیا۔ تعزیہ کو رکھنے سے قبل تعزیہ کی سہرہ بندی کی گئی ۔ گوالیار شہر کےقاضی سید عبد العزیز القادری نے تعزیہ کی سہرہ بندی کی اس کے بعد سندھیا گھرانے کے لوگ اور شہر کی معزز شخصیات نے اپنی عقیدتوں کے نذرانے پیش کئے ۔اس موقعہ پر ملک میں امن وامان و کورونا کے خاتمہ کے لئے خاص دعائیں بھی کی گئیں ۔ گوالیار قاضی سید عبد العزیز قادری کہتے ہیں کہ وہ حضرت امام حسین کی تعلیمات کا کرشمہ ہے کہ وہ لوگ جن کا مذہب کچھ اور ہے وہ بھی ان کے عقدیتمندوں میں شامل ہیں ۔ کربلا میں صرف اسلام کی بقا کے لئے ہی نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کے لئے بھی عظیم قربانی پیش کی گئی تھی ۔گوالیار ابتدا سے ہی گہوارہ امن رہا ہے اور آج بھی اس کی روشن مثال باقی ہے ۔ عاشورہ کے موقعہ پر مسلمان عزاداری کی مجلس کا انعقاد اور تعزیہ بنانے کا کام تو کرتے ہی ہیں لیکن سندھیا راج گھرانے میں سو سال سے زیادہ عرصہ سے تعزیہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔ روایت کے مطابق اس سال بھی تعزیہ پیش کیاگیا ہے۔ ملک کو اسی یکجہتی کی ضرورت ہے اور اسی میں ہندستان کی بقا ہے۔
وسط ہند میں سب سے بڑی حکومت سندھیا گھرانے کی رہی ہے ۔سندھیا گھرانے کے راجاؤں نے ابتدا سے ہی قومی یکجہتی اور باہمی اتحاد کو فروغ دیا ہے۔یہ گھرانہ ابتدا سے ہی صوفیا کی تعلیمات پر عمل پیرا رہا ہے ۔ چشتیہ سلسلہ کے اہم بزرگ حضرت خواجہ خانون سے اس گھرانے کو گہری عقیدت ہے۔اس عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب گوالیار میں ریاستی عہد میں پہلی بار بجلی آئی تو راج گھرانہ نے بجلی کا پہلا کنکشن اپنے گھر میں نہیں لگوایا بلکہ پہلا کنکشن درگاہ حضرت خواجہ خانون میں لگایا گیا اس کے بعد دوسرا کنکشن راج گھرانے میں لگایا ۔ درگاہ حضرت خواجہ خانون کے سجادہ نشین خواجہ راشد خانونی کہتے ہیں کہ راج گھرانے میں کچھ بھی ہوتا ہے تو وہ منت کی پہلی چادر لیکر درگاہ شریف پر ہی آتے ہیں ۔راج گھرانے کے بزرگوں سے جو سلسلہ جاری تھا وہ اب بھی جاری ہے ۔ اجمیر عرس کے موقعہ پر بھی پہلے یہاں چادر پیش کی جاتی ہے اس کے بعد چادر اجمیر کے لئے روانہ ہوتی ہے۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے گوالیار آمد پر درگاہ خواجہ خانون میں اپنی مرادوں کی چادر پیش کی تھی پھر وہ وزیر اعظم کی کرسی پر متمکن ہوئے تھے۔ ماہ محرم اور عاشورہ کا اس گھرانے میں بڑا اہتمام ہوتا ہے۔ تعزیہ بنانے کے لئے بڑی تیاری کی جاتی ہے اور شہدائے کربلا سے ایسی عقیدت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والا عش عش کر اٹھاتا ہے۔
کربلا کے میدان سے چودہ سو سال پہلے حضرت امام حسین نے اپنے 72 جاں نثاروں کے ساتھ انسانیت، وفا ،خلوص کا جو درس دیا تھا آج کی دنیا کو اسی کی ضرورت ہے اور جس دن دنیا واقعات کربلا کی معنویت کو سمجھ جائے گی اس دن دنیا سے ظلمت کا خاتمہ ہو جائے گا اور ہر طرف امن ہی امن ہوگا۔