تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی | بیت المقدس یا مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا پہلا قبلہ جہاں زمینی معراج کی انتہا ہوئی یہ فلسطین میں واقع ہے یہ ملک مسلمانوں کی ملکیت میں تھا آج سے تقریباً نصف صدی پہلے یہودی قوم یہاں پر تجارت کی غرض سے آئی اور دھیرے دھیرے اپنے پیر اس طرح پسارے کہ پورا ملک اپنے قبضہ میں لے لیا اور آج اسرائیل بظاھر ایک مملکت کے عنوان سے پوری دنیا میں اپنے دہشت گردانہ رویے سے معروف ہو چکا ہے۔ پوری دنیا میں فحاشی اور عریانیت کا ننگا ناچ ناچنے والے یہودی آتنک وادی اسوقت فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ظلم اپنے عفان پر ہے جبر نے صبر کے گریبان کو پھاڑنے کی بھر پور کوشش کی مگر سلام ہے ملت کے ان مجاہدین پر جنھوں نے صراط صبر پر استقامت کا مظاہرہ جاری رکھا، یہ اور بات ہیکہ اسکی پشت پناہی میں صحراے عرب میں اذان ولایت دینے والا ایک معتبر ترین مؤذن ایران ہے جس نے یہودیت کے صنم کدے میں رکھے ہویے سارے سازشوں اور سیاستوں کے بتوں کو توڑ دیا ہے آج پوری دنیا میں اگر اسراءیل کسی سے خوف زدہ اور لرزیدہ ہے تو وہ اسلامیہ جمہوریہ مملکت ایران ہے جس نے بے پناہ مصایب و آلام اٹھائے آج اپنے پیروں پر کھڑا ہے مقصود نظر ایران کی مدح و ستایش نہیں ہے مگر فلسطین کی ریڑھ کی ہڈی صرف ایران ہے۔
رہبر کبیر قاید انقلاب ہادی با بصیرت ملت جعفریہ کا ہونہار سپوت جسکے لبوں کی جنبش سے استعمار کی چولیں ہل جاتی تھیں سانسیں اکھڑنے لگتی تھیں جس پر یورپ کے بڑے بڑے اسکالرز اور علماء کا یہ خیال تھا کہ ہماری برسوں کی محنت کو تباہ و برباد کیا اس مرد درویش خشن لباس کی پوشاک میں ملبوس مخلص و مطمئن انسان نے جسکی پیشانی سے شجاعت و ہمت کے آبشارے رواں تھے جسکی آنکھوں میں جیت کی چمک جسکے قدموں میں دھمک اور جسکے زبان و بیان میں ایسی لچک کے سننے والا مدہوش ہو جائے، وہ روح اللہ امامخمینی طاب ثراہ جس نے اپنے ایک بیان سے اسرائیل کو قیامت تک کے لیے ذلیل و رسوا کردیا وہ یہ تھا کہ
ہر مسلمان کے لیے لازم ہیکہ ماہ صیام ماہ احساس کے آخری جمعہ میں، یعنی جمعہ الوداع میں بیت المقدس کی بازیابی کے لیے شدید ردعمل کرے احتجاجی جلسہ ہوں اور پر زور طور پر اپنی اپنی حکومتوں سے اسرائیل کے ناجائز قبضہ کو ہٹانے کی مانگ کی جائے۔
اس طرح امت کی بیداری، یک جہتی، بھاءی چارگی کا اعلان ہوگا اور ہر ملک و ملت، تک یہ احتجاجی پیغام مسلمانوں کے حوصلوں کا آئینہ دار ہوگا بیت المقدس کی آزادی کے لیے ایک اہم ترین راستہ ملت مسلمہ کا باھمی ارتباط و اتحاد ہے جب تک امت ایک جسم کی طرح نہ ہوگی کہ اگر ایک حصہ میں درد ہو تو پورے مملکت جسم میں بے چینی رہتی ہے بس اسی طرح اگر امت مسلمہ پوری دنیا میں متحد ہو جایے اور ایک دوسرے کے درد میں برابر کی شریک ہو جایے تو آج مسلمان نہ کمزور دیکھائی دیگا اور نہ ہی ذلیل و رسوا ہوگا مگر جو قوم اپنے خدا کے گھر پر غیروں کے قبضہ سے راضی ہو اور دشمنوں کے تلوے چاٹ رہی ہو وہ عرب ممالک جو اسرائیل اور امریکہ کی غلامی کا قلادہ اپنے گلے میں ابدی اور دائمی ذلت کےلیے ڈالے ہویے ہیں وہ کیوں یوم القدس پر احتجاج کریں گے احتجاج زندہ ضمیر لوگ زندہ قومیں اور زندہ ملتوں کا شعار ہے یہ احتجاج شجاعتوں کی عکاسی ہے ہمت و جوانمردی کا اعلان ہے یہ استقامت اور استقلال کا اظہاریہ ہے راہ صبر بہت کٹھن اور کڑوی ہے مگر نتایج بہت سہل اور شیریں بلکہ ثمر بخش ہیں گرچہ کبھی کبھی لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ اس احتجاج کا فایدہ کیا ہے جب نصف صدی میں بیت المقدس یہودیوں کے چنگل سے آزاد نہیں ہوا تو اب کیا ضرورت ہے۔
جوابا استعاراتا و کنایتا عرض ہے کہ ہماری ذمہ داری وظیفہ پر عمل ہے نتجہ کی ذمہداری قدرت پر منحصر ہے ہم سے نماز کی ادائیگی کا وظیفہ مطلوب ہے قبولیت کی سند قدرت کے ہاتھوں میں ہے وہ جب جائے گا کامیابی سے نوازے گا اور اب وہ وقت دور نہیں جب پرچم اسلام لہرا دے گا اور بیت المقدس میں ظلم و جور جبر و استبداد کا خاتمہ ہوگا۔
حالیہ سیاسی مناظر کچھ اور ہی تصویریں دکھا رہے ہیں۔ایران اور سعودیہ کے بڑھتے ہویے تعلقات سے امریکہ اور اسرائیل کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ اس وقت کی صورت حال مزید خطر ناک موڑ پر چلی گئی ہے مگر سلام ہے ان بہادر ویروں پر جو بھوک پیاس کے باوجود بھی اپنے عقیدہ کی تجارت نہیں کر رہے ہیں جن کے گھر مسمار ہوں چاروں طرف بارود کی مہک ہے مگر ایمان کی خوشبو غالب ہے ہر طرف لہو لہان روشنیاں ہیں ہر جانب جسموں کے بکھرے ہویے اجزاء و اعضاء انسانی ہیں ہر سمت میں دھواں دھواں ہے اور خاک کے ملبہ پر بیٹھے ہیں مگر لبوں پر حسبنا اللہ ونعم الوکیل کا قصیدہ ہے آنکھوں میں توکل کا کاجل ہے عزم و ثبات میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں قدموں کی دھمک سے معلوم ہوتا ہے نقش کف پایے کربلا نظر آچکی ہے پیمانہ صبر کو چھلکنے نہیں دیتے اضمحلال نے استقلال کے غرور کو توڑا نہیں ہے مصیبتوں نے انقلاب کے راہوں کو موڑا نہیں ہے یتیموں کی دلخراش چیخیں بھی ان کے حوصلوں کا مات نہیں دے سکی سب کچھ لٹا رہا ہے مگر قدس کی قداست کو بچانے والی قوم مکمل طور پر اپنے معنوی کردار کے بل بوتے پر کھڑی داد شجاعت لے رہی ہے عورتیں بیوگی کا لباس پہنیں ہیں مگر کہیں سے بھی دامن صبر کے چھوٹنے کی کوئی خبر نہیں ہے مگر افسوس ہے ڈیڑھ ارب امت مسلمہ روزہ تو رکھ رہی ہے مگر اس ماہ احساس میں انکا شعور بیدار نہیں ہو رہا ہے سب کچھ اپنی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے تماشہ دیکھ کر تماشائی بنا ہے مگر بازاروں کی گھما گہمی اسی طرح ہے خریدو فرخت اسی طرح جاری ہے جیسے دنیا میں کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے مسلمان کب تک سر پر قرآن رکھ کر عبادتوں اور اعمال میں مصروف ہوگا حرمت قرآن کب بچا ئیگا اسلام کی حقیقی تعلیمات کو کب بروئے کار لائیگا منزل عمل میں کب قدم زن ہوگا کب تک دعاؤوں کے اسلحے کو بغیر اخلاص عمل کے طلب کے کھاتے میں لکھواتا رہیگا آخر خواب خرگوش سے کب باہر آئیگا یہ غفلت آخر کب تک کیوں نبیوں کی سرزمین کی مسماری اس کے احساس کو ٹہوکے نہیں دیتی کیوں یتیموں اور بیواؤں کی دل سوز آوازیں اسکے کانوں میں صبح مساء پڑنے کے بعد بھی شعور و ضمیر بیدار نہیں ہوتا آج اگر امت کے جیالے اسی طرح مجرمانہ خاموشی کے ساتھ مصلحت کی چادر اوڑھے سو رہے تو روز محشر اسکا حساب بہر حال دینا ہوگا اور وہاں کا حساب بہت سخت ہوگا ماہ احساس میں اگر طاعت کے مکمل فریضہ کو انجام نہ دیا تو دنیا و آخرت میں سوائے خسارے اور نقصان کے کچھ نہ ملےگا۔
آئیں بارگاہ رب ذوالجلال والاکرام میں دست دعا بلند کریں کی مالک اس عید پر ہماری بہترین عیدی بیت المقدس کی آزادی کے روپ میں عطا کردے ہمارے چشم بینا میں امام عصر کے رخ انور کی زیارت کا کاجل لگا دے مالک اس ظلم و جور سے بھری دنیا کا واحد علاج سلطان عصر رواں کا ظہور پر نور ہے اس میں تعجیل فرما تاکہ مظلومین عالم کے زخموں کو مندمل کیا جا سکے عدل و انصاف کا بول بالا ہو پرچم اسلام کو بلندی نصیب ہو اور پرچم ظلم و نفاق سر نگوں ہو مالک اس ماہ رحمت و برکت میں ملت تشیع پر بالخصوص اور عالم انسانیت پر بالعموم رحم و کرم نازل فرما آمین یا ربّ العٰلمین۔