۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 371298
12 اگست 2021 - 18:58
واقعہ کربلا کے تربیتی پہـلو

حوزہ/ حق کے دفاع کے لیے اپنے خون کے آخری قطرے تک میدان میں حاضر رہنا اور ہر طرح کی سازش کا مقابلہ کرنا مولا حسین (ع) نے اپنے والدین سے سیکھا تھا۔ جسے کربلا کے میدان میں اپنے لہو کے ساتھ عملی جامہ پہنایا۔

از قلم: ایچ رضوی

حوزہ نیوز ایجنسی واقعہ کربلا کا ہر پہلو اپنی جگہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ان میں سے ایک تربیتی پہلو ہے جسے بالعموم فراموش کردیا گیا ہے یا کم بیان کیا جاتاہےجو کہ ایک وسیع موضوع ہے۔ ہم قارئین کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوۓ انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کریں گے تاکہ تحریر طول اور خستگی کا باعث نہ بنے۔
سیدنا امام حسین (ع) کے ساتھیوں نے ہردور کے انسانوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر تربیت ،   الہی اصولوں پر ہو تو تیروں ،تلواروں اور نیزوں کی زبان کو خون کی بوند سے کاٹا جا سکتاہے۔وہ کون سے قوانین تھے جن پر کاربند ہوکراس الہی کاروان کے افراد نے ایک ظالم حکمران کے مظالم کو تاریخی صفحات میں دفن کر دیا ؟  صدیاں گزرنے کے باوجود بھی یہ لوگ کروڑوں دلوں کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں۔درحقیقت اس قافلے کے سردار کی تربیت ہمارے پیارے نبی (ص) نے فرمائی تھی اور یہ پھول گلشن جناب زہرا (س) میں کھلا تھا جس کی مہک سے سارا جہاں معطر ہے۔
بچوں کی تربیت کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اصول ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

دینی تربیت
بچوں کی دینی تربیت پر خاص توجہ دینی چاہیے اسلامی نقطہ نظر سے بچہ تین سال کی عمر میں لفظ اللہ اور کلمہ لاالہ الا اللہ سے آشنا ہو۔تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ بچپن ہی سے دختر پیغمبر(س) نے بچوں کو شب قدر جیسے مفہوم سے روشناس کروادیا تھا۔ شب قدر کی آمادگی کےلیے جناب زہرا (س) بچوں کو دن میں سلا دیتیں اور مناسب غذا کھلاتیں تاکہ جسمانی اور روحانی طور پر بچے رات کو بیدار رہ سکیں۔ جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ  تربیتی شرائط اور ماحول کا فراہم کرنا بچے کی رشد کے لیے انتہائی موثر ہے۔ ہمارے نبی کے گھرانے کی تربیت کا اثر تھا کہ دین خدا کے دفاع کے لیے اولاد علی (ع)نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ 

محبت
اہل بیت  علیہم  السلام کے افراد کے درمیان جو چیز واضح نظر آتی ہے وہ ان کی آپس میں محبت ہے۔ امام حسین (ع) کے اہل خانہ نے آخری دم تک آپ کا ساتھ دیا  اور آپ کو کسی موڑ پر بھی تنہا نہیں چھوڑا۔ حضرت فاطمہ (س)  کو اپنے بچوں سے اس قدر محبت تھی کہ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوۓ وصیت کی کہ اے علی  (ع) میرے بعد میرے بچوں سے خوش رفتاری اور محبت سے پیش آنا۔ امام حسین  (ع) نے اپنے نانا رسول (ص) ،بابا علی (ع)  اور ماں زہرا  (س) کے محبت بھرے آنگن میں تربیت پائی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ صرف بنی ہاشم سے ہی نہیں بلکہ اپنے تمام اصحاب کے ساتھ محبت بھرے انداز سے پیش آتے تھے۔ عاشور کے دن جب سیدالشہدا  (ع) مقتل کی طرف جانے لگے تو آپکی چھوٹی بیٹی بی بی سکینہ  (س) نے ایک خواہش کا اظہار کیا کہ بابا مجھے اپنی گود میں لے کر نوازش کیجیے۔ مولا حسین گھوڑے سے اترے بیٹی کو پیار کیا اور تسلی دی۔ کربلا ہمیں زندگی کے مشکل ترین حالات میں بھی بچوں کے ساتھ شفیقانہ رویہ اپنانے کا درس دیتی ہے۔

حق کے دفاع میں شجاعت کا مظاہرہ
حق کے دفاع کے لیے اپنے خون کے آخری قطرے تک میدان میں حاضر رہنا اور ہر طرح کی سازش کا مقابلہ کرنا مولا حسین (ع) نے اپنے والدین سے سیکھا تھا۔ جسے کربلا کے میدان میں اپنے لہو کے ساتھ عملی جامہ پہنایا۔امام حسین  (ع) کے ساتھیوں کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ تھی کہ حق کہنے ،حق سننے اور حق پر عمل پیرا ہونے میں بے باک اور بے مثل تھے۔ کربلا میں جب حضرت عباس  (ع) کو امان نامہ پیش کیا گیا تو آپ نے امان نامہ لانے والے کوبڑی جرأت سے دندان شکن جواب دیتے ہوۓ فرمایا خدا لعنت کرے تجھ پر اور اس امان نامے پر  ، ہمارے لیے خدا کافی ہے۔ صراط مستقیم پر ڈٹے رہنے کی تربیت مولا عباس  (ع) نے اپنے بابا سے ورثے میں پائی تھی۔ 

حلال غذا
غذا انسان کے جسم اور روح دونوں پراثر انداز ہوتی ہے۔ اسلام میں رزق حلال کی کافی تاکید کی گئی ہے۔ ہمارے پیارے نبی  (ص) نے حرام غذا سے دور رہنے کا حکم فرمایا ہے۔خاندان اہل بیت  (ع) نے اپنے بچوں کی اس طرح  تربیت کی تھی جو درحقیقت ہمارے لیے نمونہ عمل ہے ۔ ایک واقعہ عرض کرتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہو جاۓ گا۔  عاشورا کے بعد جب اسیروں کا قافلہ کوفہ پہنچا تو کوفہ والوں نے اسیر بچوں کو صدقے میں روٹیاں اور کھجوریں دیں اور کہا کہ ہمارے بچوں کےلیے دعاکرنا وہ تمہاری طرح قیدی نہ ہوں۔ دختر علی جناب کلثوم (س)  نے بچوں سے وہ روٹیاں اور کھجوریں واپس لیں اور کوفہ والوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہم آل رسول علیہم السلام  ہیں ہم پرصدقہ حرام ہے۔ 
اگر شکم میں لقمہ حرام ہو تو حسین  (ع) جیسے نواسہ رسول کی بات بھی اثر انداز نہیں ہوتی۔ اپنے وقت کے امام کی نصرت کا پیش خیمہ بننے والی چیزوں میں سے ایک حلال غذا ہے۔ 

مشکلات کا سامنا کرنے کی جرأت
وہ انسان جن کا بچپن مشکلات اور سختیوں میں گزرا ہو عموما حوصلے والے اور صابر ہوتے ہیں۔ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام  نے دشمنوں کے مظالم اور اپنوں کے نفاق کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا۔ امام حسین  (ع) ابھی کمسن ہی تھے کہ رسول خدا  (ص) کی شفقت کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ کچھ عرصہ بعد ہی ماں بھی دار فانی کو الوداع کہہ گئیں۔ بابا علی (ع)  اور بھائی حسن (ع)  کا جنازہ کاندھوں پر اٹھایا۔ غرض چشمِ حسین (ع)  نے غموں کے پہاڑ دیکھے لیکن انتہائی جرأت، شہامت اور استقامت کے ساتھ ان کا سامنا کیا۔ اورکیوں نہ کرتے؟! آخر کس گھر میں پروان چڑھے تھے ؟!

خداوند عالم کی بارگاہ میں دعاہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں  روحِ کربلا کو سمجھنے اور اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم دنیا و آخرت کی زندگی میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں ۔آمین 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .