حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اترپردیش کے دارالحکومت لکھنو میں یوگی حکومت نے آخر کار مولانا کلب جواد نقوی کے مطالبے پر اتفاق کیا اور اسے مان لیا اور اب پوری ریاست میں کہیں بھی تعزیہ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مولانا کلب جواد کو 6 گھنٹے میں تمام مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
2 محرم کو امام حسین(ع) کربلا پہنچے اور آج 2 محرم کو آفتاب شریعت مولانا کلب جواد کی کوششوں سے عزاداری امام حسین(ع) کو برپا کی کی اجازت ملی۔
قوم کے رہبر آفتاب شریعت مولانا کلب جوادصاحب کو معاشرے کے نہ صرف مومنین کرم کی بلکہ علمائے کرم کی بھی حمایت حاصل تھی۔ چھ بجے شام احتجاج کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اورحمایت کے لیے مؤمنین کا ہجوم غفرانمآب امامباڑے پہنچ گیا جسے دیکھتے ہوئے انتظامیہ حرکت میں آگئی اور پھر کافی باتوں کے بعد حکومت کو مولانا کی باتوں کو قبول کرتے ہوئے تعزیہ داری سے پابندی کو ختم کرنا پڑا۔حکومت نے ہڑتال پر بیٹھے مولانا کلب جواد کے مطالبات کو قبول کیا۔
- یوپی کے تمام اضلاع کے لئے آرڈر جاری کیا گیا
- گھروں میں تعزیہ رکھنے اور عزاداری پر کوئی پابندی نہیں ہے
- فون نمبر کے ساتھ طلب کیے گئے تمام اضلاع کے علمائے کرام کی فہرست
- کسی بھی مسئلے کے لئے 24 گھنٹوں میں کال کی جاسکتی ہے
- داخلہ سکریٹری کو محرم کی دیکھ ریکھ کے لئے مقرر کیا گیا
- داخلہ سکریٹری سوا دو مہینے تک محرم کے انتظامات پر نگاہ رکھیں گے
- تمام علماء اپنے اضلاع کے ایس پی اور ایس ایس پی سے ملاقات کریں گے۔
ہم آپ کو بتادیں کہ موجودہ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلنے کے پیش نظر، محرم کو انتہائی سادگی کے ساتھ منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ محرم خوشی کا تہوار نہیں، بلکہ غم کا مہینہ ہے، جس میں انسانیت کو بچانے اور ظلم کو بے نقاب کرنے کے لئے حضرت امام حسین(ع) نے اپنے انصار کے ساتھ عظیم قربانی پیش کی تھی، خاص طور پر شیعہ مسلک اس مہینے میں حضرت امام حسین(ع) اور ان کے انصار کے غم کو مناتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب سے ہندوستان میں عزاداری کا قیام عمل میں آیا ہے تب سے مجلس اور تعزیہ داری کبھی نہیں رکی یہ الگ بات ہے کہ جلوس کئی سالوں تک بند رہے، لیکن پھر بھی بڑی مجلسوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ گھر ک تعزیے بھی اٹھتے رہے اور تدفین بھی جاری رہی۔ اس بار کورونا وائرس کی وجہ سے ، جہاں حکومت نے جلوسوں پر پابندی عائد کردی ، وہیں مجلس اور تعزیوں پر بھی پابندی عائد کردی تھی جس کی وجہ سے اتر پردیش کے عزاداروں میں غم و غصے کی لہر دوڑ پڑی تھی۔
اگرچہ عزاداری کے سلسلے میں، لکھنؤ کے بڑے علماء دین حکومت کے اہم رہنماؤں سے ملنا جاری رکھا لیکن نتیجہ ابھی تک صفر رہا۔
اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے نولانا سید کلب جواد نقوی نے شام 6 بجے چوک کے امام باڑہ غفرانمآب میں محرم منانے کے لئے پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔ صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے محرم کے پروگرام پر پابندی کے خلاف انتظامیہ سے کچھ مطالبات کئے تھے، لیکن انتظامیہ نے ان چیزوں کو قبول نہیں کیا۔
تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت نے ان کی بات نہیں مانی۔ 5 افراد کے درمیان مجلس پڑھنے کی اجازت سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی طرف سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ پولیس تعزیوں کو گھر میں رکھنے جانے تک سے منع کررہی ہے اور انہیں نوٹس بھی جاری کررہی ہے جو قطعی غلط ہے۔ مولانا نے کہا کہ ہم انتظامیہ کے اس قسم کے اقدام کی مخالفت کرتے ہیں اور دو دن تک دھرنے پر بیٹھتے ہیں۔
الہ آباد عدالت اور سپریم کورٹ میں تعزیہ اور مجلس کے لئے مقدمہ چل رہا ہے
اسی دوران ، مولانا کلب جوادصاحب نے کہا کہ ابھی مجلس اس طرح ہوگی جس طرح اس وقت 5 افراد میں ہورہی ہے، لیکن ہم نے الہ آباد اور سپریم کورٹ میں مقدمات ڈال دیئے ہیں، 2 دن میں اس کا فیصلہ بھی آئے گا کہ تعزیہ کو اٹھایا جائے اور مجلس میں عزادار شرکت کریں۔ اسی دوران، عزاداروں کو گھروں کے اندر عزاداری کرنے سے روکا جارہا تھا اور تعزیہ نہیں رکھنے دیا جارہا تھا، انہیں گھر میں ماتم کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی، ان تمام اقدامات کے خلاف ہم احتجاج کررہے تھے جسکے بعد داخلہ سکریٹری ایس کے بھگت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اب گھروں میں کسی پر بھی عزاداری کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی، ہر عزادار پچھلے سالوں کی طرح گھر میں عزاداری اور تعزیہ داری کرسکے گا، اس سلسلے میں تمام ضلعی مجسٹریٹ کو بھی حکم دے دیا گیا ہے۔