۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
مولانا اجمل حسین قاسمی 

حوزہ/ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی ماہ محرم الحرام ایک مخصوص صورت حال میں منانا پڑ رہا ہے اس لئے موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام عزادروں کو چاہئے کہ وہ کورونا ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر کا  خیال رکھتے ہوئے مجالس و جلوسوں کا انعقاد کریں۔

تحریر: مولانا اجمل حسین قاسمی 

حوزہ نیوز ایجنسی دین مبین اسلام میں تمام اعمال کے احکام کے ساتھ ساتھ کچھ آداب بھی ذکر ہوئے ہیں جو ان اعمال کی فضیلت و اجر و ثواب اور تأثیر میں اضافے کا باعث بنتے ہیں ۔ جیسے نماز کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ صاف ستھرے کپڑے اور ٹوپی پہن کر نماز پڑھی جائے جس سے نماز کی فضیلت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح عزاداری امام حسین ؑ کے لئے بھی بہت کچھ آداب ذکر ہوئے ہیں جو عزاداری کی فضیلت ، اجر و ثواب اور تاثیر پہ بہت اثر اندازہوتے  ہیں ۔ اس مختصر سے مقالے میں ہم اپنے قارئین اور عزاداروں کی خدمت میں چند ایک آداب عزاداری امام حسین ؑ کو ذکر کرتے ہیں۔ امید ہے تمام مؤمنین عزاداری کی مجالس میں ان آداب کا خیال رکھیں گے انشاء اللہ ۔ 

معصوم ؑ کی حدیث ہے کہ عزاداری کی مجالس میں اہلبیت ؑ کی تعلیمات کو اجاگر کیا جائے۔  خطیب کے منبر پر جانے سے یا  ایک نوحہ خواں کے نوحہ پڑھنے سے سامعین کی فکری سطح اور سوچ میں تبدیلی آنی چاہئے ۔  اگرخطیب کی تقریر سے  لوگوں کے علم میں اضافہ ہوتا ہو اور لوگوں کی فکری سطح اور سوچ میں تبدیلی آتی ہو اور لوگوں کے اخلاق ، کردار اور گفتار میں مثبت  تبدیلی آتی ہے تو اس خطیب اور نوحہ خواں نے اہلبیتؑ کے امر کو زندہ کیا ہے ۔اسی طرح سامعین کو بھی چاہیئے کی خطیب کے نصائح پر عمل کرکے اہلبیت ؑ کے امر کو زندہ کریں ۔ مجالس عزاداری میں جو افراد شرکت کرتے ہیں  وہ وہاں سے کوئی نئی بات ،  علمی ، تاریخی ،فقہی معلوماتی یا  دور جدید کے حوالے سے کچھ حاصل کرکے جائیں  اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جو خطیب مجلس پڑھ رہا ہے وہ اپنے مطالعات کو وسعت دے اور ساتھ ساتھ اخلاص کے ساتھ گفتگو کرے تاکہ لوگوں کی معرفت و بصیرت میں اضافہ کرسکے ۔ ہر خطیب کو چاہیئے کہ وہ اپنی مجالس میں فقہی احکام بھی بیان کرے ۔اور سامعین کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ فقہی احکام پر عمل کریں خصوصا مجالس عزاداری میں عزاداری کے احکام پر عمل ہونا چاہیئے ۔

معاشرے میں، لوگوں کے ذہن میں بعض اوقات کچھ سوالات  اور اعتراضات پیش آتے ہیں خطیب کو چاہیئے کہ ان کا منطقی ،عقلی و نقلی دلائل سے جواب دے ۔البتہ سامعین کو بھی چاہیئے کہ ان کے ذہنوں میں موجود شبہات اور اعتراضات علماء کے حضور پیش کریں تاکہ ان کے اذہان باطل چیزوں سے پاک ہوجائیں ۔

امام حسین ؑ جب کربلاء پہنچے توسب سے پہلےفقہی مسئلے کو مد نظر رکھتے ہوئے کربلا ء کی زمین کو خرید ا ؛ کیونکہ امام حسین ؑ نہیں چاہتے تھے کہ غصبی زمین پر شہید ہوں ۔ اور امام حسین ؑ چاہتے تھے کہ ان کا مقدس خون غصبی زمین پر  نہ گرے ۔ امام حسین ؑ کی سیرت سے درس لیتے ہوئے ہمیں بھی عزاداری میں شرعی مسائل کا خیال رکھنا چاہیئے ۔ خصوصا ً خواتین کو پردے کا خیال رکھنا چاہیئے  اور تمام عزاداروں کو عزاداری کی مجالس میں جھوٹ ، تہمت ، بد اخلاقی اور دیگر غیر اخلاقی کاموں  سے دوری اور اجتناب کرنا چاہیئے ۔ فقہی اعتبار سے کالے کپڑے پہننا مکروہ ہے لیکن امام حسین ؑ اور ائمہ معصومین ؑ کی عزاداری میں اس لباس کو کراہت سے مستثنی قرار دیا گیا ہے ؛کیونکہ یہ لباس حزن و اندوہ اور غم و الم کی نشانی اور عظیم شعائر میں سے ہے ۔
   
امام صادق ؑ نے فرمایا ہے : " جو شخص عاشورا کے دن دنیاوی کاموں سے پرہیز کرے [یعنی پیسوں اور تجارت یا کسب کار  کے لئےاور اپنی روزانہ کی معیشت کے لئے بھی کوشش نہ کرے ]،  تو خداوند متعال اس کی دنیاوی و اخروی حوائج پوری کرے گا ، عاشورا کے دن جو شخص مصیبت و الم  و عزاء کرےگا توقیامت کے روز اس کا چہرہ مسرور ہوگا ، جس دن تمام لوگوں کے اوپر وحشت اور خوف طاری ہوگا  ۔ حدیث قدسی میں مذکور ہے کہ خداوند متعال نے حضرت موسی ؑ سے ارشاد فرمایا : " اے موسیٰ ! جو بھی عاشورا کے دن میرے حبیب مصطفی ﷺ کے فرزند کے لئے گریہ کرے یا رونے کی صورت بنائے اور سبط مصطفی ﷺ کی مصیبت پر تعزیت پیش کرے ، وہ ہمیشہ کے لئے جنت میں ہوگا  ۔ رسول اکرم ﷺاپنی بیٹی سیدہ فاطمہ زہراء (س) سے خطاب کرتےہوئے فرماتے ہیں  : بیٹی فاطمہ (س) ! بے شک میری امت کی خواتین میرے خاندان کی خواتین کے مصائب پر روتی ہیں اور ان کے مرد میرے خاندان کے مردوں کے مصائب پر روتے ہیں اور نسل در نسل ہر برس ہماری عزاداری کی تجدید کرتے ہیں اور جب قیامت ہوگی تو آپ(س) ( اہلبیت ؑ کی خواتین کے مصائب پر گریہ و بکاء کرنے والی ) خواتین کی شفاعت کریں گی اور میں ( اہلبیت ؑ کے مردوں پر گزرنے والے مصائب پر گریہ و بکاء کرنے والے ) مردوں کی شفاعت کروں گا اور ان میں سے جس نے بھی امام حسین ؑ کے مصائب پر گریہ و بکاء کیا ہوگا ،ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیں گے اور اس کو جنت میں داخل کریں گے ۔ یا فاطمہ (س) ! قیامت کے دن تمام آنکھیں رو رہی ہونگی سوائے ان آنکھوں کے جو امام حسین ؑ کے مصائب پر اشکبار ہوئی ہیں  ۔

ہم جانتے ہیں کہ حضرت زینب (س) پہلی عزادار ہیں جنہوں نے کربلاء میں ہی امام حسین ؑ کے جسم مبارک کے قریب آکر فرمایا : اے میرے جدامجد  رسول اللہ ﷺ آسمان کے ملائکہ آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں جبکہ  آپ کے حسینؑ خون میں لت پت ، ریت اور مٹی پر  پڑے  ہوئے ہیں جبکہ ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے ہیں ، یا اللہ ہماری یہ قربانی اپنی بارگاہ میں قبول فرما  ۔ حضرت زینب (س)نے اس طرح عزاداری کی تہذیب کی بنیاد ڈالی ۔ سیدہ نے یہ سلسلہ شام تک اسیری کی حالت میں  بھی جاری رکھا اور عزاداری کو پیغام حق کا بہترین اور مؤثر ترین ذریعہ ثابت کرکے دکھایا ۔ چنانچہ ہمیں بھی عاشورا کے دن اور عزاداری کے دوسرے ایام میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ ہر عزادار کے کندھے پر نئی ذمہ داریاں عائد کرتی ہے؛ کیونکہ عزاداری احیائے دین کا نام ہے جس طرح انقلاب عاشورا اور تحریک حسینی ؑ اور واقعہ کربلاء دین اسلام کے احیاء کے نام ہیں  ۔ ہمیں عزاداری کو عادت اور رسم کے طور پر نہیں منانا چاہیئے بلکہ اس عمل کو خالص نیت اور خدا کی رضا و خوشنودی کے لئے انجام دینا چاہیئے اور ساتھ ہی  خلوص میں بھی ہمیں صادق و سچا ہونا چاہیئے؛ حتی ایک چھوٹا سا عمل بھی اگر خلوص نیت کے ساتھ انجام پائے  تو یہ ان کثیر اعمال سے کہیں زیادہ بہتر ہے جن میں خلوص اور صداقت کا لحاظ  نہ رکھا گیا ہو ، خواہ وہ اعمال کئی ہزار گنا زیادہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ چنانچہ یہ بات حضرت آدم ؑ اور شیطان کی عبادات سے بخوبی سمجھ میں آتی ہے ؛ کیونکہ شیطان کی کئی ہزار سالہ غیر مخلصانہ عبادت اسے دوزخ کی آگ سے نجات نہیں دے سکی ۔ جبکہ حضرت آدم ؑ کی عبادت شیطان کی نسبت بہت کم تھی مگر چونکہ ان عبادات میں اخلاص کا عنصر شامل تھا ، خداوند متعال نے حضرت آدم ؑ کا ترک اولیٰ بخش دیا اور آپ ؑ کو نبوت عطا ء فرمائی ۔ ان کے علاوہ اعمال کی انجام دہی میں بھی خیال رہے کہ کہیں ریا اور لوگوں کی تعریف  و تمجید کی خواہش و تمنا ہماری نیت میں رسوخ نہ کرے ۔

سیدا لشہداء ؑ  اور آپ ؑ کے باوفاء اصحاب سب کے سب  نماز کی راہ میں شہید ہوئے ہیں ۔ اسی وجہ سے  ہم امام حسین ؑ کی " زیارت مطلقہ " میں امام ؑ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں : میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ؑ نے نماز قائم کی ، زکات ادا کی ، بھلائیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے منع کیا )۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نو محرم الحرام کو محاصرہ شدید ہوا  اور  لشکر یزید نے جب حملے کا منصوبہ بنالیا تو امام حسین ؑ نے اپنے بھائی عباس ؑ سے فرمایا : " یزیدی لشکر کے پاس جائیں اور اگر ممکن ہو تو ان سے آج کی رات  کی مہلت لیں اور جنگ کو کل تک ملتوی کرائیں تاکہ ہم آج کی رات نماز ، استغفار اور اپنے پروردگار کے ساتھ مناجات اور راز و نیاز میں گزاریں ۔ خدا جانتا ہے کہ میں نماز ، تلاوت قرآن اور دعا و استغفار کو بہت پسند کرتا ہوں ۔ امام سجاد ؑ فرماتے ہیں : میرے والدگرامی ؑ ہر رات ایک ہزار نماز پڑھا کرتے تھے ۔ روز عاشورا امام حسین ؑ نے نماز ظہر و عصر کا خاص طور پر اہتمام کیا اور یزیدی دشمن کے تیروں کی بوچھاڑ میں بھی نماز عشق کی داستان رقم کی ۔ یقینا   امام ؑ اپنے پیروکاروں سے بھی توبہ و استغفار اور دعا و عبادت کی توقع رکھتے ہیں، چنانچہ اگر نماز کا وقت ہوجائے تو عزاداری کے دوران بھی نماز بجالانا ضروری ہے  اور تعزیت و تسلیت پیش کرتے وقت اور مجالس کے انعقاد کے دوران اس طرح شیڈول بنانا چاہیئے کہ یہ تمام عناصر شامل رہیں ؛ کیونکہ بہترین عزاداری کی توقع صرف بہترین عزادار سے ہی کی جاسکتی ہے ۔

پچھلے سال کی طرح اس سال بھی ماہ محرم الحرام ایک مخصوص صورت حال میں منانا پڑ رہا ہے اس لئے موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام عزادروں کو چاہئے کہ وہ کورونا ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر کا  خیال رکھتے ہوئے مجالس و جلوسوں کا انعقاد کریں۔ ہمیں چاہیئے کہ عزاداری کی مجالس میں ان آداب کا خیال رکھتے ہوئے مجالس و عزاداری کو مزید بہتر اور اچھے انداز میں قائم کریں تاکہ امام حسین ؑ اور دیگر معصومین ؑ کے بتائے ہوئے راستے پہ چلتے ہوئے حقیقی مؤمن اور عزادار ہونے کا ثبوت دیں ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .