۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
جنت البقیع

حوزہ/ صد سالہ انہدام جنت البقیع کے موقع پر یہ گزارش ہیکہ شاید یہ آخری ظاہری احتجاج ہو اسلے اسمیں دام درہم قدم قلم سخن ہر طرح سے شرکت فرمائیں تاکہ آیندہ سال کف افسوس نہ ملنا پڑے بلکہ کامیابی کے بعد یہ یقین محکم ہو جایے کہ ہمارا احتجاج اثر پزیر ہو گیا الحمدللہ خدا قدیر نے ہماری دعاؤوں کو مستجاب کردیا۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | جیسا کہ گذشتہ اقساط میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ آج سے سو برس پہلے جن عظمت کے مناروں کو گرانے اور ہدایت کے چراغوں کو بجھانے کی سعی ناکام کی گئی وہ ایک ایسا عظیم سانحہ ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا جسکی یادوں کو قلب مومن سے محو نہیں کیا جاسکتا ایک سچےمسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب اسے آل سعود اور آل نجد کی بربریت کا منظر بقیع کے قبرستان میں دیکھا دیتا ہے۔

کوئی سچا مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہیک۔ آل سعود نسل قابیل سے بدتر کردار پیش کریگی کیونکہ دنیا کا پہلا قاتل بے رحم ہو نے کے بعد بھی کم‌از کم مقتول کے دفنانے کے لیے تو پریشان تھا جس پر قدرت نے ہدایت دی اور دو فرشتوں کو بصورت غراب بھیج کر دفن کا طریقہ تعلیم دیا اور اسے دیکھ کر قابیل نے حضرت ہابیل کی لاش کو دفن کیا مگر مسلمان کے بھیس میں مثل آل یہود آل سعود تھے جنھوں نے داعش کے دہشت گردوں کو تیار کیا جنکا ظلم و ستم انصاف پسند نگاہوں نے عراق و سیریا کی سرخ سر زمینوں پر دیکھا جب حجر ابن العدی الکندی کی قبر مطہر کھودکر ان کی نعش اطہر کو نکالا گیا اور بے حرمتی کی گءی مگر قدرت نے بھی انھیں ترو تازہ۔ جسم دکھا کر شہید کے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔پروفیسر عباس رضا نیر جلالپوری کے بڑے خوبصورت چار مصرع اس سلسلہ میں ہیں؛

ہے حجر ابن عدی کا کفن ترو تازہ

زمانے والوں نگاہیں تو ڈال کر دیکھو

جنھوں نے فاطمہ زہرا کا گھر جلایا تھا

ذرا انھیں بھی لحد سے نکال کر دیکھو

جب پہلا قاتل دفن کے لیے آمادہ ہوتا ہے تو وہ کتنے سفاک و بے رحم ہو نگے جنھوں نے روضوں اور مزاروں کو منہدم کردیا اور امت مسلمہ کی مجرمانہ خاموشی اپنی تاریخ کی یاد دلاتی ہے۔

ولایت غصب ہوئی امت خاموش رہی دروازہ زہرا ع جلایا گیا حضرت محسن بطن میں شہید کیے گیے مگر امت حرف سکوت میں ڈھلی رہی۔سیدہ کا فدک لوٹا گیا امت چادر مصلحت اوڑھ کر خاموش رہی۔صلح امام حسن ع میں حاکم شام نے دھوکہ دیا امت مسلمہ مجرمانہ طور پر خاموش رہی۔جنگ صفین میں عمر عاص کی مکاریوں میں بھی امت کی خاموشی کی کار فرماءیاں نظر آئیں اور خاموشی کی انتہا تب ہوئی جب ارض نینوا پر تحریک کے امین حسین ابن علی ابن ابی طالب تین دن کے بھوکے پیاسے ذبح کردیے گیے خیموں میں آگ لگاءی گءی اسیر کیا گیا اور نام نہاد مسلمان اپنے رسول کے آل کی بے حرمتی دیکھتی رہی اور خاموش تماشاءی بنی رہی یہی مجرمانہ خاموشی کی عادت نے بقیع کی ویرانی تک کے مناظر دکھا دیے مگر اب تک شعور و ادراک پر تعصب و تنگ نظری کے تالے جڑے ہویے ہیں نا جانے یہ خاموشی کب حرف احتجاج میں ڈھلے گی کب امت چادر مصلحت کو پھینک کر میدان احتجاج میں قدم زن ہو گی میرا عقیدتی شعور اس احساس کو ٹہوکے دے رہا ہیکہ شاید اس برس کا احتجاج آخری احتجاج ہو کیونکہ جس طرح عصر حاضر میں سیاست کے چہرے پر حصول دولت کی ہوس کی چمک نظر آرہی ہے اس سے لگتا ہیکہ دوہزار بیس سے تیس تک کی ترقی کے حصول کا تماشہ شاید کوئی نئی خبر لے آیے امید پہ دنیا قایم ہے مایوسی کفر ہے اور میرا رب کریم ہیکہ شعار کے تحت ایران و سعودیہ کی سلجھٹی ہو ءی سیاست کی دراز زلفیں ایک سنہرے مستقبل کی علامت ہے یہ خوش آیند ہوگا امت مسلمہ کے لیے اگر وہ فرش اتحاد پر جلوہ افروز ہو جایے اور شیعہ سنی اتحاد کی بنیاد صرف آل رسول کی محبت پر ہی ممکن ہے لہذا اس معاہدہ سیاسی میں اگر بقیع کی تعمیر کی ایرانی تمنا کا پھول شاخ سیاست پر کھل جایے تو راہ اتحاد بھی ہموار ہوگی اور اسکی خوشبوء سے استعمار کی سازشوں کی بدبو کا بھی خاثمہ ہوگا امت مسلمہ کو اب عقل و شعور کی بستی آباد کرنے کا وقت آگیا ہے دشمن کی "کوٹ نیتی" کو سمجھنے کا وقت آن پڑا ہے ہم دونوں ملکوں کے بیچ بڑھتے مثبت تعلقات کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں اور اسے تعمیر بقیع کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں گرچہ ابھی تک اس کا کوئی لایحہ عمل تیار نہیں ہے مگر لگتا ہے احتجاج کا وظیفہ بہث جلد نتیجہ کی امید پر گامزن ہوگا ہماری تمناؤں کا گلشن ضرور کھلے گا اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا یہ کام صرف ایران ہی کر سکتا ہے اور کسی کے بس کا روگ نہیں ہے رب منان ایران کو سلامت رکھے یقینا یہ سنہرا خواب تعمیر شرمندہ تعبیر نہ ہوگا بلکہ کربلا و نجف مشہد کے مثل یہاں روضہایے مقدس ضرور بنیں گے لیکن کیا تعمیر کے بعد باب احتجاج بند کردیا جایے اگر جواب ہاں ہے تو کیا یہ سو سال تک کیا جانے والا جبر وستم آنے والی نسل کو نہ بتایا جایے لمحہ فکریہ ہے قوم تشیع کے لیے کہ کیا تعمیر کے بعد راہ احتجاج پر استقامت بے معنی ہے یا صرف عنوان انہدام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوءیے صرف مجالس کا انعقاد ہمیشہ کیا جاتا رہے تاکہ ملت تشیع کبھی اس ظلم عظیم کو فراموش نہ کر سکے باقی اہل نظر کے دقیق و عمیق علمی و فکری نظریات کیا ہیں ان کے رشحات قلم سے نکل کر جب قوم ملت تک پہونچیں گے تو ضرور استفادہ کریں گے۔

بس آخر میں یہ گزارش ہیکہ شاید یہ آخری ظاہری احتجاج ہو اسلے اسمیں دام درہم قدم قلم سخن ہر طرح سے شرکت فرمائیں تاکہ آیندہ سال کف افسوس نہ ملنا پڑے بلکہ کامیابی کے بعد یہ یقین محکم ہو جایے کہ ہمارا احتجاج اثر پزیر ہو گیا الحمدللہ خدا قدیر نے ہماری دعاؤوں کو مستجاب کردیا۔

یا رب الحسین بحق الحسین بقیع کے مقدس مقامات کی تعمیر جلد از جلد فرما

آمین یارب العالمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .