۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
News ID: 365186
18 جنوری 2021 - 15:51
ایام فاطمیه

حوزہ/ بی بی نے دنیا سے جاتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں اپنے بچوں کو روتا ہوا دیکھ کر کچھ اِس طرح تسلی دی۔

تحریر: مولانا سید علی امیر رضوی

حوزہ نیوز ایجنسی | بی بی نے دنیا سے جاتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں اپنے بچوں کو روتا ہوا دیکھ کر کچھ اِس طرح تسلی دی۔

میرے پیاروں!گریہ نہ کرو، ابھی سے نہ گریہ کرو کیونکہ میرے بعد ابھی تمہیں بہت رونا ہے، میری زینب!تم تو خود کو اور زیادہ سنبھالو کیونکہ تمہیں تو ابھی اپنے بابا کا زخمی سر کوفہ میں دیکھنا ہے، اسی مدینہ میں اپنے بھائی حسن ؑکے جنازہ پر تیر اور جنازہ سے رِستہ ہوا خون دیکھنا ہے اور مصیبتوں کی منزل یہیں پر ختم نہیں ہوگی بلکہ تمہیں تو کربلا میں اپنے بھیا حسین ؑکو قتلگاہ میں اس حالت میں دیکھنا ہے کہ شمر ملعون سینہ پر سوار ہوکر سر و تن میں جدائی کر رہا ہو گا۔ 

اور اے میرے لال حسین ؑ!یہ تو ابھی مصیبت کا آغاز ہے، مصائب تو تمہاری زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں میرے لال!تمہاری مصیبت تو ایسی ہوگی کہ تاریخ میں اسکی مثال نہ ملے گی۔ 

میرے لال حسین ؑ!ابھی مت رو، یہ بہت جلدی ہے تمہارے رونے کے لئے، تم تو کشتہ ئگریہ ہو، تم تو وہ ہو جسے رُلا رُلا کر شہید کیا جائے گا۔ 

اے حسین! ؑکائنات تم پر روئے گی، سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے تم پر گریہ کریں گے۔ انبیاء و مرسلین سب نے تم پر گریہ کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ فرشتے تمہاری صف ماتم بچھائیں گے۔

آؤ میرے قدموں سے اپنا سر اٹھا کر میرے سینہ سے لگ جا ؤکیونکہ یہ سینہ اب تمہیں نہ ملے گا۔ لیکن میرے لال!گریہ نہ کرو، تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے رونے سے فرشتے غم زدہ ہو جاتے ہیں، تمہارے رونے سے تمہارے نانا رسول خداؐ کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ 

بیٹا!یہ میرے لئے مصیبت نہیں ہے بلکہ اب تو میری خوشی کا لمحہ ہے کہ غم دنیا سے نجات پا رہی ہوں۔ غم تو میری زندگی کا لازمی حصہ بن چکے تھے، میں ابھی گہوارہ میں ہی تھی کہ میرے گھر ان تازہ مسلمانوں کا آنا جانا شروع ہو گیا جنہیں تکلیفیں دی جاتی تھیں۔ 

کبھی عمار یاسر کی ماں سمیہّ کی شہادت کی خبر آتی تھی تو کبھی یاسرکے بارے میں خبر ملتی تھی کہ انہیں مکہ کے مشرکوں نے جلتے ہوئے صحرا میں ایک پتھر پر لٹا دیا ہے اور ان کے ہاتھ پیر باندھ کر انہیں تکلیف دے رہے ہیں تاکہ توحید کو چھوڑ دیں اور اُن کے قدموں میں جھک جائیں۔ 

کسی دن بلال کی خبر آتی تھی تو کبھی خود عمار کی۔ اللہ رحمت نازل کرے روح حضرت ابو طالب ؑپر اور جناب حمزہ پر کہ اگر یہ دونوں حامی نہ ہوتے تو اس صحرا میں پتھر کے نیچے شاید میرے بابا کا نازنیں جسم ہوتا۔ 

بیٹا!آ ؤآج تمہیں اپنی زندگی کے بارے میں مزید بتاتی ہوں۔ میں ابھی شیرخوار تھی کہ میرے بابا کے لئے سختیاں بڑھ گئیں۔ مشرکین مکہ نے اس ہستی پر زمین تنگ کر دی جس کے وجودکے طفیل میں زمین بنی ہے۔ انہوں نے ہمیں شعب ابوطالب ؑمیں جانے پر مجبور کر دیا۔ 

میں نے اسی شعب ابوطالب ؑکی ریگزار پر چلنا سیکھا تھا۔ میں دیکھتی تھی کہ اس گرم ریت پر چلنے سے میرے پاؤں میں جو آبلے پڑتے تھے اس سے زیادہ تکلیف دینے والے وہ دِل کے آبلے تھے جو اِن حالات کو دیکھ کر میرے بابا کے قلب نازنیں میں پڑتے تھے۔ 

کوئی صحابی آکر کہتا تھا: مجھے پانی چاہئیے، میرے بابا اس کے سامنے شرم سے سر جھکا لیتے تھے اور اپنے دہن مبارک کو کھول کر اپنے دانتوں کے درمیان رکھا ہوا پتھر اسے دکھا دیتے تھے تاکہ اسے معلوم ہو سکے کہ رسول خدا ؐ بھی خود کتنے پیاسے ہیں۔ 

کوئی پیٹ کے بل میرے بابا کے پاس چل کر آتا تھا اور انہیں سلام کرکے یہ اظہار کرتا تھا کہ بھوک انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ اور میرے بابا اس کی تعریف کرتے تھے حالانکہ اسے بھی نزدیک آکر معلوم ہوتا تھا کہ میرے بابا نے بھی بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے۔ اور ان سب سے زیادہ جس نےسختیاں برداشت کی ہیں وہ میری ماں تھیں۔ کیونکہ میری ماں عرب کی ملکہ تھیں، انہیں سارے زمانہ والے مال و دولت کی وجہ سے پہچانتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھوک کا مزہ نہیں چکا تھا حالانکہ محبوب کی راہ میں بھوکا رہنا ہزاروں لذیذغذاؤں سے بھی زیادہ لذت بخش ہوتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میری ماں نے اسلام کو صرف اپنا مال دیا ہے، نہیں!انہوں نے اسلام کے لئے اپنی جان بھی دی ہے اور مال بھی قربان کیا ہے۔ 

تمہیں معلوم ہے کہ یہی مٹھی بھر خرمے جن سے ایک انسان کا بھی پیٹ نہیں بھرتا اسے چالیس لوگوں کے دہن میں رکھ کر انہیں زندگی اور موت کے درمیان روکے رکھا جاتا تھا۔ 

شعب ابو طالب ؑکا دور تو مسلمانوں کی قوت برداشت ختم ہونے سے پہلے ختم ہو گیا لیکن اس کے اثرات زندگی بھر باقی رہے۔ خاص کر اس کی تلخ یادوں کے اثرات میرے بابا کے نرم دل پر آخری سانسوں تک باقی رہے۔ 

یہ سخت بار اس وقت تک اٹھانا آسان تھا جب تک میری ماں خدیجہ زندہ تھیں۔ جب بھی پیغمبرؐ  گھر کے اندر قدم رکھتے تھے تو خدیجہ کی ہمدردی اور دلداری ان کے ہر بوجھ کو ہلکا کر دیا کرتی تھی اسی لئے میرے بابا اپنی وفات تک ہمیشہ انہیں یاد کرتے رہے اورہمیشہ ان کے فراق میں گریہ کرتے رہتے تھے۔ 

ماں کے انتقال کی خبر میرے لئے بڑی سخت تھی خاص طور پر یہ کہ شعب ابو طالب ؑکے زخم ابھی بھرے نہیں تھے اور میرے بابا کی تنہائی کا غم ابھی کم نہیں ہوا تھا۔ 

جب میں نے گھر میں اپنی ماں کو نہیں پایا تو گھبرا کر اپنے بابا سے سوال کیا کہ میری ماں کہاں ہیں؟! 

میرے بابا غم کی حالت میں مجھے دیکھ رہے تھے اور خاموش تھے، شاید انہیں وہ الفاظ نہیں مل پا رہے تھے جن کے ذریعہ مجھے میری ماں کے گزر جانے کی خبر سناتے۔ 

حضرت جبرئیل اس وقت نازل ہوئے اور میرے بابا کو اللہ کی طرف سے کچھ اس طرح پیغام سنایا: اللہ سبحانہ و تعالی آپ کو تحفہ ئدرود وسلام بھیجنے کے بعد فرماتا ہے کہ میرا سلام فاطمہ کو پہنچا دیجئے اور اس سے کہئے گا کہ تمہاری ماں کو میں نے جنت کے محلوں میں سے ایک محل میں رکھا ہے جو سونے کا بنا ہے اور اس پر یاقوت جڑے ہوئے ہیں اور مریم بنت عمران اور آسیہ کو ان کے ساتھ رکھا ہے۔ 

بیٹا! جب مجھے اللہ کا یہ پیغام ملا تو دل کو سکون حاصل ہوا۔ میں نے اللہ کی تعریف وتمجید کی اور کہا کہ سلام اور سلامتی اسی کی طرف سے ہے۔ 

اللہ کے کلام سے مجھے تسلی تو مل گئی لیکن ان حادثات کی بھٹی میں جناب خدیجہ کا فراق میرے اور میرے بابا کے لئے قابل برداشت نہ تھا۔ 

اب میری ماں کی غیر موجودگی میں پیغمبر ؐکے اوپر لگنے والے زخم تو وہی تھے لیکن ان پر مرہم لگانے والا کوئی نہ تھا۔ ایسے موقع پر میں اگر صرف ایک بیٹی کا کردار نبھاتی تو میرے بابا کی تنہائی کا بوجھ کبھی ہلکا نہ ہو پاتاچونکہ ان سختیوں میں میرے بابا کو ایک ماں کی ضرورت تھی، وہ ماں جو ہمیشہ پروانہ کی طرح ان کے شمع وجودکے چاروں طرف گردش کرتی رہے اور ایثار و محبت کے پروں سے ان کے اشکوں کو صاف کرے۔ 

میں نے کوشش کی کہ کائنات کی سب سے محبوب مخلوق یعنی اپنے بابا کی ماں کا کردار ادا کروں اور میں اس میں کامیاب بھی رہی۔ میرے بابا نے مجھے ماں کے طور پر قبول کر لیا اور مجھے ”ام ابیہا“ کا لقب دیا۔ 

یہ سب سے اچھا لقب تھا جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے مجھے ملا تھا۔ حالانکہ اس لقب کو حاصل کرنے کے پیچھے خون دل چھپا ہوا ہے۔ کوئی بھی میرے دل کے زخموں کی گہرائی کو نہیں سمجھ سکتا جب میں اپنے بابا کو دیکھتی تھی کہ پریشان حال، زخموں سے چور گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے تھے اور میں ان کے زخموں کو صاف کرتی تھی اور انکی تیمار داری کرتی تھی۔ 

وہ پتھر ان کے جسم پر نہیں لگتے تھے بلکہ میرے سینہ اور جگر پر لگتے تھے اور زخم اُن کے جسم پر نہیں ہوتے تھے بلکہ میرے دل پر ہوتے تھے۔ اِس فرق کے ساتھ کی اُن کادل پیغمبر ؐکا تھا عظیم اور مضبوط اور میرا دل فاطمہ کا تھا بیحد نازک اور لطیف۔

میرے پیارے بچوں!بعد میں حالات اتنے سخت ہو گئے کہ اللہ نے اپنے حبیب کوہجرت کا حکم دیا۔ وہ لوگ جو سورج سے دشمنی کریں ان کا حق ہے کہ شب کی تاریکی ان کا مقدر بن جائے۔ وہ لوگ جو سورج کی سمت پتھر پھینکیں وہ تاریکیوں کے ہی لائق ہیں۔ 

سورج تو طلوع کرتا ہی ہے۔ کالے بادل اگر مشرق میں چھپے ہوں تو خورشید متین انداز میں آہستہ آہستہ ان کے کنارے سے گزر کر دنیا والوں کو روشنی دے کر اپنے وجود سے اجالا کر ہی دیتا ہے۔ 

نبیؐ رات میں مکہ سے ہجرت کرنے والے تھے جس وقت چالیس کافر ان کاگھر گھیرے ہوئے تھے اور چالیس خون آشام تلواریں اس لمحے کا انتظار کر رہی تھیں کہ نبیؐ کے خون کو اپنے درمیان برابر سے تقسیم کر لیں تاکہ بعد میں بنی ہاشم رسول ؐ کے خون کا بدلہ نہ لے سکیں۔ 

اس وقت پیغمبر ؐکو ایک قربانی دینے والے کی ضرورت تھی جسے وہ اپنی جگہ سلا دیں اور کفار کو ان کے ارادہ میں ناکام بنا دیں۔ ایسی قربانی کا جذبہ رکھنے والا شخص تمہارے بابا علی ؑکے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ جب نبی ؐنے ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ میرا انجام کیا ہو گا؟ 

بس اتنا پوچھا کہ کیا آپ کی جگہ میرے سو جانے سے آپ کی جان بچ جائے گی؟ 

نبی ؐنے جواب میں فرمایا: ہاں، میرے چچا کے بیٹے۔ 

اور اس وقت کہ جب ہمارے دل بے چینی سے سینہ میں نہیں ٹھہرتے تھے تو علی ؑرسول خداؐ کے بستر پر اپنی زندگی کی سب سے پر سکون نیند سو رہے تھے اور اس طرح انہوں نے قرآن کی ایک اور آیت کو اپنے کارنامہ میں درج کرا لیا۔اور وہ مقام حاصل کیا جس پر اللہ ان کی وجہ سے اپنے فرشتوں پر فخر کر رہا تھا۔ 

آیت نازل ہوئی کہ”لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کو خدا کی مرضی کے عوض بیچ دیتے ہیں اور اللہ بندوں پر مہربان ہے“ 

اے میرے پیارے بچوں!میرے جگر کے ٹکڑوں!تمہارے بابا علی ؑ، رسولؐ کے بستر پر سو رہے تھے اور میرے بابا عموسلمان کے دوش پر سوار ہوکر دل کے اندھے کافروں کے سامنے سے گزر رہے تھے لیکن وہ سمجھ نہیں پائے۔ انہوں نے سلمان سے پوچھا کہ تمہارے دوش پر کیا ہے؟ 

ہمیشہ سچ بولنے والے سلمان نے بغیر جھجھک بتایا: رسول خداؐ، وہ اس پر ہنس پڑے اور یہ نہیں سمجھ سکے کہ یہ سچ ہے۔ 

وہ نبی ؐ کے بستر پر حملہ آور ہوئے، انہیں جو چاہئیے تھا وہ بستر پر موجود تھا لیکن ان کی سمجھ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی تھی۔ انہیں رسولؐ کی جان چاہئیے تھی اور نفس و جان رسولؐ، علی ؑان کے بستر پر سو رہے تھے لیکن مادیات میں کھوئے ہوئے وہ ظالم صرف جسم نبی ؐ کو پہچانتے تھے، نفس و جان نبی ؐ کی معرفت ہی نہیں رکھتے تھے اور اگر اتنی ہی معرفت ان کے پاس ہوتی تو رسول ؐ کے خون کے پیاسے ہی کیوں ہوتے؟! 

پیغمبر ؐ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے لیکن مدینہ میں داخل نہیں ہوئے اور وہاں کے مومنین نے جس قدر بھی اصرار کیا ان کے جواب میں بس ایک جملہ ارشاد فرمایا: میں مدینہ میں اپنے دو عزیزوں علی ؑو فاطمہ کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا اور وہاں سے آپ ؐ نے علی ؑکو پیغام بھیجا کہ فاطمات کے ساتھ مدینہ آ جاؤ، میں تمہارے استقبال کے لئے منتظر ہوں۔ 

علی ؑنے پیغام ملتے ہی فوراً مجھے، اپنی ماں جناب فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر ابن عبدالمطلب کو اپنے ساتھ لیا اور کچھ دوسری خواتین اور ضعیفوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ بناکر مدینہ کے لئے روانہ ہو گئے۔ 

راستہ میں کئی مشکلیں آئیں، ابو سفیان کے غلام اسود اور اس کے بعد خود ابو سفیان نے ہمارا راستہ روکا لیکن ہمارے ساتھ مشکل کشا تھے، اس لئے ساری مشکلوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں بخیر وعافیت مدینہ پہنچا دیا۔ 

مدینہ پہنچنے کے بعدشروعات کے دنوں میں بہ نسبت مکہ کے کچھ سکون کا ماحول تھا، مدینہ کے انصار مومن اور مہربان تھے اور مہاجرین صابر تھے۔ 

مدینہ کی اسی پر سکون فضا نے موقع فراہم کیا کہ تمہارے والد نے میرے بابا سے میرا ہاتھ مانگا۔ 

بس میرے پیارو ں، اب اس سے زیادہ کچھ بتانے کی تاب اور ہمت نہیں ہے۔

اٹھو میرے بچو ں!اپنے غموں کو پی جاؤ، آنسوؤں کو پوچھ لو اور اپنے بابا کو تسلی دینا۔

میں نے تمہارے بابا سے پہلے ہی اپنی وصیتیں کر دی ہیں کہ میرے جنازہ کو رات میں غسل وکفن دینا، رات میں اسے اٹھانا اور شب کی تاریکی میں دفن کرنا اور ان میں سے کسی کو میری شہادت کی خبر نہ دینا جنہوں نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے اور میرا حق غصب کیا ہے۔ 

ہاں دوستوں! بی بی کی شہادت کے وقت مولا علی ؑمسجد میں تھے، امام حسن ؑاور امام حسینؑ مسجد میں دوڑتے ہوئے آئے اور ماں کی شہادت کی خبر مولا کو سنائی۔ مولا اس غم انگیز خبر کو سن کر اس قدر نا توا ں ہو گئے کہ زمین پر غش کھا کر گر پڑے، آپؑ کے رخ مبارک پر پانی چھڑکا گیا، جب ہوش میں آئے تو اس طرح اپنا درد دل بیان کر رہے تھے۔

اے فاطمہ!اے جلوہئ خدا، اے یادگار رسولؐ، آپ کے بعد کس سے تسلی حاصل کروں، جب تک آپ زندہ تھیں تو اپنی مصیبت میں آپ کے ذریعہ تسلی مل جاتی تھی، آپ کے بعد میرے دِل کو کیسے قرار آئے؟! 

اے بنت مصطفی ؐ!دو دوست ہمیشہ ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اور ہر جدائی کی مصیبت کم ہوتی ہے لیکن رسول خدا ؐ کے بعد آپ کا فراق اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی دوست ہمیشہ ساتھ نہیں رہے گا۔ 

عاشقان حضرت زہرا(س)! مولا نے شب کی تاریکی میں بی بی کو خود غسل دیا اور اسماء سے فرمایا کہ پانی ڈالو۔ اپنے بچوں سے فرمایا کہ آہستہ گریہ کرنا تاکہ مدینہ والوں کو تمہاری ماں کی شہادت کی خبر نہ ہونے پائے اوربی بی کی وصیت پر عمل ہو سکے۔ بچے اپنی آستینوں کو منہ میں دبائے ہوئے رو رہے تھے کہ اسی اثناء میں فاتح خیبر نے چیخ مار کر گریہ کیا۔ اسماء نے مولا سے سوال کیا: آپ نے تو بچوں کو بلند آواز سے رونے کے لئے منع کیا تھا اور اب آپ خود چیخ مار کر گریہ فرما رہے ہیں۔

مولا نے جواب دیا: اے اسماء تمہیں نہیں معلوم، کچھ غم ایسے ہیں جو فاطمہ زندگی بھر مجھ سے چھپائے رہیں، جن کا اندازہ ابھی غسل دیتے وقت مجھے ہوا ہے۔ 

غسل و کفن دینے کے بعدمولا علی ؑنے اپنے بچوں کو ان کی ماں کے آخری دیدارکے لئے اس طرح آواز دی۔اے زینب وام کلثوم، اے حسن ؑ وحسین ؑ، آؤ اپنی ماں کا آخری دیدار کر لو۔ 

کچھ روایات کے مطابق امام حسن ؑاور امام حسین ؑدونوں اپنی ماں کے قریب آئے اور آہ و زاری کر رہے تھے۔ 

امام حسین ؑ نے اس طرح بین کئے:اے اماں!جب آپ ہمارے نانا رسول خداؐ کی خدمت میں پہنچئے گاتو انہیں ہمارا سلام کہئے گا اور ان سے ہماری طرف سے کہئے گا کہ ان کے بعد ہم دنیا میں یتیم ہو گئے۔ 

روایت کے مطابق حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:میں اللہ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ اس وقت فاطمہ نے ایک آہ سرد بھری، بند کفن ٹوٹے اور اپنے ہاتھوں کو پھیلاکر اپنے بیٹو ں کو اپنے سینہ سے لگا لیا۔ اچانک ایک ہاتف غیبی کی آواز آئی۔ 

اے ابوا لحسن ؑ!ان دونوں کو ان کی ماں سے الگ کر دیجئے۔ ان کے گریہ نے آسمان کے فرشتوں کو بے تاب کردیا ہے۔ 

قارئین کرام!شب کے آخری حصہ میں حضرت علی ؑنے حسنین ؑ، جناب عمار یاسر، جناب مقداد، جناب عقیل، جناب ابوذر، جناب سلمان فارسی اور بنی ہاشم کے کچھ خاص افراد کے ساتھ عالم غربت وبے بسی میں رسول خداؐ کی اکلوتی چہیتی بیٹی کا جنازہ اٹھایا۔ جنازہ پر نماز پڑھ کر اسے کسی طرح سپرد لحد کر دیا۔ لیکن اس کے بعد حضرت علی ؑکے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا، مصیبتوں کا پہاڑ ان کے دل پر گر پڑا اور اشکوں کا سیلاب آنکھوں سے جاری ہو گیا۔ اس کے بعد قبررسول ؐ کی طرف رخ کرکے آواز دی:سلام ہو آپ پر، اے اللہ کے رسولؐ، میری طرف سے اور آپ کی اس بیٹی کی طرف سے جو ابھی آپ کے جوار میں آئی ہے اور بہت جلد آپ سے مل گئی ہے۔ اے رسول خداؐ! آپ کی پاک اور منتخب بیٹی کے فراق میں میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور میری طاقت جواب دے گئی ہے۔اب میرا غم دائمی ہو گیا ہے اور اب میری راتوں کی نیند ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .