۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
تین منٹ قیامت میں

حوزہ/ اب میں یہ بات سمجھ چکا تھا کہ جب تک میرے پاس وقت اور فرصت ہے، مجھے رضائے پروردگار کے لئے  امورِ زندگی انجام دینا ہوں گے اور اپنی موت کی دعا نہیں مانگنی چاہیے۔جب میرا وقت آئے گا تو حضرت عزرائیل علیہ السلام مجھے خود ہی لینے آجائیں گے۔

اصلاح،تدوین وتخریج: سائرہ نقوی

حوزہ نیوز ایجنسیچونکہ میرا تعلق ایک مذہبی گھرانہ سے تھا اس لئے میرا بچپن مسجد و مجالس میں گزرا۔میں بسیج کے ادارے کا ایک فعال رکن تھا۔ جب میں سکول کا طالبعلم تھا، ایران عراق جنگ کے ایام چل رہے تھے ۔اُن دنوں ہمارا بیشتر وقت مسجد میں گزرتا تھا۔ہم نےدفاعِ مقدس کے آخری سالوں میں بہت دعائیں اور گریہ کیاکہ کسی طرح جہاد میں شامل ہونا نصیب ہو۔آخرکاراللہ نےمجھے توفیق دی کہ مجاہدینِ اسلام کے ساتھ جنگ کے محاذ کی روحانی فضا کو محسوس کر سکوں۔ میں اس وقت اصفہان کے ایک چھوٹے شہر میں رہائش پذیر تھا۔محاذ کی روحانی فضا جنگ کےساتھ ہی ختم ہوگئی اور میں شہادت کی حسرت دل میں لئے واپس لوٹا،لیکن اس کے بعد میں نے اپنی تمام ہمت و محنت کو روحانی درجات کے حصول کے لئے قرار دیا۔میں جانتا تھا کہ شہداء،جہادِاصغر سے قبل جہادِاکبر میں کامیاب ہوتے ہیں۔لہذا جوانی میں میری پوری کوشش رہی کہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔مسجد جاتے ہوئے رستے میں نظریں جھکائے رکھتا مبادا کسی نامحرم پر نظر پڑے۔
میں عمر کی سترہ بہاریں دیکھ چکا تھا۔ ایک شب خلوت میں خداسے رازونیاز کے دوران بہت رویا اور گڑگڑایا کہ پروردگار! تو مجھے اِس دنیا کے گناہوں اور آلودگیوں سے محفوظ رکھ اور جلد اپنے پاس بلالے۔میں نہیں چاہتا کہ گناہ میرے وجود کو آلودہ کر یں ؛ مجھے ڈر ہے کہیں معمولاتِ زندگی سے غیرضروری وابستگی میری عاقبت کی خرابی کا سبب بن جائے۔ میں نے حضرت عزرائیل علیہ السلام سے درخواست کی کہ وہ میری روح قبض کرنے جلد آجائیں۔
چند دن بعد میں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر کچھ افراد کو مشہد مقدس کی زیارت پر لے جانے کا پروگرام بنایا۔ کافی تردد کے بعد سفر کے انتظامات مکمل ہوئے اور جمعرات کے دن بعد از ظہرروانگی کا وقت طے پایا۔ بدھ کادن گزرا اور میں تھکا ہارا گھرلوٹا تو حسبِ معمول عزرائیلؑ کو یاد کیااور اپنی موت کی دعا مانگی۔اپنی کمسِنی اور ذہنی ناپختگی کی وجہ سے میں اِس دعا کو اپنے حق میں بہتر سمجھتا رہا ، یہ جانے بغیر کہ اہلِ بیت علیہم السلام نےخدا سے ایسا کبھی نہیں چاہا، بلکہ وہ دنیا کو آخرت کی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے ایک پُل سمجھتے تھے، جس سے گزرنا ضروری تھا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے جلد ہی میری آنکھ لگ گئی۔ رات کے آخری پہر اٹھا اور تہجد پڑھ کر دوبارہ سو گیا۔اسی عالم میں دیکھتا ہوں کہ ایک انتہائی خوبصورت جوان میرے سرہانے کھڑا ہے؛اُس کی ہیبت و خوبصورتی نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں بےاختیاراُٹھااور ادب سے اُسے سلام کیا۔جوان نے مجھے مخاطب کیا اور پوچھا کہ مجھے اُس سے کیا کام ہےاورکیوں میں اسےباربار طلب کرتا ہوں جب کہ میری باری ابھی نہیں آئی تھی۔یہ بات سنتے ہی میں سمجھ گیا کہ وہ جوان عزرائیلؑ ہیں۔میں ڈر سا گیا اور سوچنے لگا کہ اگر عزرائیلؑ اتنے حسین و جمیل ہیں تو لوگ اُن سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟اتنے میں عزرائیلؑ جانے لگے تو میں نے دوبارہ ان سےالتجا کی کہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں، انہوں نے اشارے سے مجھے رکنے کو کہا؛میں اپنی جگہ واپس پلٹا اور زور سےزمین پر گرا ۔ گھڑی پر نظر پڑی تو دن کےبارہ بج رہے تھے۔ اسی اثنا میں میری آنکھ کھل گئی؛اردگرد غور سے دیکھا تو اندھیراتھا۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن جسم کی بائیں طرف شدید درد محسوس ہوا؛ خواب میں، میں اسی جانب گرا تھا۔اب نیند آنکھوں سے غائب تھی اور میں سوچتا رہا کہ کیا واقعی میری ملاقات عزرائیلؑ سے ہوئی تھی اور یہ کہ وہ کس قدر حسین تھے!!
صبح ہوتے ہی مشہد مقدس کے سفر کی فکر میں لگ گیا۔ عین اُس وقت کہ جب سب لوگ بس میں سوار ہو رہےتھے، پتہ چلا کہ دوستوں نے سپاہِ پاسداران سے سفر کا اجازت نامہ نہیں لیا۔میں نےبسیج کے بیس کیمپ سے موٹرسائیکل لی اور سپاہ کے دفتر روانہ ہوا۔واپسی میں ٹریفک سگنل پرکسی ٹیکسی ڈرائیورنے اچانک بائیں طرف سے میری موٹرسائیکل کوزوردار ٹکر ماری؛ میں ٹیکسی کے بونٹ اور چھت سے ٹکراتا ہوازمین پر جا گرا۔میرے جسم کے بائیں حصہ میں درد کی لہر اٹھی۔ٹیکسی ڈرائیور تیزی سے میری جانب بڑھا۔وہ کانپ رہا تھا؛ شاید وہ سمجھا کہ میں مرچکا ہوں۔مجھے بھی یہی محسوس ہوا کہ اب میرا آخری وقت قریب ہے اور جناب عزرائیلؑ یہاں سے گزرے ہیں۔میں نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی تو ٹھیک بارہ بج رہے تھے، جسم کے بائیں حصہ میں شدیددرد ہو رہا تھا۔ یہ گزشتہ رات والے خواب جیسی صورتحال تھی۔میں نے سوچا کہ میں بچ جاؤں گا کیونکہ خواب میں حضرت عزرائیلؑ نے مجھ سےکہا تھا کہ ابھی میرے جانےکا وقت نہیں آیا۔اچانک مجھے خیال آیا کہ امام علی رضا علیہ السلام کے زائرین میرے منتظر ہوں گے، میں جلدی سے کھڑاہوا ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے پوچھا:"آپ ٹھیک تو ہیں؟" میں سنی ان سنی کرتا ہوا موٹرسائیکل کی طرف لپکا۔وہ آوازیں دیتا رہا:"کیا تمہیں یقین ہے کہ تم ٹھیک ہو؟" اسے خوف تھا میں کہیں موٹرسائیکل چلاتے ہوئے گر نہ جا ؤں اس لئے وہ راستے میں میرے پیچھے پیچھے رہا۔ خدا کا شکر کہ کاروان مشہد کے لئے روانہ ہوگیا۔
حادثہ سےہونے والادرد دو ہفتے بعد ختم ہوا۔ اب میں یہ بات سمجھ چکا تھا کہ جب تک میرے پاس وقت اور فرصت ہے، مجھے رضائے پروردگار کے لئے امورِ زندگی انجام دینا ہوں گے اور اپنی موت کی دعا نہیں مانگنی چاہیے۔جب میرا وقت آئے گا تو حضرت عزرائیل علیہ السلام مجھے خود ہی لینے آجائیں گے؛لیکن میں ہمیشہ دعا کرتا تھا کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہو۔ اُن دنوں میری بھرپور کوشش تھی کہ میں اپنے دوستوں کی طرح سپاہ پاسداران انقلاب میں شامل ہو جاؤں۔ میرا عقیدہ تھا کہ سپاہ کی سبزوردی جیسا لباس امام زمان عجل اللہ فرج کے انصار زیب تن کریں گے۔چند سال بعد میری کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور مختلف تربیتی مراحل سے گزرنے کے بعدشمسی تاریخ کے مطابق١٣٧٠کی ابتدامیں سپاہ پاسداران انقلابی میں شامل ہوگیا۔یہاں یہ بتاناضروری سمجھتا ہوں کہ میں اپنے اعزا واحباب کے نزدیک ایک محنتی ،ذمہ دار اور خوش مزاح انسان ہوں اور کسی حد تک لوگوں کو بیوقوف بنانے کا فن بھی جانتا ہوں۔ میرے دوستوں کے مطابق میری صحبت میں کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا؛ اسی لئے تربیتی کیمپس ہوں یا جنگی مشقیں، میں جس خیمہ میں ہوتا وہاں سے ہنسنے کی آوازیں آتیں۔ کچھ عرصہ بعد میں نے شادی کرلی اور معمولاتِ زندگی میں مگن ہوگیا۔ دن دفتر میں اور رات کا وقت گھر والوں کےساتھ گزرتا؛ کچھ راتوں میں مسجد اور انجمن بھی چلا جاتا۔ یوں مجھے سپاہ پاسداران سے منسلک ہوئے اٹھارہ برس بیت گئے۔ ایک دن اعلان ہوا کہ جنگی آپریشن کے لئے آمادہ ہو جائیں۔

(جاری ہے)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .