حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کررونا کی تباہی کی وجہ سے ، مختلف ریاستی حکومتوں نے لوگوں کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریباًہر طرح کے سماجی و مذہبی پروگراموں پر پابندی عائد کردی ہے۔
درایں اثناء موصولہ اطلاعات کے مطابق لکھنؤ امامباڑہ غفرانمآب میں مولانا کلب جواد نے پلیس کے ذریعہ شیعوں کو گھروں میں تعزیہ نہ رکھنے دینے کی مخالفت میں اپنے ساتھیوں سمیت احتجاج شروع کردیا ہے جس سے امید ہے کہ کچھ نتائج برآمد ہوں اور عزاداروں کو راحت ملے۔
انھوں نے حکومت کی گائیڈ لائن کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعزیہ لے جانے کی اجازت انتظامیہ مانگی گئی ہے لیکن اب تک اس کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ مولانا کلب جواد حکومت کی اس روش سے ناراض ہو کر ہفتہ کے روز سینکڑوں افراد کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں۔
میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق مولانا کلب جواد غفران ماب امام باڑے میں دو دنوں کے لیے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ دھرنا پر بیٹھنے سے قبل انھوں نے ایک پریس کانفرنس کیا جس میں واضح لفظوں میں کہا کہ انھوں نے حکومت سے لگاتار عزاداری اور تعزیہ داری کی اجازت مانگی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
مولانا کلب جواد نے میڈیا سے کہا کہ "محرم کی بنیاد لکھنؤ سے ہی ہے۔ پوری دنیا میں یہاں کی عزاداری مشہور ہے۔ ہم حکومت سے چنندہ لوگوں کے ساتھ عزاداری اور تعزیہ داری کی اجازت چاہتے تھے۔ ہم نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ ہمیں امام باڑے میں سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ مجلس کرنے کی اجازت دے، لیکن حکومت نے ہماری نہیں سنی۔ اتنا ہی نہیں، حکومت نے گھروں میں بھی تعزیہ رکھنے کی اجازت نہیں دی۔"
مولانا کلب جواد نے کہا کہ مسلسل کوششوں کے باوجود بھی حکومت کی جانب سے زبانی طور پر پہلے مجالس میں بیس لوگوں کی شرکت کی اجازت دی گئی ، لیکن جب تحریر موصول ہوئی تو صرف پانچ لوگوں کی اجازت دی گئی۔ مولانا کے مطابق لکھنئو جیسے عزاداری کے اہم مرکز میں پانچ لوگوں کے ساتھ مجالس کا انعقاد نا ممکن ہے ، کیونکہ پانچ سے زیادہ لوگ تو صرف بندوبست کرنے والے ہی ہوجاتے ہیں ۔
مولانا کلب جواد نے کہا کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے جب اپنے گھروں اور ذاتی عمارتوں پر بھی سیاہ پرچم لگانے کی اجازت نہیں مل رہی ہے ۔ ستم تو یہ ہے کہ تعزیوں کے رکھنے اور خریدو فروخت کے مراکز پر بھی پولس پابندی عائد کررہی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ حکومت عزاداری کو ختم کرنے پر تلی ہے ۔ عزاداری نہ کبھی ختم ہوئی ہے اور نہ کبھی ختم ہوگی ۔ خواہ اس کے لئے ہمیں کوئی بھی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔