۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
جماعت اسلامی

حوزہ/بین الاقوامی زبانوں کی اہمیت تسلیم کئے جانے کے باوجود عربی زبان کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نئی اعلان شدہ ’قومی تعلیمی پالیسی‘ پر جماعت اسلامی ہند ‘ حلقہ مہاراشٹر کے شعبہ تعلیم کے سیکریٹری محمد اظہر الدین نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طویل عرصے سے نئی تعلیمی پالیسی ملک کی شدید ضرورت تھی لیکن اسے عوام میں اعلان کرنے سے پہلے پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا چاہئے تھا ۔ اس پالیسی کے مسودہ کی تیاری کے دوران کستوری رنگن کمیٹی نے بڑے پیمانے پر جو مشورے اور تجاویز مختلف تعلیمی حلقوں سے طلب کئے تھے ان میں سے کئی اہم کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔

یہ قابل ستائش ہے کہ ہندوستان کو ”عالمی علمی سپر پاور“ بنانے کے لئے اس پالیسی کو اچھے الفاظ اور اعلیٰ عزائم کے ساتھ تیار کیا گیا ہے ۔ 3 سال سے 18 سال تک کے طلباء کو لازمی تعلیم کے تحت شامل کرنا اس پالیسی کا ایک اچھا قدم ہے لیکن اس کے لئے حق تعلیم قانون میں ترمیم ہونی چاہئے ۔ قانون سازی میں مفت اور لازمی تعلیم کے ساتھ "معیارِ تعلیم” کو بھی شامل کیا جانا چاہئے ۔ تعلیم کے لئے جی ڈی پی کا 6 فیصد مختص کیا جانا دیرینہ تقاضا تھا      جس کی تکمیل اس پالیسی میں کی گئی ہے لیکن جو منصوبے اور عزائم پالیسی میں پیش کئے گئے ہیں اس کے موثر نفاذ کے لئے اس میں اضافے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پالیسی میں آئینی اقدار جیسے سیکولرزم ‘ ہم آہنگی ‘ انصاف ‘ مساوات اور بھائی چارے جیسی اہم دستوری قدروں کا ذکر ہو نا چاہئے تھا ۔ یہ ملک کے جمہوری ڈھانچے اور سلامتی کا لازمی تقاضا ہے ۔ مزید یہ کہ اس پالیسی میں صرف آئینی فرائض کی بات کہی گئی ہے حقوق کی نہیں ‘ ایک جمہوری ملک میں یہ متوازن طرز عمل نہیں ہے ۔     طالب علم کے ہمہ جہت ارتقاء کی بجائے مارکیٹ کی ضروریات کا خیال رکھا گیا ۔ نصاب میں اقدار ‘ اخلاق اور تربیت کو نظر انداز کیا گیا ۔ اس کے نتیجے میں طالب علم خود مرکوز بنے گا اور سماج سے کٹتا چلا جائے گا ۔ پالیسی بڑی حد تک تعلیم کے تجارتی کرن کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہے ۔ امتحان اور حافظہ کی بنیاد پر طالب علم کی اہلیت کو جانچنا ہمارے نظام تعلیم کا بڑا نقص تھا ۔اس پالیسی میں اس جانب کوئی بڑا قدم محسوس نہیں ہوتا ۔

سیکریٹری تعلیم محمد اظہر الدین نے اقلیتوں سے متعلق کہا کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی تعلیمی بہتری کے لئے خصوصی اقدامات سابقہ پالیسیوں کے بر خلاف اس پالیسی میں مفقود ہیں ۔ خصوصی تعلیمی زون بنانے کا فیصلہ قابل ستائش ہے ۔ یہ زون ان تمام 60 مسلم اضلاع میں قائم کئے جانے چاہئے جن کی شناخت سابقہ حکومتوں نے کی ہیں۔ بین الاقوامی زبانوں کی اہمیت تسلیم کئے جانے کے باوجود عربی زبان کو یکسر نظر انداز کیا گیا ۔ وزارت خارجہ کے اعدادو شمار کے مطابق ہندوستان کے کل 28 ملین این آر آئی (بیرون ملک مقیم لوگ ) میں 8 ملین این آر آئی عربی بولنے والے خلیجی ممالک میں مقیم ہیں۔   ان ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اور معاشی فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی تعلیمی پالیسی میں غیر ملکی زبانوں میں عربی کو بھی شامل کیا جانا چاہئے ۔ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ای مواد صرف آٹھ درج شدہ زبانوں میں تیار کئے جائیں گے جس میں اردو کو شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ اردو ملک کی ساتویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے ۔    مادری زبان کو تعلیم کا ذریعہ بنانے کا نفاذ ایک قابل تحسین اقدام ہے اور وقت کی ضرورت بھی لیکن اس کے موثر نفاذ کا میکانزم پالیسی میں نظر نہیں آتا ۔

موصوف نے مزید کہا کہ سابقہ پالیسی کے نفاذ سے کوئی سبق نہیں لیا گیا۔ اس میں عمل درآمد کرنے کے لئے کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ مزید یہ کہ یہ پالیسی بہت زیادہ مرکزی ایجنسیوں کے لئے گنجائش پیدا کرتی ہے ۔ یہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کے منافی ہے ۔ مختلف اہم اقدامات کے لئے ریاستوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ۔ اساتذہ کی آسامیوں کو پورا کرنے کے لئے کوئی ٹائم لائن متعین نہیں ہے ۔ اسی طرح ‘ ٹیچرس ایجوکیشن ریفارم ‘ عرصہ دراز سے ٹھنڈے بستے میں ہے اس کا وقت 2025 تک مقرر ہوجانا چاہئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .