۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
حضرت آیت الله مظاهری

حوزہ/ ہم محرم الحرام کی مناسبت سے حضرت آیۃ اللہ العظمی حسین مظاہری کی گفتگو کا خلاصہ حوزہ نیوز ایجنسی کے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

تحریر:آیۃ اللہ العظمی مظاہری
ترجمہ و ترتیب: ضامن علی

حوزہ نیوز ایجنسی। امام حسین(ع)کی اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ(ع)کے مکتبِ شہادت، مکمل طور پر ایک اخلاقی مکتب ہے۔

بِسْمِ اَللّٰهِ اَلرَّحْمٰنِ اَلرَّحِیمِ

رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَ یَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِی یَفْقَهُوا قَوْلِی‌، «اللَّهَ یُزَکِّی مَنْ یَشَاءُ» [1]
خدا نے ہمیں مکتب حسینی کے نام سے ایک معلم اخلاق عطا کیا ہے۔آپ(ع) نے جب مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو اسی وقت سمجھا دیا کہ میرا قیام شہادت کے لئے ہے۔میری شہادت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے ہے ، میری شہادت اس لئے ہے کیونکہ دین اسلام خطرے میں پڑ گیا ہے اور میں تیار ہو گیا ہوں تاکہ دین اسلام کو نجات دوں لہذا اس سلسلے میں دین اسلام پر اپنا سب کچھ قربان کردوں گا اور فرماتے تھے کہ«أَلَا تَرَوْنَ أَنَ‌ الْحَقَ‌ لَا یُعْمَلُ‌ بِهِ‌ وَأَنَّ الْبَاطِلَ لَا یُتَنَاهَی عَنْهُ لِیَرْغَبِ الْمُؤْمِنُ فِی لِقَاءِ اللَّهِ مُحِقّا» [2]
کیا نہیں دیکھتے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل کو روکا نہیں جا رہا۔یزید جیسا عالم اسلام کا حاکم بنا ہے۔ایسے میں مومن کو چاہیے کہ جام شہادت نوش کریں «لِیَرْغَبَ الْمُؤْمِنُ فِی لِقَاءِ اللَّهِ مُحِقّا».
امام ہم سے فرما رہے ہیں کہ سب کچھ دین اسلام پر قربان کریں اگر دین اور دنیا کے مال و متاع کا معاملہ پیش آئے تو مال و دولت کو دین پر قربان کرنا چاہئے،جان اور دین کا معاملہ ہو تو دین پر جان کو قربان کرنا چاہئے اور یہاں تک کہ دین اور بیوی بچوں کا تقابل ہو تو بیوی بچوں کو دین پر قربان کرنا چاہئے۔محمد بن حنفیہ نے عراق جانے سے امام علیہ السلام کو روکا تو آپ(ع)نے فرمایا:«فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ شَاءَ أَنْ یَرَاکَ قَتِیلا»؛مجھےجانا ہوگا ، اس لئے کہ خدا فرماتا ہے جاؤ اور شہید ہو جاؤ تاکہ میرا دین بچ جائے۔محمد بن حنفیہ نے کہا کہ بچوں کو رکھ کر جائیں۔فرمایا:«إِنَّ اللَّهَ قَدْ شَاءَ أَنْ یَرَاهُنَ‌ سَبَایَا»[3]؛بچوں کو اسیر ہونا ہیں۔دین کو میرے اور میرے اصحاب کے خون کی ضرورت ہے،میری زینب(س)اور اہل بیت کی اسارت کی ضرورت ہے۔یہ آپ علیہ السلام کی تحریک کا جامع پیغام ہے جسے آپ نے مدینہ سے شہادت تک لوگوں تک پہنچایا۔
ہمیں اپنی بساط کے مطابق دین خدا کی مدد کرنی چاہئے ، یہ مکتب ہمیں دین خدا کی مدد کرنے پر تاکید کرتا ہے۔جان لیں کہ خدا کے دین پر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے ہم اس جملے سے ایک اور مطلب نکال سکتے ہیں کہ خدا کو دین اسلام اتنا عزیز ہے کہ جس پر حسین(ع)اور زینب کبری(س)کو قربان کیا جا سکتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام خدا کی محبوب ترین مخلوق میں سے ہیں۔پیغمبر اسلام(ص)نے کئی بار فرمایا:اگر کوئی خدا کی محبوب ترین مخلوق کو دیکھنا چاہتا ہے تو میرے حسین(ع)کو دیکھے۔[4] لیکن یہی حسین(ع)جسے خدا بے پناہ محبت کرتا ہے اور اہل بیت علیہم السلام کے درمیان بہت ہی معزز ہستی ہیں ، دین خدا پر قربان ہو جاتے ہیں یعنی خدا چاہتا ہے کہ جب حسین(ع)اور دین کا تقابل ہو جائے تو میرا حسین علیہ السلام میرے دین پر قربان ہو جائیں۔حقیقتاً اہل و عیال کی اسیری بہت مشکل کام ہے اور وہ بھی زینب کبری(س) جیسی ہستیوں کی اسیری ہو اور وہ بھی ابن زیاد اور یزید جیسوں کے قیدی بن کر جائیں لیکن خدا راضی ہے اس لئے کہ دین زندہ رہے۔ہمیں ان ایام میں اس مکتب سے جن چیزوں کو لینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ امام حسین(ع) اور مکتب عاشورا ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اگر دین اسلام اور دیگر امور مثلا جان،مال اور اہل و عیال کا تقابل ہو تو دین اسلام کو مقدم کیا جائے،یہ قربانی اور ایثار ہے۔

اس عظیم مکتب کا ایک اہم پیغام شہادت کے علاوہ قربانی، عفو درگزر اور ایثار ہے لہذا ہمیں جوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قربانی،عفو درگزر اور ایثار کو معاشرے میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔عفو درگزر کبھی دشمن کے مقابلے میں ہے اور کبھی عفو در گزر،ایثار اور قربانی دوست کے مقابلے میں ہے۔کبھی عفو در گزر،ایثار اور قربانی دین کے مقابلے میں ہے لہذا ان تمام مراحل میں انسان کو جوانمردی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔کبھی ہمیں بیٹھ کر سوچنا چاہئے کہ امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے تاکہ خدا کا دین زندہ رہے لہذا مجھے متدین ہونا چاہئے۔یہ مکتب ہمیں دین دیتا ہے ، یہ مکتب ہمیں ایک مضبوط دین دیتا ہے ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
جذبۂ غیرت ہمیں کہتا ہے کہ بیوی بچے سب پر مقدم ہوں لیکن امام حسین علیہ السلام دین کی سربلندی کے لئے تیار ہو گئے کہ اہل و عیال در بدر ہوں لہٰذا مجھے اپنا سب کچھ دین پر قربان کرنا چاہئے۔امام حسین علیہ السلام نے قربانی کے اعلیٰ درجے کا مظاہرہ کیا کم سے کم مجھے دیندار ہونا چاہئے یہ مکتب ہمیں جوانمردی،عفو درگزر،ایثار،قربانی،دین کی اہمیت اور دین کو دوسری تمام چیزوں پر مقدم کرنا سیکھا دیتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:«أَلَا وَ إِنَّ الدَّعِیَّ ابْنَ الدَّعِیِّ قَدْ رَکَزَ بَیْنَ اثْنَتَیْنِ بَیْنَ السَّلَّةِ وَ الذِّلَّةِ وَ هَیْهَاتَ‌ مِنَّا الذِّلَّةُ» [5].
ہمیں سب کچھ امام حسین علیہ السلام سے لینے کی ضرورت ہے۔امام پر رونا اچھا عمل ہے لیکن رونے سے اہم عمل اس مکتب سے کچھ سیکھنا ہے۔مکتب امام حسین یعنی مکتب اخلاق ہے۔یہ اخلاقی مکتب ہمیں عفو در گزر،ایثار،قربانی اور وفاداری کا درس دیتا ہے ، اگر امام کو دوست رکھتے ہیں تو جس طرح امام نے اپنے خدا سے وفاداری کا ثبوت پیش کیا ہمیں بھی امام کے ساتھ وفا کرنا ہو گی اور یہاں پر وفا کا مطلب یہ ہے کہ کہ دین ہمارے گھروں اور اجتماعی زندگیوں میں زندہ ہو۔سب جانتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نماز کے لئے شہید ہو گئے ہیں لہذا ہم سب کو نماز،خدمت خلق،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے دین کے اہم احکامات کو معاشرے میں زندہ کرنے کی کوشش کرنی  چاہئے۔
امام علیہ السلام کی زیارات میں بھی بہت سارے دروس ہیں ، «أَشْهَدُ أَنَّکَ‌ قَدْ أَقَمْتَ‌ الصَّلَاةَ وَ آتَیْتَ الزَّکَاةَ وَ أَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ»[6]؛یہ مکتب حسینی یعنی امام حسین علیہ السلام دین کے لئے آئے ہیں اور دین یعنی نماز اور خدا کے ساتھ رابطہ،دین یعنی لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور خدمت خلق،دین یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کو معاشرے میں زندہ کرنا۔ان زیارتوں میں یہ جملہ بہت زیادہ تکرار ہوا ہے:«أَشْهَدُ أَنَّکَ‌ قَدْ أَقَمْتَ‌ الصَّلَاةَ وَ آتَیْتَ الزَّکَاةَ وَ أَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ».لہٰذا واجب اور ضروری ہے کہ مکتب حسینی کو زندہ رکھنا اور ہم نے کہا کہ یہ امام حسین علیہ السلام کی خصوصیات ہیں۔
امام باقر اور امام صادق علیہم السلام کو جب موقع ملا تو ہمیں ایک ثقافتی مکتب عطا فرمایا اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے ہمیں نہج البلاغۃ جیسی عظیم کتاب عطا فرمائی لیکن امام حسین علیہ السلام نے ہمیں ایک عملی ثقافت عطا فرمایا اور یہ عملی ثقافت،علمی ثقافت سے بہت ہی عظیم اور اہم ثقافت ہے۔امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہمیں علمی ثقافت یعنی نہج البلاغۃ عطا کرتے ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام ہمیں ایک عملی ثقافت دیتے ہیں یعنی ہم امام کے لئے روئے اس لئے کہ آپ علیہ السلام دین کو زندہ رکھنے کی خاطر شہید ہوئے ہیں اور ہم بھی اپنی توانائی کے مطابق دین اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے کوشش کریں۔

و صلّی الله علی محمّد و آل محمّد
حوالہ جات:

[۱]. نور، ۲۱.

[۲]. تحف العقول، ص ۲۴۵.

[۳]. اللهوف، ص ۶۵.

[۴]. ر. ک: روضة الواعظین، ج ۱، ص ۱۶۵.

[۵]. اللهوف، ص ۹۷؛ اثبات الوصیه، ص ۱۶۶؛ الاحتجاج، ج ۲، ص ۳۰۰؛ شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج ۳، ص ۲۴۹.

[۶]. الکافی، ج ۴، ص ۵۷۴.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .