۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
کلب جواد

حوزہ/مولانا کلب جواد نے کہا کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے جب اپنے گھروں اور ذاتی عمارتوں پر بھی سیاہ پرچم لگانے کی اجازت نہیں مل رہی ہے ۔ ستم تو یہ ہے کہ تعزیوں کے رکھنے اور خریدو فروخت کے مراکز پر بھی پولس پابندی عائد کررہی ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، محرم کی مجالس اور عزاداری کی حسبِ توقع اجازت نہ ملنے پر حکومت کے خلاف لکھنئو کے عزاداروں کا غم و غصہ بڑھتا جارہاہے ۔ مجلس علماء ہند اور حسینی مشن نے حکومت پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ دوہرے معیار اپنا کر حکومت یہ پیغام دے رہی ہے کہ موجودہ دور اقتدار میں اقلیتوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ معروف عالم دین مولانا کلب جواد نے کہا کہ مسلسل کوششوں کے باوجود بھی حکومت کی جانب سے زبانی طور پر پہلے مجالس میں بیس لوگوں کی شرکت کی اجازت دی گئی ، لیکن جب تحریر موصول ہوئی تو صرف پانچ لوگوں کی اجازت دی گئی۔ مولانا کے مطابق لکھنئو جیسے عزاداری کے اہم مرکز میں پانچ لوگوں کے ساتھ مجالس کا انعقاد نا ممکن ہے ، کیونکہ پانچ سے زیادہ لوگ تو صرف بندوبست کرنے والے ہی ہوجاتے ہیں ۔

مولانا کلب جواد نے کہا کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے جب اپنے گھروں اور ذاتی عمارتوں پر بھی سیاہ پرچم لگانے کی اجازت نہیں مل رہی ہے ۔ ستم تو یہ ہے کہ تعزیوں کے رکھنے اور خریدو فروخت کے مراکز پر بھی پولس پابندی عائد کررہی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ حکومت عزاداری کو ختم کرنے پر تلی ہے ۔ عزاداری نہ کبھی ختم ہوئی ہے اور نہ کبھی ختم ہوگی ۔ خواہ اس کے لئے ہمیں کوئی بھی قربانی کیوں نہ دینی پڑے ۔ ہم حکومت کے ساتھ صلح تو کرسکتے ہیں ، لیکن حکومت کی بیعت کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔

حسینی مشن کے محرک و بنیادی رکن شمیل شمسی نے حکومت کے رویوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریسٹورنٹ میں پچاس لوگوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی اجازت دینے والی حکومت مجالس میں پچاس لوگوں کو شرکت کی اجازت نہیں دے رہی ہے جبکہ لوگ  بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ کورونا سے تحفظ کے پیش نظر ہر طرح کے ضروری اقدامات کئے جائیں گے اور حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی ۔

 حسینی مشن نے بھی یہ واضح کیا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو ہم گرفتاریاں پیش کریں گے ۔

حسینی مشن نے بھی یہ واضح کیا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو ہم گرفتاریاں پیش کریں گے ۔

شیعہ پرسنل لا بورڈ ( قدیم ) کے بانی صدر مولانا علی حسین قمی نے حکومت کو اقلیت مخالف قرار دیتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ سارے قوانین اصول اور ضابطے صرف ایک مخصوص مذہب کے لوگوں کے لئے ہیں ۔ انہوں نے کسی وزیر کا نام لئے بغیر یہ بھی کہا کہ حکومت میں بیٹھے مسلم وزیروں کے مولیٰ حسین نہیں بلکہ ان کے سیاسی آقا ہیں جن کے اشارے پر وہ بولتے اور خاموش ہوتے ہیں ۔ مولانا علی حسین نے سوال کیا کہ امام بارگاہوں میں اپنے سیاسی آقاؤں کی تصویریں اپنے گلوں میں  لٹکا کرصحتیابی کی دعا کرنے والے وزیر اور ان کے ہمنوا کیوں خاموش ہیں ۔

ایک طرف مولانا کلب جواد نے واضح طور پر حکومت کے غیر آئینی اور غیر جمہوری رویوں کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے تو دوسری جانب حسینی مشن نے بھی یہ واضح کیا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو ہم گرفتاریاں پیش کریں گے ۔ کیونکہ کسی بھی ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہی کربلا اور اہل بیت کا مشن ہے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .