۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
تصاویر/ محفل جمع خوانی قران کریم در مصلای شهرستان تکاب

حوزہ/ ماہ احساس و طاعت میں اگر حاصبان شعور کو رزق علم و آگہی نہ حاصل ہو تو اس حیات انسانی کا کیا فایدہ۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | رمضان کریم ماہ شعور ہے انسانی کرداراگر ماہ و سال کی گردو غبار سے زنگ آلود ہو جایے تو ماہ رمضاں اس پر صیقل کا کام کرتا ہے اور اس طرح اس ماہ کے چشمہ فیض سے مستفید ہو کر اہل ایمان ثروت احساس کے مالک بن جاتے ہیں انیس رمضان المبارک کی شب اور دس محرم کی شب ان دونوں شبوں میں دو افراد نے شب بیداری کی دونوں نے نفس کی جنگ لڑی دونوں کا نظریہ شمع امامت کو گل کرنے کا تھا دونوں حاکم شام کے اشارے پر سازشوں کے تار جوڑ رہے تھے تاریخ نے دونوں کے مابین تقریبا بیس سال کا فاصلہ لکھا ہے مگر فکرو نظر کے پیمانہ ایک ہیں سوچ ایک خیال ایک، ارادہ ایک، جس رخ سے آئیں ہیں وہ سلطنت ایک حکومت و اقتدار ایک۔

جبکہ سب سے بڑا جہاد نفس کا جہاد ہے اس سے بڑا کوئی جہاد نہیں کسی شاعر نے بہت خوبصورت بات کہی ہے؛

بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا

نفس امارہ اور نفس لوامہ کی یہ جنگ ہے جسکا میدان سرزمین قلب و نظر ہے اور اسکی فتح و شکست کا اظہار نگاہوں سے ہوتا ہے بصیرت و بصارت کا نقطہ ارتکازی اس نتیجہ کا ضامن ہوتا ہے مگر اس جنگ کی ہار میں شجرئہ نسب کی کار فرمائی بھی ہوتی ہے اور خصوصیت سے ماں کے دودھ کی تاثیر بھی ہوتی ہے شاید انتخاب زوجہ میں اسی لیے اچھی ماں کے تلاشنے کی بات روایات میں کہی گئی ہے دلیل یہ ہیکہ دونوں شب بیداری کرنے والوں کے نام اور انکی ماووں کا کردار تاریخ کے صفحات پر درج نہ بھی ہو تو بھی عصمت کے دہن سے نکلے ہویے جملہ سند حقیقت کے عکاس ہیں

جس وقت ابن ملجم نفس کی جنگ ہار گیا اور مسجد کوفہ میں امام وقت کے سر پر ضربت لگائی اس وقت امام ع نے فرمایا:

ایھا الناس لا یفوتکم ابن الیہودیہ

اے لوگوں دیکھو یہ یہودیہ کا بیٹا زنا زادہ بھاگنے نہ پایے

میرے۔ مولا کا سر دوبارہ ہے سر اقدس سے خون جاری ہے مگر دہن اقدس سے نکلے ہویے جملہ چشمہ فیض کرم ہے صفحہ تاریخ پر اک حقیقت رقم کر رہے ہیں کہ جب جب بھی مسجد میں نمازیوں پر حملہ ہوگا وہ ابناء یہود کی جانب سے ہوگا زنا زادوں کی جانب سے ہوگا اب دنیا کے جس جس ملک و مملکت میں یہ حملے مسجدوں پر ہو رہے ہیں وہ صرف وہی مجرم کر رہے ہیں جن کے شجرئہ شام کی کالی کوٹھڑیوں سے نکلے ہیں یہودیوں کے تلوے چاٹنے والی کعب الاحبار کی نسلیں جنھیں خلافتوں نے درباروں میں پروان چڑھایا آج انکی نسل کے لوگ بنی امیہ کے کشکول احساس کا خمیازہ ادا کر رہے ہیں یزید و معاویہ کا بتایا ہوا راستہ ہے جس پر خود کش حملہ کرنے والے چل پڑے ہیں اور انشاء االلہ انکا حشر و نشر بھی یزید و حاکم شام جیسا ہی ہوگا۔

مگر دوسری طرف جب جناب حر شام کے اندھیروں سے نکل کر صبح کربلا کے اجالوں میں آگیے اور آغوش شہادت سے ہم کنار ہوا چاہتے ہیں کہ حکیم کربلا نے حر کا سر اپنے زانو پر رکھا اور فرمایا:

کیا اچھا تیری ماں نے تیرا نام رکھا تھا تو دنیا میں بھی حر ہے اور آخرت میں بھی حر رہیگا* سوال یہ ہیکہ شہادت حر نے دی زخموں کی قبا بر دوش حر نے رکھی پر عصمت کے دہن سے تعریفی و توصیفی جملہ حر کی ماں کے لیے کیوں نکلے امام وقت اسی روشن فکر کی جانب رہنمائی فرما رہے تھے کی ماں اگر امانت دار ہے تو بیٹا خیانتکار نہیں ہو سکتا اور اگر ماں کے کردار میں لوچ ہے تو بیٹا بیعت معصوم ع کے بعد بھی نفس کی جنگ ہار کر جہنم کا مستحق ہو سکتا ہے۔

مگر چونکہ حر کی ماں نیک تھی اور باپ ایک تھا تو وہ نفس کی جنگ جیت گیا اور دنیا و آخرت میں فتح و ظفر کا مستحق قرار پایا لیکن ابن ملجم کی ماں خیانت کار تھی تو اسکا اثر یہ ہوا کہ وہ نفس کی جنگ ہار گیا اس مقام پر یہ کڑوی حقیقت بھی سمجھ لیں کی اپنی بیٹیوں کی تربیت پر خصوصیت سے توجہ دیں تاکہ یہی بیٹیاں آنے والی پاکیزہ نسلوں کی ضمانت ہیں اگر خدا ناخواستہ سوشل میڈیا نے انکی کردار کشی کردی تو مستقبل کی ساری شمعوں کی لو مدھم ہو جائیگی اور نسلوں کا یہ اندھیرا بہت مہنگا پڑیگا۔

رب قدیر بحق مولائے غدیر ہم سب کی عزتوں کی حفاظت فرمائے ظہور امام عج کے لیے پاکیزہ نسلوں کے انتخاب کی توفیق مرحمت فرمائے۔

جاری ..............

تبصرہ ارسال

You are replying to: .