۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سید محمد جابر باقری جوراسی

حوزہ/ مدیر ماہنامہ اصلاح لکھنؤ نے کہا: پابندیوں کی گاج فقط مذہبی جلوسوں اور اجتماعات ہی پر کیوں پڑے۔ جیسے وہ تمام امور احتیاطی تدابیر کے ساتھ انجام پاسکتے ہیں تو یہاں بھی یہی ہوسکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مدیر ماہنامہ اصلاح لکھنؤ، مولانا سید محمد جابر باقری جوراسی نے امسال ایام عزاء اور عزاداری کے انعقاد کے تعلق سے کہا کہ محرم الحرام کا آغاز بس ہونے ہی والا ہے لیکن ابھی تک جلوسہائے عزا اور مجالس عزا کے سلسلے میں مناسب رعایت کا حکومت کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا ہے۔ جس سے عزاداروں میں سخت بے چینی اور تشویش ہے۔

مولانا موصوف نے کہا کہ کورونا وبا یقیناً بہت بڑی آفت ہے جس کو پھیلنے سے روکنا ہم سب کا بنیادی فریضہ ہے لیکن اس سلسلےمیں کسی مخصوص حلقے ہی کو پابند بنا دینا اور دوسروں کے لئے عملاً آسانیاں فراہم کردینا یہ سخت نا انصافی ہے۔ ہماری صوبائی حکومت نے بھی اس سخت گیری کو فرائض ِ حکومت کی کامیابی کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے جس کے نتیجےمیں ناانصافیاں سر اٹھا تی رہتی ہیں در حقیقت حکومت کی کامیابی سخت گیری نہیں بلکہ عدل و انصاف اور رعایا کے ساتھ مساوی سلوک ہوا کرتا ہے۔ پہلے کی طرح سے جلوس اٹھیں اس کا کوئی مطالبہ نہیں کرتا لیکن جن پابندیوں کے ساتھ ماضی قریب میں بعض جلسوں و جلوسوں کا اہتمام ہوا ہے انہیں کی طرز پر محرم کے جلوس اور مجالس عزا کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ مجالس عزا میں مجمع کم ہو یہ تو مناسب ہے لیکن اتنا کم ہو کہ مجلس ہی نہ ہوسکے یہ فصل عزا اور عزاخانوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لکھنؤ میں تقریباً ۲۲؍ سال تک جلوسہائے عزا پر ناروا پابندیاں رہیں لیکن اس درمیان بھی لوگ اپنے گھروں کے تعزیے دو چار آدمیوں کے ساتھ یا حسینؑ کہتے ہوئے لے جاکر دفن کرتے تھے اور اُسے قانون شکنی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یوپی کے بی جے پی ہی کے وزیر اعلیٰ تھے موجودہ وزیر دفاع جناب راج ناتھ سنگھ انہیں کے دور کا واقعہ ہے کہ جس دن راقم السطور کے عزاخانے کا تعزیہ بشکل جلوس اٹھ کر جہاں دفن ہوتا ہے اس سے اور پولنگ بوتھ کے درمیان سو؍ میٹر کا بھی فاصلہ نہیں ہے۔ جلوس تعزیہ اور الیکشن کی پولنگ ایک ہی دن پڑ گئی۔ جب وزیر اعلیٰ کو علم ہوا تو انہوں نے تھانے تک یہ حکم پہنچایا کہ تعزیہ کے جلوس اور اس کے دفن ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ ہونے پائے۔ نوکر شاہی کا کمال دیکھئے کہ ایک دن پہلے ہی داروغہ کا تبادلہ ہوگیا گاؤں کے پردھان نے ۱۲؍ بجے رات میں وزیر اعلیٰ تک یہ بات پہنچائی۔ انہوں نے اُسی وقت اُس وقت کے تھانے دار کو حکم دیا کہ کل صبح پولیس کی نگرانی میں تعزیہ دفن ہونے کا انتظام کیا جائے اور یہی ہوا۔

مدیر ماہنامہ اصلاح نے کہا کہ گزشتہ ماہ پوری میں جگن ناتھ رتھ یاترا کا مسئلہ تھا پہلے سپریم کورٹ نے منع کیا پھر بی جے پی ترجمان اور اوڈیشہ میں ہی ایم پی کا الیکشن ہارنے والے سمبت پاترا کی درخواست پر سپریم کورٹ نے محدود مجمع کے ساتھ جس میں تین رتھ کھینچنے والے ہی پانچ پانچ سو تھے عدالت نے یاترا کی اجازت دے دی۔ مقامی طور سے شادی بیاہ میں جنازے میتوں میں چالیس پچاس کی اجازت دی ہی جاتی ہے۔ میں نے متاثروں سے معلوم کیا تو چاہے بین الاقوامی پروازیں ہوں یا اندرون ملک سیٹوں پر پاس پاس لوگ بیٹھتے ہیں ، بسوں اور ٹرینوں میں بھی تقریباً ایسا ہی ہے تو پھر پابندیوں کی گاج فقط مذہبی جلوسوں اور اجتماعات ہی پر کیوں پڑے۔ جیسے وہ تمام امور احتیاطی تدابیر کے ساتھ انجام پاسکتے ہیں تو یہاں بھی یہی ہوسکتا ہے۔ عنقریب پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس ہونے والا ہے وہاں بھی راجیہ سبھا ہو یا لوک سبھا ممبران مناسب فاصلوں کے ساتھ بیٹھیں گے کیا ایسا مجلسوں میں نہیں ہوسکتا؟ ان تمام امور پر محکمہ صحت اور حکومت کو متوجہ کرنےکی بہت پہلے سے ضرورت تھی لیکن افسوس کہ قصور اپنا ہی نکل آیا اوراب تک یہ نہیں ہوسکا۔ در اصل مذہبی قیادت کی مجبوریاں سیاسی قیادت کی طویل المدت حکمت عملی کا لازمی نتیجہ ہیں ۔

بہر حال بہت ہی کم وقت ہے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ہوسکتا ہے۔ محدود مجمع کےساتھ مجلسیں بھی ہوسکتی ہیں اور مخصوص جلوسہائے عزا محدود مجمع کے ساتھ نکالے جاسکتے ہیں۔ یہ خیال رہے کہ محرم الحرام کا آغاز اگست کے تیسرے عشرے سے ہورہا ہے۔ ۷۴؍ سال پہلے اسی اگست کے مہینہ میں ہندوستان کو انگریزوں سے آزادی حاصل ہوئی تھی اور تحریک آزادی کے قائد اعظم آنجہانی مہا تماگاندھی کے متعدد اقوال موجود ہیں کہ اس تحریک کو کامیاب بنانےمیں کربلا کے اصولوں کو مدنظر رکھا گیا ۔ لہٰذا اس آزاد ہندوستان میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری پر آنچ نہ آنا چاہئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .