۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
جنت البقیع

حوزہ/ آج اگر دنیا میں مسلمان ذلت و رسوائی کا شکار ہے تو شاید اسکی ایک وجہ اپنے نبی ص کی ایکلوتی بیٹی پر ظلم و ستم ہے بقیع کی ویرانی کا عذاب بھی امت کی تقدیروں کے اضمحلال کا اعلان ہے گویا تعمیر بقیع استقلال امت کا پیش خیمہ معراج کا ارتقاء ہے سعادت و خوش بختی کا روشن راستہ ہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | ہر منصف مزاج مسلمان کے دل میں تعمیر بقیع کی تمناء کروٹیں بدل رہی ہے مگر فرزندان توحید ابناء الوقت بن کر چادر مصلحت اوڑھے ہویے ہیں یہ فرزندان مصلحت سیاست کے گلیاروں میں عقیدت فروش ہو کر حکومت آل سعود کے تلوے چاٹنے میں لگے ہویے ہیں گرچہ ضمیر فروشی کے یہ سجدے اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہویے مسلمان کے یہ باطل خیالات ،فرسودہ نظریات ،اور بنی امیہ کی سیاسی روش روز حساب بڑی مہنگی پڑیگی بقیع اہل اسلام کا قبلہ مودت ہے اور مرکز عشق و شغف ہے بقیع محور اتحاد ملت بھی ہے۔

اگر اس پر متفق نہ ہویے تو کبھی نہ ایک ہو سکو گے یہ سنہرا موقع ہے اہل خرد کے لیے کہ وہ شعور کی شاہراہوں پر اکھٹا ہو کر احتجاج بقیع میں شامل ہو جاءیں اور اپنے تمامتر گلے شکوہ آرزو حضرت ولی عصر عج *تعمیر بقیع* کے نام فراموشی کے نہاں خانوں میں سجادیں بھول جاءیں کہ ہمارا کوءی سیاسی ، سماجی ، فردی اجتماعی ، اداری یا کوءی اور اختلاف ہے سبھی ادارے ،مدرسے ،حوزات ،اسکول ،کالجیز ،یونیورسٹیز اور تمامتر تعلیمی اور سماجی ادارے سوسایٹیز ،اسمبلیز ،ٹرسٹ اور ہر طرح کی انجمنوں کی یہ ذمہ داری ہیکہ۔ اس صد سالہ احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی جانب سے ہر ممکنہ کوشش کریں گر ماہ احساس ماہ صیام ,ماہ انقلاب, ماہ رحمت و برکت و مغفرت میں بھی ویرانی بقیع کا احساس نہ ہوا تو امت کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے قدس کا تقدس اہل یہود نے پاءیمال کیا، بقیع کی قداست آل سعود نے مجروح کی دونوں کو سزایے موت سنانے کا وقت آن پہ نچا ہے اگر سچے مسلمان کی ضمیر کی عدالت کھلی ہوءی ہے تو تعمیر بقیع کم از کم صحابیت کا دم خم‌بھر نے والے یاران رسول ص کے متوالے ازواج مطہرات کے قدموں کی خاک کو سرمہ بنانے والے فرمان محمد ص پر جان لٹانے والے نبی رحمت کے غیرت دار کلمہ گو کہاں ہیں جو اصحاب و ازواج کی ویران قبروں کو دیکھنے کے بعد بھی لب غرور کو حرکت نہیں دیتے کیوں امت تماشہ بنی ہوءی ہے کب تک وہ آل سعود و یہود کی کٹپتلی بنی رہیگیکب امت رسول ص عقل و خرد کے دامن سے وابستہ ہوگی کب شعور کی شمعیں روشن ہونگی کب سیاہ راتوں اور سرخ صبحوں کا خاتمہ ہوگا کب بقیع کی اداسی مسرتوں کا لباس زیب تن کریگی کب تک گھٹاٹوپ اندھیروں میں امت کا شعور سوتا رہیگا کب تک مسلمان چشم عقیدت کو بند کیے رہےگا کب سچا شیدایی رسول ص خواب خرگوش سے بیدار ہوگا کب انقلابی مسلمان روز جمعہ کو نہضت بقیع سے منسوب کریگا آج اگر دنیا میں مسلمان ذلت و رسوائی کا شکار ہے تو شاید اسکی ایک وجہ اپنے نبی ص کی ایکلوتی بیٹی پر ظلم و ستم ہے بقیع کی ویرانی کا عذاب بھی امت کی تقدیروں کے اضمحلال کا اعلان ہے گویا تعمیر بقیع استقلال امت کا پیش خیمہ معراج کا ارتقاء ہے سعادت و خوش بختی کا روشن راستہ ہے۔

بس بصارت و بصیرت ،حکمت و داناءی سے اک نظر عقیدت بقیع بر ڈال لے ہماری پوری عمر گزر گءی سو سال انہدام کو گزر گءیے مطلب تین نسلیں اس دور میں پوری ہو گءیں مگر سب کی پیاسی نظریں خاموش ہو گءی پر سیرابی دیدار بقیع نہ ہو سکی۔

تین نسلیں تشنگی کے صحرا میں عرب کے ریگزاروں میں پنپنے والی آل سعود کے بنی امیہ صفت لوگ جگر خوارہ کی نسل کے بے غیرت کینہ توز آل سعود کی کارستانیوں سے پیاسی نگاہوں کو لیکر موت کی آغوش میں سو گییں۔ان مرحومین کی حسرتوں کے امین مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ بقیع کی تعمیر کے لیے بھرپور طریقہ سے کوشش کریں۔ دعا ہے بارگاہ رب ذوالجلال والاکرام میں کی تمام اہل ایمان کی تمناء تعمیر بقیع تکمیل کی منزل سے دوچار ہو۔

آمین یا رب العالمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .