۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
علامہ محمد امین شہیدی

حوزہ/ عشقِ رسول تمام امت کے حصوں کو آپس میں جوڑنے کا ذریعہ ہے لہذا اگر انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد انقلاب کی طرف سے اور اسلامی ریاست اور حکومت کی طرف سے 12 ربیع الاول سے لے کر 17 ربیع الاول تک کے ان ایام کو وحدت و اتحاد، تقریب اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑنے کا ہفتہ قرار دیا گیا تو خود یہ اقدام مسلمانوں کو یکجہتی کی طرف لانے کے حوالے سے انتہائی اہم قدم ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہفتہ وحدت اسلامی کے موقع پر علامہ محمد امین شہیدی، سربراہ امت واحدہ پاکستان نے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ khamenei.ir کو ایک انٹرویو دیا جس میں ممتاز رہنما اور مفکر علامہ محمد امین شہیدی نے اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے رہنما نظریات کا جائزہ لیا اور اتحاد کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

سوال: رہبر انقلاب اسلامی کی طرف سے اتحادبین المسلمین پر ہمیشہ خاص تاکید ہوتی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: مسلمانوں کو یکجا کرنے کے لئے جن جن اقدامات کی ضرورت ہے ان میں سے ایک بہترین قدم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ چونکہ ذاتِ رسول پوری امتِ مسلمہ کے درمیان نکتۂ اتحاد ہے۔ عشقِ رسول تمام امت کے حصوں کو آپس میں جوڑنے کا ذریعہ ہے لہذا اگر انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد انقلاب کی طرف سے اور اسلامی ریاست اور حکومت کی طرف سے 12 ربیع الاول سے لے کر 17 ربیع الاول تک کے ان ایام کو وحدت و اتحاد، تقریب اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑنے کا ہفتہ قرار دیا گیا تو خود یہ اقدام مسلمانوں کو یکجہتی کی طرف لانے کے حوالے سے انتہائی اہم قدم ہے۔ اس کے نتیجے میں یقیناً دلوں سے کدورتیں دور ہو جائیں گی۔ جب مسلمان ایک دوسرے کی تقریبات میں حاضر ہوں گے، ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں گے، ذاتِ اقدس نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ایک دوسرے کا نکتۂ نظر سنیں گے اور ایک دوسرے کی محافل میں شریک ہو کر عشقِ رسول میں سرشار معاشرہ تشکیل دینے کی جدوجہد کریں گے تو یقین جانیئے کہ اس کے نتیجہ میں محبتیں بڑھیں گی، الفتیں بڑھیں گی، ایک داسرے کے ساتھ تعلق مضبوط ہو گا، کینے، نفرتیں، دوریاں ختم ہوں گی اور وہ جو عیار اور چالاک دشمن ہے اس کی ریشہ دوانیوں کو روکنے میں بھی بہت بڑی مدد حاصل ہو گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے التجا ہے کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس، ان کی آلِ اطہار سے تمسک اور ان کے پاکیزہ جاں نثار اصحابِ کرام کے احترام کے ساتھ باہمی زندگی کو رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محوریت کی بنیاد پر نورانی سے نورانی تر کر کے وحدت و اتفاق کے ذریعہ سے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ایک امت بننے کے لئے آگے بڑھنے کی سعادت نصیب فرمائے۔

سوال: رہبر انقلاب اسلامی پوری مسلم امہ کو پیکر واحد سے تعبیر کرتے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب: رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امتِ اسلامیہ کو، امتِ مسلمہ  ایک پیکر "پیکرِ واحد" سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی وجہ امتِ اسلامی کی وہ بنیادیں ہیں جو تمام دنیا میں پھیلی ہوئی اس امت کے ہر ہر فرد کو دوسرے سے جوڑتی ہے۔ اس کا آغاز توحید سے ہوتا ہے، رسالت کی قبولیت، وحی کی قبولیت، قرآنِ کریم کو مشترکہ کتاب کے طور پر قبول کرنا، معاد، حشر و نشر اور قیامت کا عقیدہ بنیادی طور پر وہ چیزیں ہیں جو جڑ اور اصول کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان اصولوں کی بنیاد پر جو عمارت کھڑی ہوتی ہے اس عمارت کو ہم اسلام کہتے ہیں۔ اس عمارت کے جو مختلف حصے ہیں وہ جب تک جڑ سے جڑے ہوئے ہیں زندہ بھی ہیں اور سالم بھی ہیں۔ اس اعتبار سے ان کا آپس کا رشتہ اس جڑ کی وجہ سے ہے ، ان بنیادوں کی وجہ سے ہے اسی طرح جس طرح سے ایک درخت اپنی جڑوں کی وجہ سے زمین پر کھڑا ہوتا ہے اور اس کا تنا مضبوط سے مضبوط تر ہوتا ہے۔ اس کی شاخیں اس جڑ سے جڑی ہونے کی وجہ سے اور ساتھ ساتھ ان جڑوں کی بنیاد پر ہمیشہ ہری بھری ہوتی ہیں۔ جس دن ان جڑوں سے شاخوں کا رابطہ کٹ جائے، ٹوٹ جائے تو شاخیں مر جاتی ہیں۔ تنا بھی جب ان جڑوں سے منقطع ہو جائے تو وہ تنا مردہ ہو جاتاہے۔ اس اعتبار سے امتِ مسلمہ کے درمیان موجود یہ مشترکات امت کے ہر ہر فرد کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا بھی باعث ہیں اور انہیں زندہ رکھنے کا بھی باعث ہے لہذا دنیا میں کہیں پر بھی کوئی کلمہ گو مسلمان ہو، لا الہ الا اللہ پڑھتا ہو ، محمد رسول اللہ کا اقرار کرتا ہو تو وہ اس تنے کا حصہ ہے اور زندہ تب تک ہے جب تک اس تن سے اس کا رشتہ قائم و دائم ہے۔ اس اعتبار سے دنیا میں جہاں پر بھی کوئی مسلمان ہو شیعہ ہو، سنی ہو، حنفی ہو، مالکی ہو ، شافعی ہو، حنبلی ہو، برصغیر کی تقسیم کے مطابق اہلِ حدیث ہو، دیوبندی ہو، بریلوی ہو۔ ہر صورت میں یہ سب کے سب مل کر مسلم امہ کے مختلف حصوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ ایک درخت کےتنے اور شاخوں کی طرح سے۔  لہذا یہ پیکرِ واحد ہیں اور اس پیکر میں سے کسی ایک کو بھی اگر نقصان پہنچتا ہے تو اس کا اثر دوسرا بھی لیتا ہے۔یہ جو شاعر نے کہا ہے: "جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں / کدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔ تو چاہے افریقہ میں مسلمان ہو یا ایشیا میں ہو، چاہے امریکہ میں ہو یا مشرقِ وسطیٰ میں ہو، چاہے ان کی رنگت کچھ اور ہو، ان کی کھال کا رنگ کچھ اور ہو، ان کا قبیلہ کچھ اور ہو، ان کی زبان ان کا کلچر ان کی تہذیب ان کا تمدّن کچھ اور ہو لیکن ان تمام اختلافات کے باوجود ان تمام لوگوں کو آپس میں جوڑنے کا کام اسلام انجام دیتا ہے اور اسلام ان کو اپنی آغوش میں متحد رکھتا ہے۔ اور یہی قرآن کریم کا ہدف بھی ہے اور مشیتِ خدا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی خواہش بھی ہے کہ تمام مسلمان پیکرِ واحد کی طرح سے  اور بدنِ واحد کی طرح سے اپنی قوت کا مظاہرہ کریں اور ان مشترکات پر مضبوطی سے کھڑے ہوں اور اپنی ان اصولوں سے، ان جڑوں سے متصل اور پیوستہ رہیں۔

سوال: اگر بر صغیر پر نظر ڈالی جائے تو مسلمانوں کی سطح پر اتحاد کی اہمیت اور ضرورت پر کتنی توجہ ہے اور اس مسئلے میں ‏نوجوان نسل کی کیا سوچ ہے؟ ‏

جواب: برصغیر پاک و ہند میں چونکہ ہم نے مجموعی طور پر ایک لمبا اور طویل عرصہ استعمار اور انگریزوں کی غلامی کی چکی تلے پستے ہوئے گزارا ہے اور آزادی کے بعد بھی نظام وہی ہے، وہی غلامی ہے بس آقاؤں کی شکل و صورت بدل گئی ہے۔ اس لئے غلامی کو جو سختیاں ہیں، اذیتیں ہیں، تجربہ ہے برصغیر کے لوگوں پر اس کے اثرات نمایاں ہیں لہذا اس کی تلخی کو شاید دیگر اقوام کی نسبت برصغیر کے لوگ زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ اس ظالمانہ، مستکبرانہ استعماری اور انگریزی نظام سے نجات اور دین کی پناہ حاصل کرنے کے لئے جو سب سے مؤثر ترین رستہ ہے وہ اسلامی اخوت ، قرآنی بھائی چارہ اور مسلمانوں نے کے درمیان امت کے تصور کو زیادہ سے زیادہ مضبوط، قوی اور باہدف بنانا ہے۔ اس حوالہ سے آج کے تعلیمی نظام، آج کے کلچرل سسٹمز اور ہمارے معاشرتی رویے یہ وہ چیزیں ہیں جن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اور اس چیز کو آج کا جوان بھی شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور آج کا عالم اور پڑھا لکھا دانشور بھی شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ برصغیر میں اس حوالے سے شدید ضرورت ہے کہ مختلف مسالک کے اکابر اور جوان اکٹھے ہو کر امت کے اس اتحاد کی شکل کو یقینی بنانے کے لئے مشترکہ جدوجہد کریں۔ جب تک اتحاد کی ایسی فضا قائم نہیں ہوتی اس وقت تک غلامی کی تلخیاں ہمارے پورے معاشرے کے وجود پر باقی رہیں گی۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کے باقی حصوں کی نسبت دین سے وابستگی، دین سے عشق، دین کی خدمت کا جذبہ، دینی اَلَم کے اٹھانے کا جذبہ، قربانی اور دنیا بھر میں پیش آنے والے چیلنجز کے مقابلے میں بیداری کا ثبوت سب سے زیادہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان دیتے ہیں لیکن چونکہ یکجائی، وحدت، اتحاد فکر و عمل کا فقدان موجود ہے اور یہی فقدان قیادت کے فقدان کے جنم کا باعث بنتا ہے اور اسی وجہ سے دشمن ہماری تقسیم اور ہمارے انتشار سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ اس چیز کو آج کا ہر جوان کو محسوس کرتا ہے، ہر اہل علم و دانش اس کمی اور خامی کو محسوس کرتا ہے۔ اس کمی اور خامی کو اگر اس معاشرہ سے دور کر دیا جائے تو اس خطے کے مسلمانوں کے اندر جو پوٹینشل ہے وہ یقینی طور پر باقی خطوں سے اگر ہم زیادہ نہ کہیں تو کم بھی نہیں ہے اور حوصلہ بھی اس علاقہ کے لوگوں میں انتہائی زیادہ ہے اور یہ اسلام کے لئے وہ کچھ کر سکتے ہیں جو دوسرے خطوں میں ممکن ہے اتنی آسانی سے نہ انجام دیا جا سکے۔  

سوال: وحدت اسلامی یعنی اسلام کے تمام فرقے ایک ساتھ پرامن زندگی بسر کریں، اس میں کہاں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، یہ رکاوٹیں ‏عمدی ہیں یا نہیں، ان کو کیسے دور کیا جائے؟

جواب: امتِ مسلمہ کے درمیان اتفاق و اتحاد کی فضا قائم کرنے کے حوالے سے  سب سے اہم ترین یہ ہے کہ تمام فرقے مل کر اپنے مشترکات کی بنیاد پر ساتھ میں جئیں اور جو ان امتیازی مسائل ہیں ان میں ایک دوسرے کو نہ چھیڑیں۔ دوسرے لفظوں میں اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے، اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے، اپنے فہمِ دین پر قائم رہتے ہوئے امت کو اکٹھا کرنے اور امت کے مختلف طبقات کے ساتھ مشترکہ اور پرامن زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھیں۔ یہ آئیڈیل سیچوئیشن ہے لیکن اس صورت میں مسلمان ایک بہت بڑی طاقت بھی بن جاتے ہیں اور عالَمِ کفر، عالَمِ استعمار اور مغربی استکبار کے وجود کے لئے بہت بڑا خطرہ بھی بنتے ہیں۔ اس لئے لبرل ڈیموکریسی ہو یا مغربی تہذیب سب کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو آپس کے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی بنیاد پر ہمیشہ باہم الجھائے رکھا جائے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر مشترکہ دشمن کے مقابلے میں اکٹھے نہ ہو سکیں۔ دشمن کی ان خواہشات کو  پورا کرنے کے لئے ہمارے معاشرے کے اندر موجود وہ ضعیف اور کمزور طبقات بھی ایندھن کا کام دیتے ہیں۔ جن کا مسئلہ نظریہ نہیں، عقیدہ نہیں قرآن اور اسلام نہیں بلکہ پیٹ کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ امت کی یہی کمزوری دشمنانِ دین کی تقویت کا باعث ہے اور ان کے لئے نکتۂ قوت ہے۔ لہذا اگر ہم دشمن کا رستہ روکنا چاہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے معاشرے کے اندر اس طبقاتی نظام کے خاتمے کے لئے اور استحصالی طبقات کو ختم کر کے معاشرے کے کمزور طبقات کو طاقتور بنانے کے لئے ہم جدوجہد کریں۔ اگر مغربی اور عالمی استعماری طاقتیں اور ان کے گماشتے اس طرح سے ہمیں کمزور کر سکتے ہیں تو ہم بھی ان کے مقابلے میں نبی کریم اور قرآن کریم کی تعلیمات پر یکجا ہو کر اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ نبی کریم اور قرآن کریم کی تعلیمات ہمارا مرکزی نکتہ بھی ہیں اور قوت کا بنیاد بھی۔ اور یہی چیز مغربی استعمار کا نکتۂ ضعف بھی ہے۔  لہذا ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیں قرآن اور نبی کریم کی تعلیمات سے دور کریں جس کے نتیجہ میں وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ تذکیۂ نفس، تربیت، تعلیم اور تذکیہ کے ذریعہ سے اپنے اور اپنے معاشرہ کے تمام طبقات کو اللہ کی کتاب سے اور اللہ کے رسول کی تعلیمات سے جوڑ سکیں اور اپنے نظامِ تعلیم و تربیت کو اس طرح سے تشکیل دے سکیں جس کے نتیجہ میں وہ نظام ہمیں شعور دے، ذہنی غلامی سے نکالے، منفعتوں کی تشخیص اور "اِن دی لانگ ٹرم" نقصان کی تشخیص میں ہمیں مدد دے اور اس کے نتیجہ میں ہم صرف اپنے سامنے کی چیزوں کو دیکھنے کے بجائے اپنی نگاہوں کو کھول کر دوررس اور دشمن کے پسِ پردہ عظائم کو سمجھ سکیں اور قرآن کریم کی تعلیمات کے پسِ منظر میں اسلام کی ان حکمتوں کا ادراک کر سکیں جو ہمیں تاقیامِ قیامت ذلت سے، رسوائی سے بچانے کی ضامن ہیں۔

سوال: تصور کیجئے کہ عالم اسلام متحد ہو جائے تو دنیا کی کیا تصویر ہوگی اور اس میں عالم اسلام کی کیا حیثیت ہوگی؟

جواب: سوال بڑا خوبصورت ہے کہ اگر عالَم اسلام متحد ہو جائے تو دنیا کی تصویر کیا ہو گی۔ کم از کم 56 مسلمان ممالک اگر اکٹھے ہوں تو دنیا کی معیشت ان کے ہاتھوں میں ہو گی، دنیا کا تعلیمی نظام ان کے ہاتھوں میں ہو گ۔ دنیا کے سب سے عظیم اور بڑے ذخائر انہی ممالک کے پاس ہیں۔ ان کی اگر مشترکہ فوج ہو گی، ان کی اگر مشترکہ طاقت ہو گی، ان کا مشترکہ نظام بنے گا تو اس کے مقابلے میں مشرق و مغرب سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ پوری دنیا کے اندر مسلمانوں کی عزتِ نفس بحال ہو جائے گی۔ کوئی مسلمان کہیں پر بھی ظلم کا نشانہ نہیں بنے گا۔ عالَم اسلام پوری دنیا میں اور گلوبلی طور پر ایک انتہائی بڑی طاقت بن جائے گی جس کو ہم "سپر پاور" کہہ سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کے تمام معاملات چونکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے اس لئے یہ محتاج نہیں ہوں گے۔ نہ مغرب کے محتاج ہوں گے نہ مشرق کے محتاج ہوں گے۔ ایک دوسرے سے اپنی ٹیکنالوجیز اور اپنی صلاحیتیں شیئر کرنے کے نتیجے میں یہ ممالک مل کر وہ سپر پاور بنیں گے جس کے سامنے امریکیوں کو اور یورپ کو اور باقی دنیا کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ بہرحال یہ وہ عظیم تصور ہے، عظیم خواب ہے جس کی عملی تعبیر ممکن ہے ناممکن نہیں ہے۔ اگرچہ ہم عقیدے کے اعتبار سے مہدی آخرالزمان (عج) کے ظہور کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا پر ان کی حکومت ہو گی لہذاجیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے ہم اس قرآنی حقیقت کے قریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ شعور کی بلندی کے نتیجے میں، آگہی کے نتیجے میں، بیداری کے نتیجے میں اور اتحاد و وحدت اور یکجہتی کے نتیجے میں وہ دن آئے گا جب عالمِ اسلام ایک بدن، ایک پیکر بن جائے گا اور پھر اس کے ثمرات دنیا کے ہر مظلوم انسان تک پہنچیں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔

سوال: مغربی ایشیا کے علاقے میں اسلامی مزاحمتی محاذ ایک طرف استکبار کے خلاف پیکار کا مظہر ہے تو دوسری طرف اتحاد ‏بین المسلمین کا آئینہ بھی ہے کیونکہ اس میں شیعہ و سنی فورسز شامل ہیں اور ایک دوسرے کے لئے قربانیاں دینے پر آمادہ ‏ہیں۔ اس کامیاب تجربے کے درس کیا ہیں؟

جواب: ہم نے مغربی ایشیا  میں عملی طور پر مسمانوں کے مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان ملک دشمن عناصر اور بیرونی طاقتوں کے خلاف اتحاد، وحدت اور یکجہتی کا جو مظاہرہ دیکھا اس کے ثمرات بھی نظر آئے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ جب شیعہ اور سنی شام میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو داعش کو بھی شکست دیتے ہیں اور داعش بنانے والے کو بھی شکست دیتے ہیں، عراق کے اندر بھی ہم نے دیکھا کہ اگر شیعہ و سنی دوسرے لفظوں میں "کلمہ گو مسلمان" ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اس کے نتیجے میں امریکی ہزیمت اٹھانے پر، ذلت اٹھانے پر اور پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور عراقی ملت کو اپنی عزتِ نفس کی بحالی کا موقع ملتا ہے۔ ہم نے فلسطین اور لبنان میں بھی اس کے مظاہرے دیکھے کہ جب شیعہ اور سنی مل جاتے ہیں تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے مقابلے میں بڑی آسانی کے ساتھ کم قربانیاں دے کر زیادہ فوائد اور مفادات حاصل کر پاتے ہیں۔ لہذا مشرقِ وسطٰی میں، مغربی ایشیا  میں یہ تجربہ برصغیر کے لئے بھی اور دیگر سرزمینوں کے لئے بھی انتہائی اہم ہے کہ  ہم مسالک کے درمیان اتحاد و اخوت و بھائی چارے کی فضا اگر قائم کرنے میں کامیاب ہوں تو دشمن کی بڑی سے بڑی سازش کا مقابلہ بھی ہم بآسانی کر پائیں گے۔ ورنہ آپس کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کے باعث ہم اسلامی کی اس عالمگیر مصلحت اور بڑے مفادات سے ہمیشہ محروم رہیں گے اور یہی استکبار اور مغربی طاقتوں کی اور آج کی دنیا کے طاغوتوں کی سب سے بڑی خواہش ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .