۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
ہفتہ وحدت

حوزہ/ امام خمینیؒ کے پیغام کے ذیل میں اگر مسلمانان عالم خصوصاً مشرق وسطیٰ میں مسلم اقوام اپنی صفحوں کے اندر برادری و اخوت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کرپائے گی۔

تحریر: نواب علی اختر، ایڈیٹر روزنامہ صحافت دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | امام خمینیؒ کے پیغام کے ذیل میں اگر مسلمانان عالم خصوصاً مشرق وسطیٰ میں مسلم اقوام اپنی صفحوں کے اندر برادری و اخوت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کرپائے گی۔

اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے امت مسلمہ کے درمیان اتحاد واتفاق قائم کرنے کے مقصد سے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یوم ولادت کو اتحاد کے مظہر کے طور پر استعمال کیا اور 12 سے17 ربیع الاول کے دورانیے کو ہفتہ وحدت کا نام دیا۔ یہ ہفتہ، اسلامی دنیا میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر پہلے سے زیادہ توجہ دینے کے لیے بہترین موقع ہے۔ ایسے حالات میں جب امت اسلامیہ پر چاروں طرف سے اور مختلف شکلوں میں اسلام دشمن طاقتوں کی جانب سے یلغار ہو رہی ہے، نبی رحمت سے منسوب ان ایام کی افادیت، اہمیت اور برکت پہلے سے زیادہ نمایاں ہوتی دکھاتی دیتی ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی ہفتہ وحدت اور ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جشن میلاد النبی کی تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔

اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراو اور تنازعے سے گریزہے۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔ مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانے والے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔

مسلمان فرقوں کے مابین نظریاتی طور پر بعض جزوی مسائل میں اختلاف ضرور ہے تاہم اللہ کی وحدانیت، آسمانی کتاب، پیغمبر اور قبلہ جیسے بنیادی مسائل میں وہ اشتراک نظر رکھتے ہیں۔ اسی طرح اہم عبادتوں جیسے نماز، روزہ، حج و زکوة میں بھی سبھی فرزندان اسلام متفق ہیں اور انہیں بنیادی مسائل و مناسک کی بنیاد پر نبی رحمت کے اسم مبارک کے سائے میں امت اسلامیہ متفق ہو کر ایک پلیٹ فارم پر با آسانی اکٹھا ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں کو یکجا کرنے کے لئے جن جن اقدامات کی ضرورت ہے ان میں سے ایک بہترین قدم خود رسول اللہ کی ذاتِ اقدس ہے۔ چونکہ ذات رسول پوری امت مسلمہ کے درمیان نکتہ اتحاد ہے۔ عشق رسول تمام امت کے حصوں کو آپس میں جوڑنے کا ذریعہ ہے، اس کے نتیجے میں یقیناً دلوں سے کدورتیں دور ہو جائیں گی۔

جب مسلمان ایک دوسرے کی تقریبات میں شریک ہوں گے، ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں گے، ذات اقدس نبی مکرم اسلام کے حوالے سے ایک دوسرے کا نکتہ نظر سنیں گے اور ایک دوسرے کی محافل میں شریک ہو کر عشق رسول میں سرشار معاشرہ تشکیل دینے کی جدوجہد کریں گے تو یقین جانیئے کہ اس کے نتیجہ میں محبتیں بڑھیں گی، الفتیں بڑھیں گی، ایک دوسرے کے ساتھ تعلق مضبوط ہو گا، کینے، نفرتیں، دوریاں ختم ہوں گی اور وہ جو عیار اور چالاک دشمن ہے اس کی ریشہ دوانیوں کو روکنے میں بھی بہت بڑی مدد حاصل ہو گی۔ امت مسلمہ کے درمیان اتفاق و اتحاد کی فضا قائم کرنے کے حوالے سے سب سے اہم ترین یہ ہے کہ تمام فرقے مل کر اپنے مشترکات کی بنیاد پر ساتھ میں جئیں اور جو ان کے امتیازی مسائل ہیں ان میں ایک دوسرے کو نہ چھیڑیں۔

اپنے عقائد و نظریات پر قائم رہتے ہوئے امت کو اکٹھا کرنے اور امت کے مختلف طبقات کے ساتھ مشترکہ اور پرامن زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھیں۔ اس صورت میں مسلمان ایک بہت بڑی طاقت کے ساتھ عالم کفر، عالم استعمار اور مغربی استکبار کے وجود کے لیے بہت بڑا خطرہ بھی بنتے ہیں۔ اس لئے لبرل ڈیموکریسی ہو یا مغربی تہذیب سب کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو آپس کے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی بنیاد پر ہمیشہ باہم الجھائے رکھا جائے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر مشترکہ دشمن کے مقابلے میں اکٹھے نہ ہو سکیں۔ دشمن کی ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ہمارے معاشرے کے اندر موجود وہ ضعیف اور کمزور طبقات بھی ایندھن کا کام دیتے ہیں جن کا مسئلہ نظریہ، عقیدہ، قرآن اور اسلام نہیں بلکہ پیٹ کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔

ذرا تصورکریں کہ اگرعالم اسلام متحد ہو جائے تو دنیا کی تصویر کیا ہو گی؟۔ کم از کم 56 مسلمان ممالک اگر اکٹھے ہوں تو دنیا کی معیشت ان کے ہاتھوں میں ہو گی، دنیا کا تعلیمی نظام ان کے ہاتھوں میں ہو گا۔ دنیا کے سب سے عظیم اور بڑے ذخائر انہی ممالک کے پاس ہیں۔ ان کی اگر مشترکہ فوج ہو گی، مشترکہ طاقت ہو گی، مشترکہ نظام بنے گا تو اس کے مقابلے میں مشرق و مغرب سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ پوری دنیا کے اندر مسلمانوں کی عزت نفس بحال ہو جائے گی۔ کوئی مسلمان کہیں پر بھی ظلم کا نشانہ نہیں بنے گا۔ عالم اسلام پوری دنیا میں اور گلوبلی طور پر ایک انتہائی بڑی طاقت بن جائے گی جس کو ہم’سپر پاور‘ کہہ سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کے تمام معاملات چونکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے اس لئے یہ کسی کے محتاج نہیں ہوں گے۔

بہرحال یہ وہ عظیم تصور ، عظیم خواب ہے جس کی عملی تعبیر ممکن ہے ناممکن نہیں ہے۔ اگرچہ ہم عقیدے کے اعتبار سے مہدی آخرالزمان کے ظہور کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا پر ان کی حکومت ہو گی لہذا جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے ہم اس قرآنی حقیقت کے قریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ شعور کی بلندی کے نتیجے میں، آگہی کے نتیجے میں، بیداری کے نتیجے میں اور اتحاد و وحدت اور یکجہتی کے نتیجے میں وہ دن آئے گا جب عالمِ اسلام ایک بدن، ایک پیکر بن جائے گا اور پھر اس کے ثمرات دنیا کے ہر مظلوم انسان تک پہنچیں گے ۔ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی نے اپنی زندگی میں جتنے بھی کارنامے انجام دئے ہیں ان میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے ان کا نظریہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔

مغربی ایشیا میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان ملک دشمن عناصر اور بیرونی طاقتوں کے خلاف اتحاد، وحدت اور یکجہتی کے ثمرات ہمارے سامنے ہیں۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ جب شیعہ اور سنی شام میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو داعش کو بھی شکست دیتے ہیں اور داعش کے جنم داتا کو بھی بے نقاب کردیتے ہیں، عراق کے اندر بھی ہم نے دیکھا کہ اگر شیعہ و سنی دوسرے لفظوں میں’کلمہ گو مسلمان‘ متحد ہو جاتے ہیں تو امریکہ ہزیمت ، ذلت اور پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور عراقی ملت کو اپنی عزت نفس کی بحالی کا موقع ملتا ہے۔ فلسطین اور لبنان میں بھی جب شیعہ اور سنی مل جاتے ہیں تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے مقابلے میں بڑی آسانی کے ساتھ کم قربانیاں دے کر زیادہ فوائد اور مفادات حاصل کر پاتے ہیں۔

اسی نہج پر مشرق وسطیٰ میں، مغربی ایشیا میں یہ تجربہ برصغیر کے لئے بھی اور دیگر سرزمینوں کے لئے بھی انتہائی اہم ہے کہ ہم مسالک کے درمیان اتحاد و اخوت و بھائی چارے کی فضا اگر قائم کرنے میں کامیاب ہوں تو دشمن کی بڑی سے بڑی سازش کا مقابلہ بھی ہم بآسانی کر پائیں گے۔ ورنہ آپس کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کے باعث ہم اسلام کی اس عالمگیر مصلحت اور بڑے مفادات سے ہمیشہ محروم رہیں گے اور یہی استکبار اور مغربی طاقتوں کی اور آج کی دنیا کے طاغوتوں کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ لہذا امام خمینیؒ کے پیغام کے ذیل میں اگر مسلمانان عالم خصوصاً مشرق وسطیٰ میں مسلم اقوام اپنی صفحوں کے اندر برادری و اخوت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کرپائے گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .