۱۵ آبان ۱۴۰۳ |۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 5, 2024
هند - نواب

حوزہ / ادیان اور مذاہب کی یونیورسٹی کے بانی اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر حجت الاسلام والمسلمین سید ابوالحسن نواب نے ہندوستان میں "رہبرانِ ادیان کی پرامن بقائے باہمی اور مذہبی سماجی ذمہ داری" کے عنوان سے ایک علمی نشست میں شرکت کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، ادیان اور مذاہب کی یونیورسٹی کے بانی اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر حجت الاسلام والمسلمین سید ابوالحسن نواب نے ہندوستان میں "رہبرانِ ادیان کی پرامن بقائے باہمی اور مذہبی سماجی ذمہ داری" کے عنوان سے ایک علمی نشست میں شرکت کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ نشست جمہوریہ اسلامی ایران کے ثقافتی قونصل خانے کی کوششوں اور ہندوستان میں رہبر معظم انقلاب کے دفتر کے تعاون سے منعقد ہوئی، جس میں حجت الاسلام والمسلمین سید ابوالحسن نواب نے خطاب کیا اور ایران اور ہندوستان کے علماء اور یونیورسٹی کے اساتذہ نے اس نشست میں شرکت کی۔

حجت الاسلام والمسلمین سید ابوالحسن نواب نے کہا: دین کا سبق انسانوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لیے ہے اور دنیا کے سماجی و سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے گفت و شنید اور مذاکرات کے علاوہ کوئی اور حل نہیں کیونکہ تاریخ میں جنگ نے کبھی بھی کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔

ایرانی ثقافتی قونصلر ڈاکٹر فرید الدین فریدعصر نے اپنے خطاب کے دوران کہا: تمام ادیان میں ایک نمایاں اور مشترک پہلو ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کرنا ہے۔ دینی تعلیمات کے مطابق، خدا نے اپنے انبیاء کو اختلافات کو ختم کرنے اور ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے مبعوث کیا۔

انہوں نے مزید کہا: حقیقی ادیان کے پیروکار کبھی خونریزی، جھگڑے اور اختلافات کے خواہاں نہیں رہے، بلکہ یہ ہمیشہ طغیان گر اور مفاد پرست ہوتے ہیں جو دین کے نام پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ مختلف ادیان کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے کے لیے ایسے بین المذاہب مکالمات ضروری ہیں۔

حجت الاسلام والمسلمین مہدی مہدوی پور نے بھی اس نشست کے موضوع کی اہمیت اور اس کے اسٹریٹجک پہلو پر تاکید کرتے ہوئے کہا: مختلف ادیان کے رہنماؤں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں امن اور دوستی کو فروغ دیں تاکہ لوگ اطمینان اور سکون کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ پرامن زندگی گزار سکیں۔

لکھنؤ کے ہندو رہنما سوامی سارنگ نے کہا: آج دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ دین اور سیاست کو یہودی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ دین فطری طور پر کسی سے جنگ کرنے کا خواہاں نہیں ہے۔ چونکہ تمام ادیان محبت اور ہم آہنگی پیدا کرنے پر تاکید کرتے ہیں، اس لیے مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ متحد ہو کر معاشرے کی صحیح رہنمائی کریں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .