۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
جنت البقیع

حوزہ/ اگر رمضان المبارک کا آخری جمعہ قدس کے لیے منتخب کیا گیا تو شوال کا پہلا جمعہ احتجاج بقیع کے لیے کیوں معین نہیں کیا گیا ؟یہ اعتراض نہیں ہے لمحہ فکریہ ہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری تاراگڑھ

حوزہ نیوز ایجنسی | آج سے چند برس پہلے جب میڈل ایسٹ یعنی مشرق وسطی میں کنگ ڈم سیستم ، شاہی نظام کے خلاف ایک تحریک چلی تھی جو ابتدایی طور پر خالص عوامی تھی مگر مظلومیت کے ساتھ اخلاص کی آواز بھی تھی جو مصر کے تحریر اسکوایر سے اٹھی تھی جسکے لب و لہجہ میں اتنا دم خم تھا کہ حسنی مبارک جیسے قدیمی بادشاہ جس نے اپنے پیر بڑی مضبوطی سے گاڑ رکھے تھے کو مصر چھوڑ کر بھاگنا پڑا اسی طرح لیبیا ، سے قذافی کو اور یمن سے زین العابدین کو بھاگنا پڑا اور اسی طرح بحرین ، اور بہت سی جگہ یہ تحریک چلی اور اسمیں بنیادی رول نماز جمعہ کی اداءیگی کے بعد وہ احتجاجی جوش و خروش تھا جو اہل وطن کے سینوں میں اپنے وطن کو لیکر ابل رہا تھا جسمیں ہر جمعہ کا الگ الگ نام رکھنا اور اسی مناسبت سے تحریک کی رفتار کو آگے بڑھانا اور کسی حد تک اس کا کامیاب ہونا بتا رہا ہے کی جمعہ کا دن احتجاج کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہے اور یہ فکری نقطہ امت اسلامیہ کو شاید امام خمینی طاب ثراہ نے دیا تھا جب آپ نے جمعة الوداع ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ قدس کی آزادی کے لیے قرار دیا اور صداے احتجاج بلند کرنے کی امت سے درخواست کی گءی جو آج بھی باشعور امت کے دل میں دھڑک رہی ہے۔

اسی مقام پر اک سوال ذہن میں گردش کرتا ہیکہ اگر رمضان المبارک کا آخری جمعہ قدس کے لیے منتخب کیا گیا تو شوال کا پہلا جمعہ احتجاج بقیع کے لیے کیوں معین نہیں کیا گیا ؟یہ اعتراض نہیں ہے لمحہ فکریہ ہے۔شاید کچھ سیاسی مجبوریاں اس دور کی رہی ہوں گی پر آج امت کو در اتحاد پر لانے کے لیے در آل محمد علیہم السلام کا سب سے بہترین راستہ ہے بہر کیف اب بھی وقت ہے۔

ہماری ذمہ داریوں میں سے اک ذمہ داری ہیکہ ہم اس بار شوال کے پہلے جمعہ کو جمعہ نہضت بقیع کے عنوان سے یاد کریں اور اس سلسلہ میں آیمہ جمعہ ماہ صیام کے ہر جمعہ کے خطبے میں بقیع کی تعمیر نو کی دعا کے ساتھ ساتھ احتجاج کے لیے بھی آمادہ کریں یوں تو ہر سچے اچھے پکے اور مخلص ایماندار سنجیدہ پڑھے، لکھے ،سمجھدار مسلمان کی ذمہ داری ہیکہ رسول ص گرامی کی ایکلوتی بیٹی کے مزار کی تعمیر نو کا مطالبہ کرے بلکہ بقیع میں تقریبا دس ہزار اصحاب و ازواج و اہلبیت ع کی قبریں ہیں ایک واقعی حقیقی مسلمان کو یہ سوچنا چاہیے کی اسکے باپ دادا کی قبروں پر فاتحہ خوانی اور زیارت پر کوءی پابندی کسی ملک میں نہیں ہے یہاں تک کہ روشنی و چراغاں کے لیے بھی آزادی ہے مگر جنکے صدقہ میں کاینات کو نور وجود اور زیور وجود سے آراستہ کیا گیا آج وہاں زیارت کرنے، فاتحہ خوانی ،اور شمع روشن کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے آج بقیع کی ویرانی اور خاموشی ہزار سوال لیکر خواب خرگوش میں سوءی ہوءی امت کے سامنے کھڑی ہے۔

ضمیر کی عدالت میں اس آواز کو سن لیں تاکہ روز حشر اسکا جواب دے سکیں۔ خدا ہم سب کو تعمیر بقیع کے اس سنہرے دور کو دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .