۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
نمائندۂ ولی فقیه ہندوستان

حوزہ/گھر گھر اور شہر شہر جاکر لوگوں تک مدد پہنچائی جارہی ہے لوگوں کی مدد کی جارہی، درحقیقت اسی جذبے کی ضرورت ہے اسی طرح کی تحریک کام آئے گی، سب آپس میں مل کر متحد ہوکر بڑے پیمانے پر  لوگوں کی مدد کریں اور کسی کو تنہا نہ چھوڑیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بہت ہی مؤقر اور مستند اخبار اور بالخصوص ہندوستان میں شیعہ نیوز پر توجہ رکھنے والا اخبار صدائے حسینی اور ملٹی میڈیا نیٹ ورک سفیر ٹی وی بہترین کام انجام دے رہے ہیں، اسی ضمن میں سید جعفر حسین سی ای او حسینی میڈیا نیٹورک نے اپنے ٹی وی چینل سفیر ٹی وی کے توسط سے ہندوستان میں نمایندهٔ ولی‌فقیہ  حجت‌ الاسلام‌ والمسلمین مهدوی سے خصوصی گفتگو کی جسمیں حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے ماہ مبارک رمضان کی اہمیت و فضیلت سمیت موجودہ وبائی صورت حال میں دفاعی اقدامات اور پابندیوں کے باوجود ایران کی کامیابی اور سربلندی پر گفتگو ہوئی۔

گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سفیر ٹی وی کے ذریعہ نمائندۂ ولی فقیه کا تعارف پیش کیا گیا جسکے بعد حجت‌الاسلام‌والمسلمین مهدوی دامت برکاته نے مندرجہ ذیل پیغام مؤمنین ہندوستان کے نام صادر فرمایا:
 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

شَهْرُ رَمَضانَ الَّذی أُنْزِلَ فیهِ الْقُرْآنُ 
تمام مومنین ہندوستان کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں اور ماہ رمضان المبارک کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، پروردگار کی بارگاہ میں بحق محمد وآل محمد(ع) دعا ہے  کہ سبھی کے اعمال اور عبادات بارگاہ حق میں قبول ہوں اور روزوں کو اللہ شرف قبولیت عطا فرمائے۔

ماہ رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہےجو بہت ہی خاص حیثیت کا حامل ہے مومنین کے لئے بہت ہی اچھا موقع ہے کہ عبادات کا خصوصی اہتمام فرمائیں کیونکہ اور تمام دیگر مہینوں کی بنسبت اس مہینے کو خصوصی امتیازات حاصل ہیں۔
یہ مہینہ اللہ کے خاص لطف و عنایات کا مہینہ ہے  جس میں اللہ اپنے بندوں پر  بہت ہی خاص لطف و کرم رکھتا ہے اور ایک بہترین موقع ہے جب اللہ کی رحمت سے فیضیاب ہوا جائے اس لیے کہ اللہ نے اس مہینے کو ایک بہترین موقع کے طور پر  اپنے بندوں کے سامنے قرار دیا ہے۔

یہ ضیافت الہی کا مہینہ ہے اس میں اللہ میزبان ہوتا ہے اور مومنین اس کے مہمان ہوتے ہیں اور یہ خصوصیت صرف ماہ رمضان کو حاصل ہے اللہ نے اس مہینے کو اپنی ضیافت کے لئے معین کیا ہے جبکہ ماہ رجب بھی اللہ کا مہینہ ہے لیکن خاص طور پر ماہ رمضان کو ہی ضیافت الہی کا مہینہ کہا گیا ہے، اللہ سبحانہ وتعالی نے اس ماہ مبارک رمضان کو  قرآن مجید کے نزول کے لیے چنا اور اس میں  شب قدر کو قرار دیا اور پھر اسمیں میں قرآن کو نازل کیا۔

چونکہ نزول قرآن کی دو قسمیں ہیں یعنی دو طریقے سے قرآن نازل ہوا ہے ایک دفعی صورت میں اور دوسرے تدریجی صورت میں،اور شب قدر میں قلب پیغمبر(ص) پر دفعی طور پر قرآن کا نزول ہوا جس سے ہمیں اس مہینے کی عظمت و جلالت کا خاص خیال رکھنا چاہیئے اور زیادہ سے زیادہ اسمیں عبادات کا اہتمام کرنا چاہیئے۔

ایک اور اہم خصوصیت ماہ رمضان کی جو ہے وہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اس ماہ مبارک رمضان میں شب قدر کو قرار دیا ہے جو کہ بہت ہی بافضیلت شب ہے اور اسی شب میں تقدیریں سنواری جاتی ہیں۔
 اس ماہ مبارک رمضان کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں وہ تمام اعمال جو انجام دیے جائیں گے ان کا کئی گناہ ثواب انسان کو ملے گا جیسا کہ روایت کے مطابق ایک آیت کی تلاوت کی جائے تو پورے قرآن ختم کرنے کا ثواب ملتا ہے۔

یہ ماہ رمضان مومنین کی بہار کا مہینہ ہے اس لیے اسے اہل ایمان کے لیے آغازِ سال بھی کہا گیا ہے جیسا کہ پیغمبراسلام(ص) نے فرمایا اہل ایمان کے لئے سال کا پہلا دن ماہ رمضان کا آغاز ہے۔
لہذا انہیں خصوصیات کو دیکھنے کے بعد ہم پر واجب ہو جاتا ہے کہ ہم اس سنہرے موقع سے زیادہ زیادہ استفادہ کریں اور دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کریں۔

مخصوصا یہ جو کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں حالات پیدا ہوگئے ہیں بالخصوص ہندوستان میں جو وبائی صورتحال ہے؛ اس ماہ مبارک رمضان میں جو دعاؤں کا مہینہ ہے بہترین موقع ہے کہ اس میں دعا کی جائے اور بلاؤں کو دعاؤں کے ذریعہ دور کیا جائے۔

اب میں چند بہت ہی اہم باتیں آپ حضرات کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں؛ مقام معظم رہبری حفظہ اللہ کی طرف سے کرونا وائرس کی وجہ سے جو مشکلات پیدا ہوئیں ہیں انمیں جو ضرورت مند لوگ اور جو بہت ہی متاثر ہوئے ہیں اور بہت سی مشکلات میں گرفتار ہو چکے ہیں انکے لیے آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا پیغام ہے کہ  ایسے لوگوں کا خاص خیال رکھا جائے اور پوری تحریک چلائی جائے تاکہ جو معاشرے میں ضرورت مند لوگ ہیں وہ کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہوں۔

ایران کے اندر الحمداللہ اس وباء پر قابو پا لیا گیا جو کہ ایک چیلنج تھا لیکن اتحاد اور وہ بھی عوامی اتحاد کے ذریعہ کامیابی ملی، لوگوں نے ہمدلی کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کی اور سب مل جل کر ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں ہے اور انفاق کر رہے ہیں جس کی اسلام نے متعدد مقامات پر تاکید کی ہے۔ 

گھر گھر اور شہر شہر جاکر لوگوں تک مدد پہنچائی جارہی ہے لوگوں کی مدد کی جارہی ہے درحقیقت اسی جذبے کی ضرورت ہے اسی طرح کی تحریک کام آئے گی، سب آپس میں مل کر متحد ہوکر بڑے پیمانے پر  لوگوں کی مدد کریں اور کسی کو تنہا نہ چھوڑیں۔مسلمان ہو یا غیر مسلمان جو بھی ضرورت مند ہے اس کی مدد کی جائے۔ کیونکہ اس مہنے میں نیکیاں دو برابر ہوجاتی ہیں۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم ایک دوسرے پر رحم کریں گے، ایک انسان دوسرے انسان پر رحم کرے گا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ خود اللہ سبحانہ و تعالی بھی بندوں پر رحم کرے گا اور اگر وہ رحم کرے گا تو ساری بلائیں دور ہو جائیں گی، ایسا کیا، کیا جائے  کہ یہ بلا ختم ہو جائے تو جواب صرف یہی ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں ایک دوسرے پر رحم کریں اور رحم دلی سے کام لیں تو اللہ سبحانہ وتعالی بھی رحم کرے گا اور یہ وباء ہم سے ٹل جائے گی۔

اور میری اس گفتگو کا آخری جملہ یہ ہے کہ یہ موقع جو ہے درحقیقت اغنیاء کے لیے امیروں کے لیے دولت مندوں کے لیے ایک بہت بڑا اللہ کی طرف سے امتحان ہے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آج اس موقع پر دولت مند افراد غریبوں کی مدد نہ کریں تو اللہ ان سے انکی دولت سے برکتوں کو چھین لے گا کیونکہ وہ دولت واپس بھی لے سکتا ہے۔

حوزہ نیوز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق معلوم ہو کہ نمائندہ ولی فقیہ کے بیان کے بعد سفیر ٹی وی کی جانب سے چند سوالات دریافت کیے گئے اور ایران کی بہترین کامیابیوں پر نمائندۂ ولی فقیہ کی خدمت میں ہندوستانی شیعوں کی جانب سے مبارک باد پیش کی گئی جسکے ضمن میں سید جعفر حسین نے کہا: ایران لائق مبارکباد ہے کہ جس نے اس وبا پر قابو پا لیا اس سلسلے میں ہندوستان کو کیا کرنا چاہیئے؛ جسکے جواب میں نمائندۂ ولی فقیہ نے کہا؛

الحمداللہ ایران نے بہت کم مدت میں اس وباء پر قابو پا لیا جس کی سب سے بڑی اہم وجہ یہی بیان کی جاسکتی ہے کہ  لوگوں نے رہبر انقلاب کے بیان کے بعد ایک تحریک چلائی اور سب نے مل کر ایک دوسرے کی مدد اور ای دوسرے کے ساتھ  تعاون کیا، لوگوں نے خود ہی ماسک بنوا کر تقسیم کروائے ساتھ ہی دیگر امور میں لوگوں نے حکومت کا ساتھ دیا اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،ہاسپٹل میں حکومتی افراد کی کمی کی بنا پر ہسپتال میں جاکے لوگوں کی مدد کی، ہندوستان میں بھی لوگوں کو سامنے آنا ہوگا اور حکومت کی مدد کرنی ہوگی۔

اس درمیان رہبر معظم حفظہ اللہ نے جو کام کیا وہ یہ کہ اپنے بیانات سے ایک روحانی پہلو کو اجاگر کیا اور اس روحانیت اور معنویت کے ساتھ شرعی ذمہ داری سمجھتے ہوئے لوگ میدان عمل میں آگئے ہسپتال کے عملے نے اپنا کام عبادت سمجھتے ہوئے انجام دیا اور اسے معنوی پہلو کے حساب سے دیکھا یہی وہ روحانی پہلو ہے کہ جو رہبر معظم کے کے بیان سے پیدا ہوا جسمیں انہوں نے دعاؤں کے پڑھنے پر تاکید فرمائی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .