۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
انڈونیشیا

حوزہ/ رواداری ہماری طاقت بن سکتی ہے۔ علمائے کرام اور دیگر مذاہب کے رہنماؤں کے درمیان جاری مکالمہ بین المذاہب امن کی ثقافت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان اور انڈونیشا، دونوں ممالک تہذیب میں بہت یکسانیت ہے۔ دونوں ممالک میں اسلامی مدارس اور علما کا ہر دور میں بہت بڑا رول رہا ہے۔ ان تاثرات کا خیال قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے کیا۔ وہ راجدھانی کے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں منعقد ہندوستان اور انڈونیشیا کی بین الامذاہب کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے سب سے پہلے انڈونیشیا میں آئے زلزلے کی تباہی پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں انڈوشیا کے وزیر محمود ایم ڈی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے جکارتا میں ہماری دعوت قبول کی اور اپنے ایک بڑے وفد کے ساتھ اس کانفرنس میں شرکت کی۔

اجیت ڈوبھال نے مزید کہا کہ یہ کانفرنس ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں ہو رہی ہے۔جو کہ خود دنیا کے لیے کثیرالامذاہب اور کثیر التہذیب کا نمونہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور انڈونیشیا کے رشتے نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی، مذہبی اور روحانی بھی ہیں۔ ہندوستانی سیاحوں کے لیے انڈونیشیا کے قدیم مندر توجہ کے مرکز رہے ہیں تو انڈونیشیا کے سیاحوں کے لیے یہاں کا تاج محل پرکشش کا باعث ہے۔ سیاحت نے ہمیشہ دو ملکوں میں پل کا کام کیا ہے۔

بین المذاہب کانفرنس:مذاہب سے دنیا کے بڑے مسائل حل ہوسکتے ہیں، انڈونیشیا کے وزیر مملکت محمود ایم ڈی

اجیت ڈوبھال نے مزید کہا کہ انڈونیشیا دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی والا اسلامی ملک ہے۔ جب کہ ہندوستان میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی بستی ہے۔آج ہم اس کانفرنس میں خواہ الگ الگ زبانوں میں بات کریں گے مگر ہم سب کا مقصد امن ہی ہے۔ مذہبی رواداری اور برداشت کا پیغام دینا ہی ہمارا مقصد ہے۔ چوں کہ ہم دونوں ملک دہشت گردی اور علاحدگی پسندی کا شکار رہے ہیں۔ اس کانفرنس کا مقصد بھی ہمیں مذہب کا اصل پیغام پہنچانا ہی ہے۔ جو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں آج اس ڈائیلاگ کو منعقد کرنے کے لیے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر جناب سراج الدین قریشی کی بھی تعریف کرنا چاہوں گا۔

عالیشان، انڈونیشیا ہندوستان کے پھیلے ہوئے پڑوس میں ایک اہم پارٹنر ہے اور ہمارے دونوں ممالک بہت سی تکمیلات میں شریک ہیں۔ ہمارے درمیان 14ویں صدی تک 1600 سالوں سے وسیع اور وسیع ثقافتی، اقتصادی اور روحانی روابط رہے ہیں۔ ان رابطوں نے ہمیں کشادگی، مشغولیت اور تنوع کے احترام کی قدر ظاہر کی۔ ساتویں صدی میں، ہندوستان کا مالابار ساحل عرب اور انڈونیشیائی تاجروں کے لیے ملاقات کا مقام بن گیا جہاں سے انھوں نے اسلام کو جنوب مشرقی ایشیا میں منتقل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ انڈونیشیا کے جاویوں کا کالی کٹ میں تجارت پر بہت اثر تھا۔ جزیرہ نما ہندوستان اور انڈونیشیا کی ابتدائی مسلم بستیوں میں بھی مماثلت پائی گئی ہے۔ چولوں نے بھی ہندوستان اور انڈونیشیا کے درمیان تجارتی اور ثقافتی روابط کھولے تھے۔

ہم دونوں ہند بحرالکاہل کے خطے میں ترقی پذیر جمہوریتیں ہیں۔ پانی جو انڈونیشیا کے ساحلوں کو گود میں لے جاتا ہے وہ ہمارے ساحلوں کو بھی گود لے جاتا ہے۔ ہمارے درمیان تاریخی اور ثقافتی روابط ہیں اور عوام سے عوام کے وسیع روابط ہیں۔ سیاحت ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا ایک اہم سفیر رہا ہے۔ وبائی مرض سے پہلے، ہر سال 5 لاکھ ہندوستانی بالی جاتے تھے۔ جبکہ تاج محل ہندوستان میں سیاحوں کی توجہ کا ایک بڑا مرکز ہے، انڈونیشیا میں لوگ پرمبنان جیسے ہندو مندروں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ ہماری رواداری اور ہم آہنگی کی ایک روشن مثال ہے۔

ہم دونوں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی آبادی کے گھر ہیں، انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اور ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسلم آبادی کا گھر ہے۔ ہندوستان کی طرح، انڈونیشیا میں اسلام موجودہ کیرالہ اور گجرات کے تاجروں اور بنگال اور کشمیر کے صوفیوں نے پھیلایا۔ یہ پرامن پھیلاؤ ایک ہم آہنگی کی ثقافت کی ترقی کا باعث بنا، جہاں نہ صرف قبل از اسلام مذاہب ساتھ ساتھ پروان چڑھے، بلکہ قدیم روایات اور مقامی رسوم و رواج نے مذہبی رسومات کو بہت متاثر کیا۔ آج، اس ہال میں، ہم مختلف زبانیں بول سکتے ہیں، لیکن ہم ایک مشترک ہیں۔

انڈونیشیا کے وفد نے کیا کہا

انڈونیشیا کے وزیر مملکت محمود ایم ڈی نے اپنے خطبہ میں سب سے پہلے اجیت ڈوبھال کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس کانفرنس کے لیے انہیں جکارتا میں مدعو کیا تھا۔

انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ مذاہب سے دنیا کے بڑے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ رواداری ہماری طاقت بن سکتی ہیں۔ انڈونشیا میں پانچ سو جزیزے ہیں اور ایک ہزار سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ملک کے معاشرے کا جمہوریت رواداری اور اتحاد پر مکمل یقین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری قدیم تہذیب آج بھی محفوظ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ علما نے انڈونیشیا میں آزادی کی لڑائی سے لے کر اب تک بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سرکاری سطح سے لے کر مذہبی سطح تک علما نے بہت مدد کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنے تجربات کو آپس میں شیر کریں۔ جو کہ مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو استحکام بخشے گا۔

اس موقع پرانڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے صدر سراج قریشی نے بین المذاہب کانفرنس میں اپنے استقبالیہ تقریر میں ہندوستان اور انڈونیشیا کے باہمی رشتوں اور تہذیب پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس دور میں اس رشتے کو مزید مضبوط کرنے کا زور دیا اور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈو بھال کا اس کوشش میں مدد کرنے کا شکریہ ادا کیا-

ہندوستان اور انڈونیشیا کے درمیان بین المذاہب کانفرنس اس قدیم اور گہرے رشتے کی ایک کڑی ہے جس میں دونوں ممالک علما کے ساتھ امن کی راہ کو مزید ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ ہندوستان اور انڈونیشیا کے رہن سہن ، کھان پان اور کلچر میں کافی یکسانیت ہے ۔ یہی وجہ ہے دونوں ممالک ایک دوسرے کے کافی قریب ہیں۔ مسلم ملک ہونے کے باوجود انڈونیشیا میں آج بھی سنسکرت زبان استعمال ہے اور وہاں کے ہوائی اڈوں، سڑکوں یہاں تک کہ گھروں میں آج بھی مورتیاں نصب ہیں ، جن کے تقدس، عظمت اور احترام کو وہاں کے عوام نے آج بھی برقرار رکھا ہے۔

طویل اور تفصیلی مذاکرہ

آپ کو بتا دیں کہ بین المذاہب کانفرنس میں تین اہم سیشنز ہیں۔ اس میں پہلے سیشن میں اسلام: تسلسل اور تبدیلی کے موضوع پر گفتگو ہوگی۔ اس میں اسلام کے تاریخی اور ثقافتی حوالوں اور پرامن بقائے باہمی سے متعلق اسلام کی تعلیمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔

دوسرے سیشن میں بین المذاہب معاشرے میں فرقہ واریت کو اپنانے اور اس کا تجربہ کرنے کے موضوع پر بحث ہوگی۔یہ ہندوستانی اسلام کی جامع جڑوں اور اس کی روایات پر بحث کرے گا۔ اس کے ساتھ انڈونیشیا کا وفد اس سیشن میں اس طرح کے جامع تجربات کا اشتراک کرے گا۔

تیسرے سیشن میں ہندوستان اور انڈونیشیا میں بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے موضوع پر بات کی جائے گی۔ آج کے بڑھتے ہوئے مذہبی جنون میں، غلط معلومات اور پروپیگنڈے کو ختم کرنا، انتہا پسندی کو کم کرنے کے لیے مشترکہ بیانیہ تیار کرنا، تعلیم کا کردار اور انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .