تحریر: محمد رضا مبلغ جامعہ امامیہ
مقدمہ
حوزہ نیوز ایجنسی | یوں تو تمام انبیاء اس عالم ہستی میں اس لئے آئے تھے کہ لوگوں کی ہدایت کر سکیں اور ان کو اچھائی کا حکم دے سکیں اور برائیوں سے روکیں اور حق و باطل میں تمیز دے سکیں پھر جب انبیاء کرام کا سلسلہ ہمارے اور آپ کے آخری رسول ؐ پر ختم ہو چکا تو اس کے بعد ائمہ علیہم السلام کا سلسلہ ہدایت شروع ہوا اور ائمہ حضرات لوگوں کی ہدایت کرنے لگے اور ہمیشہ چاہتے تھے کہ ظلم کو ختم کر کے عدل و انصاف قائم کر سکیں یہاں تک کہ یہ دیکھا گیا کہ تمام ائمہ نے راہ حق و صداقت مین اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا پھر اس کے بعد جب یہ ہدایت کا سلسلہ آخری محمد تک پہونچا تو اللہ نے آپ کو مصلحتا رو پوش کر دیا ۔ اسی غیبت صغریٰ اس عظیم ذمہ داری کو آپ کے نائبین انجام دیا کرتے تھے یعنی علماء کرام اس عظیم ذمہ داری کو انجام دیتے تھے ،اور علماء کرام ہمیشہ یہ چاہتے تھے کہ ظلم و استبداد کو ختم کرکے عدل و انصاف قائم کر سکیں اور اس غیبت کبریٰ میں بھی علماء اس ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں یہاں تک کہ ظالم و جابر حکمرانوں نے کتنے علماء کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور انکے لہو سے اپنے بے بنیاد محل تعمیرکئے ہیں اس کے باوجود آج تک ’’ العلماء باقون ما بقی الدہر ‘‘ کی تحریر یہ آواز دے رہی ہے کہ علماء اس وقت تک باقی رہیں گے جب تک زمانہ باقی رہے گا ۔
اور یہ معمول رہا ہے کہ جب بھی ظالم حکمرانوں نے اسلام کی عزت کھلواڑ کرنا چاہا یا اسلام کو تار تار کرنا چاہا یا پھر مسلمانوں کےخون سے ہولی کھیلنا چاہا تو ان کے مقابل میں کوئی عالم ہی صدائے احتجاج بلند کرتا ہوا نظر آیا ہے بالکل اسی طرح جب ایران پر ایک ظالم و فاجر حکمراں نے اپنی ظالمانہ حکومت قائم کی اور جوان لڑکیوں کو بے نقاب، بچوں کو یتیم ،عورتوں کو بیوہ اور دین اسلام کی روح کو ختم کرکے دین اسلام کو امریکی اسلام بنا نے پر تلا ہوا تھا تو اس وقت اس ظالم کے مقابلہ کے لئے ایک عالم دین ہی اٹھ کھڑا ہو ا۔جس کا نام تاریخ نے سید روح اللہ مو سوی الخمینی ؒ لکھا ہے ۔امام خمینی اپنی ہر تقریر و تحریر میں شاہ کی اور اس کے امریکی اسلام کی مذمت کیا کرتے تھے ، چنانچہ ۱۳ ؍ خرداد ۱۳۴۲ش مطابق ۴ ؍ جون ۱۹۶۳ء کو قم کے مدرسہ فیضیہ میں عاشورکے دن امام خمینی نے ایک معرکۃ الآراء تقریر کی جس میں آپ نے دشمن روش سے اجتناب نہ کرنے کی صورت مین شاہ کو ملک سے نکال دینے کی دھمکی دی تھی ، اس جرم میں امریکہ نے شاہ کے ذریعہ انکو گرفتار کرا کے قید و سلاسل مین جکڑنے کی اسکیم کو عملی جامہ پہنایا ،۱۵ خرداد ۱۳۴۲ش مطابق۶ ؍ جون ۱۹۶۳ء بوقت سحر امام کو گرفتارکرکے تہران کے قصر نامی جیل میں قید کر لیا گیا، یہ خبر سنتے ہی پورے ایران خصوصاً قم ، تہران ، مشہد مقدس ، شیراز ، اصفہان ،تبریز جیسے بڑے اور اہم شہروں کی عوام نے اپنے قائد کی حمایت میں شاہ کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا ، شاہی حکومت نے انتہائی بربریت و بے رحمی سے عوام کا قتل عام اور مارشل نافذ کرکے وقتی طور پر بغاوت کی آگ کو خاموش کر دیا لیکن ۱۵ ؍خرداد کے دن جو آگ بھڑکی تھی اس کی چنگاریاں ظلم و تشدد کی راکھ کے نیچےاسی طرح سلگ رہی تھی اور آخر کار ۱۵ سال بعد یعنی ۱۳۵۷ش میں اس قابل ہو گئی کہ ظلم و استبداد کی بیساکھیوںپہ ٹکی ہوئی شہنشاہیت کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور اسے جلا کر خاکستر کر دے ، اسی لئے ۱۵ خرداد کا خونین قیام انقلاب اسلامی کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ اسکے علاوہ اور بھی اسباب ہیں جن کو ہم آگے کی بحثوں میں بتائیںگے۔ اسی وجہ سے ہم نے اس مقالہ کو دو فصلوں میں تقسیم کیا ہے جس کی پہلی فصل مفہوم شناسی کے عنوان سے ہے کہ جس میںہم لفظ انقلاب کے لغوی اور اصطلاحی معنی بتاتے ہوئے امام خمینی ؒ کی مختصر سوانح حیات کو بیان کریں گے اور دوسری فصل میں انقلاب اسلامی کے اسباب کو بیان کریں گے اور پھر اختتامی مرحلہ میں ہم انقلاب اسلامی انقلاب کے سب سے اہم سبب کو بیان کریں گے۔
فصل اول : مفہوم شناسی
(۱) انقلاب کے لغوی و اصطلاحی معنی
(ب) انقلاب کے لغوی معنی
الانقلاب : الرجوع مطلقاً
انقلاب یعنی اپنی سابقہ حالت کی طرف پلٹنا (لسان العرب ج۱۱ ص ۲۷۰)
(ب) انقلاب کے اصطلاحی معنی
گیارہ محرم کی رات کو امام خمینی ؒ کو گرفتار کرکے تہران کی قصر نامی جیل میں ڈال دیا گیا صبح کو امام خمینی ؒ کی گرفتاری کی خبر تہران اور ایران کے دیگر شہروں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی چنانچہ تمام مسلمان اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور ظالم شاہی حکومت کے خلاف نعرے بلند کرنے لگے ۔ (۱۵ ؍ خرداد از اسلامی انقلاب کا خونین آغاز ص ۱۴)
۲۔ امام خمینی کی حیات طیبہ کا مختصر خاکہ :
ولادت ۲۰؍ جماد الثانیہ ۱۳۲۰ھ مطابق ۲۶ ؍ ستمبر ۱۹۰۲ء
اصل نام : روح اللہ تھا ۔
جائے پیدائش : محلہ سادات شہر خمین
خاندانی نام مصطفوی تھا۔
خاندان : آپ کے آباء و اجداد کرام اہلبیت ؑ میں ساتویں امام حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام کی نسل سے تھے۔
دادا: آیۃ اللہ سید احمد موسوی ؒ ایک جلیل القدر عالم دین تھے۔
والد : آیۃ اللہ سید مصطفیٰ موسوی ؒ تھے۔
والدہ : محترم حاجرہ تھیں جو جناب مرزا احمد مجتہد کی بیٹی تھیں اور آپ اصل خوانسار کے باشندے تھے لیکن خمین میں آکر رہائش پذیر ہو گئے تھے۔
آپ کے بھائی : آپ کے دو بھائی تھے ایک سید پسندیدہ اور ایک سید نور الدین ۔
ابو ملا قاسم سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور سات سال کی عمر میں آپ حافظ بن گئے اور آپ نے مرزا احمد خوانساری اور آیۃ اللہ پسندیدہ سے بھی کسب فیض کیا۔
۱۹۱۸ء پھوپھی صاحبہ کہ جنھوں نے آپ کی پرورش اور تربیت میں ایک نمایاں حصہ لیا تھا اور والدہ ہاجرہ دونوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
۱۹۲۰ء آپ کو آپ کے بڑے بھائی سید مرتضیٰ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے اراک بھیج دیا ، جہاں آپ نے ادیب تہرانی، سید محمد تقی خوانساری ، شیخ علی اکبر یزدی ، شیخ محمد گلپائگانی، شیخ زین الدین عاملی ، شیخ ابو علی بروجردی اور شیخ عبد الکریم حائری جیسے معروف علماء سے کسب فیض کیا ۔
۱۹۲۳ء میں آپ قم تشریف لائے اور شیخ عبد الکریم حائری ؒ کے زیر سایہ اعلیٰ روحانی اور ذہنی تربیت حاصل کی۔
امام کے روحانی ارتقاء میں جس استاد کا سب سے زیادہ اثر رہا وہ مرزا علی شاہ آبادی تھے، آپ نے ان کو اپنی کتابوں میں شیخنا کے لقب سے یاد کیا ہے ۔
آپ پہلے ایسے رہنما ہیںجن کی تعلیم مکمل طور سے ایران میںہوئی ہے۔
۲۷ سال کی عمر میں آپ کی شادی آیۃ اللہ مرزا محمد تقی تہرانی کی صاحبزادی سے ہوئی جن سے دو فرزند سید مصطفیٰ ،سید احمداور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
۱۹۲۸ء شرح دعائے سحر آپ کی ابتدائی تحر یروں میں سے ہے اور دوسرے خاص موضوعات پر بھی آپ نے خامہ فرسائی کی نیز مصباح الہدایۃ الیٰ الخلافۃ و الولایۃ ( مکمل ) جو عرفانیات پر ایک مہم بالسان رسالہ ہے ، آپ کے عرفانی اور ملکوتی روح کی ترجمانی کرتا ہے۔
۱۹۴۵ ء میں پہلی مطبوعہ کشف الاسرار منظر عام پر آئی جس میں شیعی اسلام کے اصلاح کی بات اہل فکرو نظر کے سامنے رکھی۔
۱۹۴۶ ء میں درس خارج میں اصول فقہ پڑھنا شروع کی۔
۱۹۶۱ء میں ۳۱ ؍ مارچ کو آیۃ اللہ برو جردی کے انتقال کے بعد دینی پیشوائی میں آپ آیۃ اللہ برو جردیؒ کے جانشین بنائے گئے۔
۱۹۶۴ء ۶ ؍ نومبر کو کمانڈو کے ایک دستے نے امام کو گرفتار کرکے ترکی کی طرف بھیج کر جلا وطن کر دیا اور ترکی کے بورسا شہر میں آپ نے ’’تحریر الو سیلہ‘‘ جیسی معرکۃ الآراء کتاب لکھی۔
۱۹۶۵ء ۵ ؍ ستمبر کو امام خمینیؒ ترکی سے عراق کے شہر نجف میں بھیج دیئے گئے۔
۱۹۷۱ء حج کے موقع پر نجف اشرف سے دنیا کے مسلمانوں کے لئے ایک اعلانیہ جاری کیا اور خصو صا ً ان مسائل پر زور دیا جو اسرائیل کی طرف سے مسلم دنیا کو در پیش تھے۔
۱۹۷۸ ء عراق کی حکومت نے آپ کو عراق سے جلا وطن کر دیا ۔
۱۹۷۸ء ۱۳؍ اکتوبر کو کویت کے لئے روانہ ہوئے لیکن ان لوگوں نے آپ کو پناہ دینے سے انکار کر دیا ۔
۱۹۷۸ ء ۱۵ ؍ اکتوبر کو اپنے فرزند سید احمد خمینی سے مشورہ کرنے کے بعد پیرس چلے گئے ۔
۱۹۷۹ء ۱۶ ؍ جنوری کو محمد رضا شاہ پہلوی نے ایران کو خیرآ باد کہہ دیا ۔
۱۹۷۹ ء۱۵ سال کی جلا وطنی کے بعد امام نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا ۔
۱۹۷۹ ء ۱۱ فروری کو اسلامی جمہوری ایران کا قیام عمل میں آیا ۔
۱۹۷۹ ء یکم اپریل کو حکومت الہیہ کا پہلا دن قرار پایا ۔
۱۹۸۹ ء سوویت نونین کے صدر میخائل گوربا جوف کو دعوت اسلام دی ۔
۱۹۸۹ ء بدنام زمانہ کتاب ’’ شیطانی آیات ‘‘ کے مصنف سلمان رشدی ملعون کے خلاف امام نے تاریخی فتویٰ دیا۔
۱۹۸۹ ء ۳ ؍جون شب یکشنبہ 10:35پر اس جلیل القدر ہستی نے دار فانی کو خیرباد کہا ۔
۱۹۸۹ ء ۴؍ جون تہران کے قبرستان ’’ بہشت زہرا ؐ ‘‘ میں آپ کی تدفین ہوئی ۔
( عالمی سہارا ، رہبر انقلاب نمبر ۹؍ جون ۲۰۰۷،ہفتہ، نئی دہلی)
فصل دوم
انقلاب اسلامی کے اسباب
اگر ہم کسی معاشرہ میں رو نما ہونے والے سماجی اور تاریخی تغیرات کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے ا ن تغیرات کے اسباب کو جان لیں تاکہ اسی لئے ہم انقلاب اسلامی کے اسباب کو ترتیب سے بیان کریں گے۔تاکہ انقلاب کو صحیح طریقے سے سیکھ سکیں۔
(۱) امام خمینی ؒ کے متعلق تذلیل آمیز مضمون :
یہ دینی رہنمائی تھی جنھوں نے استبداد پسند پہلوی حکومت کے در و بام ہلا کر رکھ دیئے اور عوام کے دلوں میں اسلامی حکومت کی بنیادیں مضبوط کیں ۔ مثال کے طور پر انقلاب کا پہلا شعلہ اس وقت جلوہ فگن ہوا جب ایران کے ایک کثیر الاشاعت روزنامہ ’’ اطلاعات ‘‘ میں ۷ ؍ جنوری ۱۹۷۷ء کو امام خمینی ؒ کے متعلق ایک انتہائی توہین آمیز مضمون شائع ہوا۔ حالانکہ اس مضمون میں امام خمینی ؒ کا نام نہیں لیا گیا تھا لیکن اس کا مجموعی تاثراس طرف اشارہ کرتا تھا کہ اس کا ہدف اُنہیں کی ذات ہے ۔ عوام اور بالخصوص امام خمینی ؒ کا پیمانۂ صبر چھلک گیا ۔ انھوں نے ظلم و تشدد ، گھٹن اور دبائو نیز اپنے دین مقدس کی پامالی کے خلاف پرچم انقلاب بلند کر دیا ۔( اسلامی انقلاب تاریخ حاضر کا عہد آفرین موڑ۔ص ۲۴)
(۲) آیت اللہ مصطفیٰ خمینی ؒ کا قتل :
انقلاب اسلامی سے دو ماہ قبل امام خمینی ؒ کے سب سے بڑے بیٹے آیت اللہ مصطفیٰ خمینی ؒ کو عراق میں زہر دے دیا گیا اور مشکوک حالات میں ان کی موت واقع ہو گئی ۔ اس المناک سانحہ پر بھی امام خمینی ؒ نے کسی ذاتی رد عمل کا مظاہرہ نہیںکیا ۔ اپنی ایک تقریر کے اختتام پر آپ نے فرمایا : ’’ اس کی موت خدا کی در پردہ رحمت ہے ، یہ خدائے بزرگ و برتر کا انعام ہے ۔‘‘ اپنے بیٹے کی موت کے چھ ماہ بعد بھی جب لاموند (La Monde)کے نمائندہ نے ایک انٹرویو کے دوران ان سے یہ سوال کیا کہ آپ کے بیٹے کو ساواک نے ہلاک کیا ؟ تو انھوں نے جواب دیا ’’ مجھے معلوم نہیں‘‘ لیکن ایسے دستاویزی ثبوت اور شہادتیں موجود ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ اس قتل میں ساواک کا ہاتھ تھا ۔ بہر کیف متذکرہ بالا مضمون ایک بہت ہی نازک وقت میں شائع ہوا اور اس کی اشاعت حکومت وقت کے خلاف قم اور دوسرے بڑے شہروں میں مظاہروں کا سبب بن گئی (اسلامی انقلاب تاریخ حاضر کا عہد آفرین موڑ ، ص ۲۴)
(۳) شاہ کا ظلم و تشدد
مظاہرین پر امن تھے اور اس مضمون کی سرکاری سطح پر تردید کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ حکومت نے اس صورت حال کے متعلق نہ صرف سرد مہری کا رویہ اختیار کیا بلکہ بغیر کسی وارننگ کے اس کی فوجوں نے مظاہرین پر گولی چلادی ۔ متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ۔ مظاہرین کی اکثریت کا تعلق قم کے دینی مرکز سے تھا ۔
پر امن مظاہروں کا نتیجہ کشت و خون کی صورت میں بر آمد ہوا ۔اس وحشیانہ قتل عام سے لوگوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی کیوں کہ شہید ہونے والوں میں زیادہ تر دینی طلبہ تھے ۔ ان کی شہادت کے چوتھے روز بہت سے شہروں میں یادگاری جلسے منعقد ہوئے ۔ بازار اور دکانیں بند رہیں ۔ یہ جلسے تقریبا تمام شہروں میں بغیر کسی قابل ذکر واقعہ کے اختتام پذیر ہوئے لیکن تبریز میں پولس اور عوام کے درمیان شدید تصادم ہوا کیوں کہ وہاں پولس نے ایک مذہبی رہنما کی توہین کی تھی۔ لوگ اس صورت حال پر چونکہ بہت مشتعل اور ناراض تھے لہٰذا انھوں نے ایک احتجاجی جلوس نکالا اور سرکاری ایجنٹوں نے ان پر مشین گنوں سے حملہ کیا جس میں مظاہرین کی ایک کثیر تعدادہلاک اور زخمی ہوئی ۔
تبریز کےحادثہ کے ساتویں اور چالیسوں دن ماتمی جلسوں کا سلسلہ جاری رہا اور ان کا انجام اکثر و بیشتر کشت و خون پر ہوا۔ صورت حال نازک سے نازک تر ہوتی گئی اور ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ آخر کار رمضان المبارک کا مہینہ آگیا۔ رمضان سے پہلے چونکہ زیادہ تر شہروں میں لوگوں نے وحشیانہ کشت و خون کا نطارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا لیکن ملک گیر سطح پر ابھی اس کے خاطر خواہ اثرات رونما نہیں ہوئے تھے ۔امام خمینی ؒ نے ایک اعلان کے ذریعہ عوام اور علماء سے کہا کہ رمضان میں وہ مسجدوں میں جائیں اور بلا خوف و خطر حکومت کے جرائم کا پردہ چاک کریں نیز اسلامی حکومت کے قیام کے منصوبوں پر غور و خوض کریں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے قم کے دینی مدارس کے زیر تعلیم یافتہ افراد کو آمادہ کیا کہ وہ ملک کے گوشہ گوشہ میں جاکر عوام کو بیدار کریں ۔ ملک کے طول و عرض میں اس تحریک کے برق رفتاری کے ساتھ پھیل جانے کے پس پشت یہی عوامل کار فرما تھے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتے ہی ایران منظم اور پر جوش مظاہروں کی آماجگاہ بن گیا ۔ ہر روز ایران کے کسی نہ کسی گوشہ میں کوئی نہ کوئی مظاہرہ ہوتا اور اس کا انجام خون خرابہ پر ہوتا ۔ ماہ رمضان کے چوتھے دن اصفہان میں اتنی کشیدگی بڑھ گئی کہ حکومت کو مارشل لا نافذ کرنا پڑا ۔ یہ صورت نصف رمضان تک جاری رہی اور معصوم و بے قصور لوگوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا جاتا رہا ۔ یہاں تک کہ حکومت نے مسلم انقلاب پسندوں کو بدنام کرنے کے لئے ایک انتہائی مکروہ و مجرمانہ حرکت کی یعنی ریکس سنیما میں آتشزدگی کروائی۔ اس مجرمانہ حرکت سے دو روز قبل شاہ نے لوگوں سے کہا’’ ہم آپ کو ایک عظیم تہذیب سے روشناس کرانا چاہتے ہیں اور مخالفین آپ کو دہشتگردی میں مبتلا کرنے کے خواہشمند ہیں ۔‘‘
لوگ کسی نا خوشگوار واقعہ کے منتظر تھے ۔ رمضان کے وسط میں دو دن بعد آبادان میں ریکس سنیما کو آگ لگا دی گئی ۔ جس میں سینکڑوں مرد ، عورتیں اور بچے زندہ جل گئے ۔ اس طرح تاریخ کا انتہائی المناک اور غیر انسانی قتل عام عمل میںآیا ۔
حکومت کے مضحکہ خیز پروپگنڈہ اور دروغ بیانی کے با وجود ہر شخص کو یہ یقین تھا کہ اس مجرمانہ حرکت کے پیچھے حکومت اور صرف حکومت کا ہاتھ تھا ۔ کیونکہ یہ واقعہ اس شہر میںپیش آیا تھا جہاں ملک کا سب سے بڑا تیل صاف کرنے کا کا رخانہ تھا لیکن نہ صرف آگ بجھانے والا عملہ حادثہ پر آدھا گھنٹہ تاخیر سے پہنچا بلکہ اس کے پاس آگ بجھانے کے واسطے پانی تک نہیں تھا ۔ یہاں تک کہ نل بھی خشک تھے ۔یہی نہیں کہ موقع پر موجود پولس نے کچھ نہیں کیا بلکہ عوام کو سنیما ہال میں گھرے ہوئے لوگوں کی جان بچانے سے بھی باز رکھا اور لوگ بند دروازوں کے پیچھے زندہ جل کر مر گئے ۔
عوام پر اس واقعہ کا زبردست اثر ہوا اور انھوں نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا ۔ جمشید آموز گار کی وزارت ڈگمگا گئی اور شاہ نے اظہار برأت کے طور پر وزارت کو بدل ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ (اسلامی انقلاب تاریخ حاضر کا عہد آفرین موڑ ، ص ۲۶)
ایران میں اسلام مٹانے کی لہر :
۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۴ء کے حادثات نے کافی حد تک پہلوی حکومت کو الجھائے رکھا تھا لیکن اس کے باوجود پوری تن دہی کے ساتھ سامراجی ذمہ داریوں کو نبھا رہی تھی۔ سامراج نے جو منصوبے ایران کے لئےبنائےتھے۔ وہ اس طرح تھے :
ایرانی عوام کے اسلامی اقدار کو ختم کرکے اس کی جگہ مغربی تہذیب و اقدار کو رواج دینا ۔ یہاں پر اس چیز کی بھی وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ گذشتہ صدیوں میں ایران کے قومی آداب و رسوم میں اسلامی ثقافت اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ کسی طریقے پر اس کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ ایرانی عوام کے زندگی کے ہر شعبے میں ’’ اسلامیت ‘‘ جڑ پکڑ چکی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ ظہور اسلام کے بعد ایران پر ہمیشہ اسلامی تہذیب و ثقافت کا تسلط رہا ہے اور ایرانی قوم کے قومی اقدار ہی ان کے اسلا می اقدار ہیں چنانچہ سامراج اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایران سے اسلام کو مٹانے کی کوشش میں مصروف رہا۔
امام خمینی ؒ کو جلا وطن کر دینے کے بعد پہلوی حکومت کو تیزی کے ساتھ اپنی سامراجی ذمہ داری کو نبھانے کا بڑا اچھا موقع ہاتھ آگیا ۔ آپ کو ترکیہ جلا وطن کر دینے کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے امریکی ماہرین کو قانون سے بالا تر قرار دینے پر سخت اعتراض کیا تھا اور ۱۹۶۴ ء قم میں ایک تقریر کے دوران یہ اعلان کیا کہ امریکی صدر ایرانی قوم کی نظر میں منفور ترین شخص ہے ۔ اس تقریر کی زیادہ اہمیت یہ ہے کہ امام خمینی ؒ ایران اور دوسرے اسلامی ممالک کو تباہ و برباد کر دینے کے لئے امریکہ ، روس اور برطانیہ کے انسانیت سوز منصوبوں کی نقاب کشائی کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے سر براہوں اور تمام علماء اسلام کو خبردار کرتے ہیں کہ اسلام انتہائی عظیم خطرات سے دوچار ہے ۔ بڑی طاقتیں اسلام کو نیست و نابود کرکے اسلامی ممالک کے استحصال کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ امام خمینی ؒ اس تقریر میں وا ضح مسئلہ پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں’’ امریکہ ، علماء کے اثر و رسوخ کو ختم کرکے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے ۔ کیونکہ جب تک علماء کا اثر و رسوخ باقی ہے اس کی گاڑی آگے نہیںبڑھ سکتی ۔‘‘
آخر کار پہلوی حکومت کو یہ موقع مل گیا کہ وہ امام خمینی ؒ کو جلا وطن کرکے بہت سے علماء ، طلباء اور دوسرے انقلابی عوام کو قتل و گرفتار کرکے ملک میں گھٹن کا ماحول پیدا کر دے اور اسلام کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے میدان ہموار کر سکے ۔ در حقیقت ۱۹۶۴ ء سے ۱۹۷۸ء تک کا زمانہ اصل اسلامی طاقتوں کے لئے انتہائی مشکلات کا زمانہ تھا جسے ایران میں اسلام کو مٹانے کا زمانہ سمجھنا چاہئے ۔ اگرچہ ایران میں اسلام کو مٹانے اور دور قا چار یہ اور ایران میں اسلام مٹانے کے مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کی تحقیق کے لئے ایک جداگانہ کتاب کی ضرورت ہے ۔ لیکن پھر بھی بہتر ہوگا کہ ہم تفصیل میں نہ جاتے ہوئے ایران میں اسلام مٹانےا کی غرض سے استعمال کئے گئے حربوں کی طرف اشارہ کرتے چلیں ۔ (اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص ۲۷)
(الف)
درباری اسلام :
نئے سامراج کے کرتا دھرتا ، اچھی طرح واقف تھے کہ اسلامی ممالک بالخصوص ایران میں جہاں عوام کا مذہب سے گہرا تعلق ہے اسلام کے ساتھ اعلانیہ اور کھلم کھلا مقابلہ ایک بڑی غلطی ہے ۔ یہ عمل نہ صرف اسلام مٹانے میں موثر ثابت ہوگا بلکہ اسلام کی مزید تقویت کا باعث بنے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اسلام کو جھٹلانے کی کوشش نہ کی بلکہ ان کی پوری کوشش یہ رہی کہ اسلامی ممالک میں اپنی پٹھو حکومتوں کی مدد سے سچے اور حقیقی اسلام کی جگہ ایک غیر حقیقی اسلام کو رواج دیں ۔ اس اسلام کو جس کو درباری اسلام کہنا چاہئے جس کےچار بڑے فائدے تھے :
پہلا فائدہ : انھیں یہ موقع حاصل ہوتا کہ وہ ظاہری طور پر عوام کے مذہبی اور عقیدتی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کے خلاف کوئی اقدام کئے بغیر اسلامی ثقافت کی جگہ سامراجی ثقافت رائج کریں اور بغیر کسی رکاوٹ کے اسلامی ملکوں کی دولت کو غارت کرتے رہیں ۔
دوسرا فائدہ : یہ تھا کہ اس کی مدد سے اپنی پٹھو حکومت حکومتوں کو باقی رکھ سکتے تھے کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ اگر ان ممالک میں حکومت کے افراد اپنے کو اسلام کا حمایتی بتاتے رہیں گے اور اپنے کو مذہبی فرائض اور مراسم کو انجام دینے والا ظاہر کرتے رہیں گے تو وہ اپنی حکومت کو باقی رکھ سکیں گے ۔ اس لئے اگر دین کے معاملے میں ان کی طرف سے ذرہ برابر بھی بے اعتقادی ظاہر ہوگی تو ان کی حکومت عوام کے درمیان متزلزل نظر آئے گی۔ یہی وجہ تھی کہ پہلوی حکومت باوجود یکہ حقیقی اسلام کی سخت مخالف تھی اور ایسے علماء اور اسلام شناس افراد جو حکومت کے ہاتھوں اسلامی قوانین مسخ کئے جانے پر اعتراض کیا کرتے تھے ، جلا وطن یا جیلوں میں ڈال دیا کرتی تھی ۔ اور ایسا کٹھن ماحول بنا رکھا تھا کہ کوئی شخص حقیقی اسلام کی ترویج نہیں کر سکتا تھا۔
تیسرا فائدہ: سامراجیت کو یہ گمان تھا کہ اسلامی ملکوں میں انکی پٹھو حکومتوں کے باقی رکھنے سے انکا بھی وجود وہاں باقی رہا اور یہ لوگ اس بات سے مطمئن رہتے کہ دنیا کی دوسری مظلوم و محروم قوموں کے بیدار ہونے کا خطرہ نہیں ہے ۔ کیونکہ سامراجیوں کو یہ بات معلوم تھی کہ اگر مسلمان حقیقی اسلام کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیام کریں اور سامراج سے مقابلہ کریں تو اس تحریک سے بلند ہونے والی موج دنیا کے دوسرے مستضعف اور محروم عوام کو بھی حرکت میں لے آئیگی اور انکی عالمی سامراج کی بیخکنی کے لئے متحد کر دے گی اور یہ چیز عالمی لٹیروں کے لئے بڑی خطرناک تھی، چنانچہ ایران میں اسلامی انقلاب کے کامیاب ہوتے ہی اسی کے نہایت تلخ ہونے کا تجزیہ بھی ہو گیا۔
چوتھا فائدہ: سامراجیوں کو یہ معلوم تھا کہ ’’ درباری اسلام ‘‘ کو رواج دینے سے بہت سے افراد کی نظر میں دین کا بھرم جاتا رہتا اور حقیقی اسلام سے منھ موڑ لیتے جو ایک صحیح اور قد آور نظریہ کی جستجو میں رہتے تھے ۔ ایسے لوگ اس درباری اسلام میں اس چیز کو پانے سے معذور رہتے جن کی انھیں تلاش ہے کیونکہ درباری اسلام ایک ’’ تشریفاتی‘‘ دین ہے جو دوسرے ادیان سے تفاوت نہیں رکھتا ۔ آخر کار ایسے لوگ بھی حقیقی دین اسلام سے دور ہو جاتے اور انھیں یہ محسوس ہوتا کہ در اصل دنیا میں ایسے کسی دین کا وجود ہی نہیں ہے جو انسان کو حقیقت کائنات سے آشنا کر سکے ، اسے لغو اور بےہودہ باتوں سے نجات دے اور ظلم و استبدداد ، جارحیت اور نا انصافی کے مقابلہ پر اسکو استقامت کے لئے آمادہ کر سکے ۔
اسی طرح سامراجی جو سب سے بڑا فائدہ حاصل کرنا چاہتے تھے وہ یہ تھا کہ درباری اسلام کی مدد کرکے وہ ان طاقتوں کی صلاحیت واستعداد کو اپنی طرف موڑ لیں جو حقیقی اسلام کے با زؤوں کی توانائی بن کر سامراج سے لڑ سکتی تھیں۔ لہٰذا سامراجی ایسی زمین ہموار کرنا چاہتے تھے کہ یہ عظیم طاقتیں انحرافی مکاتب فکر میں جذب ہو جائیں یا خود یہ طاقتیں ایک نئے مذہب کا روپ دھارن کر لیں۔’’ ہپی ازم ‘‘ جیسا لچر نظریہ جو مغربی دنیا کی آفتوں میں سے ایک بڑی آفت ہے ۔اور سامراجیوں کو جس کا خوب تجربہ ہے سامراجی ایسا ہی مذہبی خلا اسلامی ممالک میں پیدا کرنا چاہتے تھے ۔فرق یہ تھا کہ مغربی دنیا میں کسی ایسے’’درباری دین‘‘کی ضرورت نہیں تھی۔اس لئے کہ وہاں موجودہ ’’مسیحیت ‘‘جو زندگی کے حقیقی اصولوں سے تہی دست ہے۔اس کا وجود کسی’’درباری دین‘‘کو منھ چڑھانے کے لئے کافی ہے۔ایسے دین ومذہب کے ترقی اور رواج پانے سے سامراجی حکومتوں کو کسی قسم کی پریشانی اور خطرہ نہیں ہے۔مگر اسلامی ممالک میں ایک درباری اسلام کو ایجاد کئے اور اسے حقیقی اسلامی کی جگہ رواج دئے بغیر سامراجیوں کو اپنے مقاصد میںکامیاب ہوجانا ممکن نہیں تھا۔
درباری اسلام کا پرچا رکرنے والوںمیں دوسرا گروہ ایسے افراد پر مشتمل تھا ۔مستشرق اور اسلام شناس کا پسل لگاکر اسلامی ممالک میں رخنہ اندازی کرتا تاکہ سامراجی جاسوس خانوں میں گڑھے ہوئے تھے اسلام کو عوام سے روسناش کرانے اور حقیقی اسلام کو طاق بنادے۔
یہ مستشرقین جن کو معلومات مختلف اسلامی شعبوں میں بڑی محدود ہوتیں اور انہیں مسلمان محققین کی تحقیقات کا بہت کم علم ہوتا مگر یہ لوگ انہیں مسلمان محققین کی تحقیقات کو توڑمروڑکر اس پر خاص فرنگی رنگ وروغن لگاکر انہیں خوبصورت جلدوں میں شائع کرتے اور انہیں اپنے ہمراہ اسلامی ممالک میں لاتے اورسامراج کی پٹھو حکومتوں کی طرف سے انعقاد کئے جانے والے سیمیناروں میں انہیں پیش کرتے۔
یہ پٹھو حکومتیں ان کا زبردست پروپگنڈہ کرتیں ،جس کے نتیجے میں یہ صرف سیدھے ساسادھے عوام دھوکہ کھاتے جاتے بلکہ بہت سے محققین افراد بھی فریب میںمبتلا ہوجاتے اور ایک سچے اسلام سناش کو اپنے مطالعات وتحقیقات کو پیش کرنے میں بڑی زحمت آئی۔ایران میں یہ چیز دوسری اسلامی ممالک سے کہیں زیادہ دیکھنے میں آتی۔پہلوی حکومت اس پر خاص توجہ دیتی اور کھول کر روپیہ خرچ کرتی کیونکہ یہ مسئلہ ایران میں اسلام کشی اور پہلوی حکومت کی بقا ء کے لئےبراہ راست اور اصلی عوامل میں تھا۔پہلوی حکومت کی نظر میں یہ مسئلہ اتنا اہم تھا کہ ایران تو ایران ملک کےباہر بھی سامراجی مستشرقین کی حقیقت کا پروپگنڈہ کرنے کے لئے کثیر تعداد میں رقم خرچ کرکے مرکز قائم کئے گئے تھے۔حکومت کی اس ناپاک کوشش کے اصلی عوامل وہی نام نہادمغربی اسلام سناش اور مغرب زدہ افراد تھے۔جو باہم متحد ہوکراسلام کو مٹانے کے سامراجی پیغام کو عملی جامہ پہنارہے تھے۔
(اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص۳۱)
(ب)سرکاری کمیونزم
اسلام مٹانے والے مداریوں نے اس میدان میں اس امر کی فکر کی تھی کہ معاشرے میں حقیقی اسلام کو نابودی کے بعد متجسس افراد کو اس کمی کا احساس ہوگا تو اس خلا کو کیوں کر پر کیاجائے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ درباری اسلام کے ذریعہ صرف اس حد تک یہ خلا پر کیا جاسکتا ہے اور صرف انہیں لوگوں کو مطمئن کیا جاسکتا ہے جنکی معلومات محدود ہیں اس چیز کےپیش نظر وہ لوگ دوسرے عناصر اور عوامل کی بھی کھوج میں پڑ گئے۔انھیں عوامل میں سے ایک سرکاری کمیونزم بھی ہے ۔
پہلوی حکومت ہمیشہ براہ راست دربار کے ذریعہ مختلف سماجی، ادبی اور علمی سو سائیٹیوں ، انجموں اور وزارتوں کے ذریعہ عوام کے ایک طبقے کو ایسی محفلوں اور سو سائیٹیوں میں جذب کرنے کی کو شش کرتی رہی جن پر ترقی پسندی کا لیبل لگا یا گیا تھا ۔ ان افراد کے اشعار ، ڈرامے اور دوسرے آرٹس میں اگرچہ حکومت پر کہیں کہیں اعتراض نظر آتے تھے لیکن بتدریج یہ لوگ بھی اشراقیت اور دہریت کے جال میں گرفتار ہو جاتے تھے ۔ پہلوی اور سامراجیت کا اصلی مقصد یہی تھا کہ یہ طاقتیں ان چیزوں میں سرگرم رہیں جو حکومت کے اصل نظام سے ٹکر ا ؤ رکھتی ہیں۔ اگر وہ چیزیں قابل اعتراض ہیں بھی تو حکومت کے پاس انہیں مطمئن کرنے کے راستے بھی ہیں ۔ حکومت نے جو ذرائع مہیا کئے تھے اور جن منصوبوں اور پروگراموں پر وہ عمل کر رہی تھی ان کی روشنی میں حکومت کو یہ علم تھا کہ آخر کار یہ طاقتیں بھی ایک نہ ایک دن اشراقیت اور دہریت کے بھنور میں پڑ جائیںگی اور آئندہ ان سے فائدہ اٹھا یا جا سکے گا اور یہ طاقتیں سامراج کے جرائم کی توجیہ و تاویل بیان کرنے کے سلسلہ میں بڑی کارآمد ثابت ہوں گی۔ یہی وجہ تھی کہ یہ طاقتیں اپنے قابل اعتراض اشعار سامراجی انجمنوں اور ثقافتی اداروں مثلا ’’انجمن ایران و امریکہ ‘‘ وغیرہ میں پڑی تھیں اور انھیں پہلوی حکومت کے ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا تھا ان سے متعلق تصویریں بین الاقوامی میں رکھی جاتی تھیں اور عموما ً انعا م بھی حاصل کرتی تھیں۔
ان افراد کے افکار و افعال سے تھوڑی بہت کمیونزم کی بو آتی اور یہ محسوس ہوتا کہ ایک کمیونٹ تحر یک وجود میں آ رہی ہے لیکن حقیقت میں ایسی کمیونٹ تھی جس کا زیادہ فائدہ کمیونزم کے مخالف شہنشاہی نظام کو پہنچا ! اور یہ کمیو نزم کی ایک دوسری قسم تھی ’’ سرکاری کمیونزم ‘‘ ۔
( اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص ۳۲)
( ج) جھوٹا نیشنلزم
سامراجیوں نے اسلام کشی کے بعدپیدا ہو جانے والے خلا کو پر کرنے کے لئے ایک دوسرا حربہ ’’ نیشنلزم‘‘ کا اپنایا ۔نیشنلزم کے معنی اگر ایک قوم کو اجتماعی طور پر متحد کرنے اور اس کی قومی حیثیت کو اہمیت دینے کے ہیں تو ’’ اسلام ‘‘ میں ایسے ’’ نیشنلزم ‘‘ کی نہ یہ کہ مذمت کی گئی ہو بلکہ ایسے نیشنلزم کی بیحد تاکید کی گئی ہے اور اس کی طرف رغبت دلائی گئی ہے ۔ اسلام ’’ نیشنلزم ‘‘ کے مثبت پہلو ؤں کو ماننے سے انکار نہیں کرتا لیکن اس کے منفی پہلو ؤں کی بھر پور مخالفت کرتا ہے ۔
گذشتہ صدی میں نیشنلزم اور نسل و قوم پرستی کو جس انداز سے لیس کیا گیا ہےاور جو فتنہ کھڑا کیا گیاہے اس کا مقصد صرف ایک قوم کو اصل قرار دیکر بلند و بالا اقدار کا انکار کرنا ہے ، تمام قوموں کو ایک متحد قوم بنانا نہیں ۔ گذشتہ صدی میں اسلامی ممالک نیز محروم اور سامراج کے زیر اثر ممالک میں سا مراجیوں کی طرف سے نسل و قوم پرستی کو اولین اصل اور بالا ترین اجتماعی قدر کی حیثیت سے رواج دینے کی بھر پور کو شش کی گئی ہے ۔
اسلامی ممالک میں نیشنلزم کے رواج دینے سے سامراجیوں کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے ساتھ مسلمان قوموں کا رابطہ ختم کر دیں جس کا نتیجہ ہوگا کہ مسلمان قوموں کے درمیان خود بخود رابطہ ختم ہو جائے گا ۔ کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اسلام قومیت کی دیوار کو ہٹا کر مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ متحد کر کے عظیم طاقتور ’’ ملت واحدہ ‘‘ کی شکل دے سکتا ہے یہی وجہ تھی کہ عالمی سامراج نے خطرے کا احساس کرتے ہی وسیع پیمانے پر پروپگنڈہ اور کو ششیں شروع کر دیں تاکہ مسلمانوں کے درمیان اس طرح کی وحدت قائم نہ ہو سکے اور قومیت کو اسلام پر فو قیت حاصل ہو جائے۔
دوسرا فائدہ سامراجیوں کو ’’ نیشنلزم ‘‘ کے رواج دینے سے یہ تھا کہ وہ لوگ ایک مسلمان قوم کے درمیان نسل پرستی اور قومیت کا احساس دلا کر اسلام کی طرف سے انکی توجہ ہٹا سکتے تھے یا جہاں انھیں اسلام کو طاق نسیاں کے حوالے کرنے میں کامیابی حاصل ہو گئی تھی اور اس سے جو خلا پیدا ہو گیا تھا اس خلا کو قوم پرستی کے احساس کے ذریعہ پر کر سکتے تھے ۔ ایران میں اسلام کشی کے ساتھ ساتھ ’’ نیشنلزم ‘‘ کی تحریک کا بھی آغاز ہوا اور یہ تحریک مختلف شکلوں میں جاری رہی ۔
پہلوی حکومت ایران کے قومی ثقافت کو مٹانے کی بھرپور کو شش کے ساتھ ساتھ یوں درباری اہل قلم اور فن کاروں کے ذریعہ عوام میں مسخ شدہ قومیت اور نیشنلزم کا جھوٹا احساس دلانے کی بھی کوشش کرتی رہی جو اس مسخ شدہ قومیت کے مروج اور مبلغ تھے ۔ شاہ کے زمانۂ حکومت میں ادبیات و ثقافت نے بار ہا یہ کوشش کی کہ فارسی رسم الخط بدل کر اسکی جگہ لاطینی رسم الخط رائج ہو جائے ۔ یہ اقدام اسلامی ثقافت کے ساتھ بڑی خیانت تھی اس لئے کہ اسلامی ثقافت کا بہت بڑا حصہ نثر و نظم کی صورت میں فارسی رسم الخط میں موجود ہے ۔ اس کے علاوہ اس اقدام کا بھی ایرانی قومیت کو نیست و نابود کرنے والے اقدامات میں ہوتا ہے ۔ ایرانی قومیت پر اس طرح حملوں کے ساتھ ساتھ عرب مسلمانوں کے خلاف بڑی شدت سے دوسری قسم کے پرو پگنڈے بھی کرتی رہی ۔ ان پرو پگنڈوں میںاب مسلمانوں کی ایرانی عوام کے درمیان اسلام اور عرب مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیل جائے اور ایرانی عوام کا رجحان اسلام سے ہٹ کر قومیت کی طرف ہو جائے ۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ پہلوی حکومت ایرانی عوام کے ذہنوں میں ’’ اسلامیت ‘‘ کے بجائے جس قومیت کا تصور پیش کرنا چاہتی تھی وہ بھی حقیقی ایرانی قومیت نہیں تھی بلکہ وہ سامراجی ثقافت کے ذریعہ ایک مسخ شدہ قومیت تھی جس پر ایرانی قومیت کا ملمع چڑھا دیا گیا تھا ۔
ایرانی عوام نے گذشتہ نصف صدی میں اپنے ملک کی تاریخ میں جھوٹے نیشنلزم کا بڑا تلخ تجربہ کیا تھا ’’ جبہہ ٔ علی ‘‘ ( نیشنل فرنٹ ) جو ایرانی قومیت پرستی کی سب سے بڑی مدافع سمجھی جاتی تھی اس نے خود شاہ پور بختیار جیسے افراد کو پروان چڑھایا جس نے ایرانی تاریخ کے نازک ترین لمحوں میں دوڑ کر امریکہ کی مدد کی اور امریکہ کے مفاد کے لئے ایرانی قوم سے غداری کی اور امریکہ کی پٹھو حکومت کی وزارت عزمی قبول کرکے عوام کو فریب دینے کے لئے اپنے بہت ہی مختصر دورۂ وزارت میں ’’ قومیت کا راگ الاپتا رہا ’’ پان ایران ازم ‘‘ تحریک نے بھی قومیت اور نیشنلزم کے نعروں کے پردے میں امریکہ کی بڑی خدمات انجام دیں اور پہلوی حکومت کے جرائم کی غلط تاویل و توجیہ کر کے ایرانی قوم کو شدیدنقصان پہو نچایا ۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بھی وہ افراد اور وہ تحریکیں جو اپنے نیشنلسٹ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں ، ہمیشہ عوامی تقاضوں کے خلاف سامراجیوں خصو صا امریکہ کے مفاد میں کام کرتی رہی ہیں ۔
ایرا ن کے علاوہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی نیشنلسٹ تحریکوں نے ان قوتوں کو بڑی چوٹ پہونچائی ہے جنھوں نے ہمیشہ استعمار کے خلاف کام کیا ہے ۔
عرب ممالک میں ’’ پان عرب ازم ‘‘ اور ترکیہ میں ’’ ترکی ازم ‘‘ فقط حقیقی اسلامی تحریکوں سے مقابلہ کی غرض سے وجود میں آئیں اور سامراج کے مفادات کی حفاظت کرنے والے حربوں کی حیثیت سے نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ پٹھو حکومتوں نے بعض قومی ثقافت کی جگہ سامراجی ثقافت کو لانے کی کوشش کی۔ اسی مقصد کے پیش نظر ایران میں پہلوی حکومت نے ایران کے قدیمی ( زرتشتی و مانوی ) رسم و روایات کو نام نہاد یورپی اورامریکی ایران شناس افراد کی مدد سے زندہ کرنے کی بہت اعلیٰ پیمانے پر کو شش کی اور اسکے لئے بے دریغ دولت صرف کی ، اسلامی تاریخ کے بجائے شہنشاہی تاریخ کو رواج دینے کا مقصد بھی یہی تھا ۔ ( اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص ۳۵ )
(د) مغربی لیبرل ازم
لفظ لیبر ل ازم بھی ’’ لفظ استعمار ‘‘ کی طرح بد بختیوں کا شکار رہا ہے اور مغرب زدہ قوم کی نظرمیں ایک خاص مفہوم اور معنی ہے یہی وجہ ہے کہ حقیقی لیبر ل ازم اور مغربی لیبرل ازم کے درمیان کافی فرق ہے ۔جس طرح استعمار کے اصل معنی طلب عمران و آبادی کے ہیں مگر استحصال پسندوں نے اس حسین نام کے پردے میں بجائے آبادی و عمران کے اپنے زیر اثر علاقوں میں لوٹ کھسوٹ اور گارت گری مچا رکھی ہے ۔ لفظ لیبرل ازم کا معنی مقصد آ زادی ہے اور با اعتبار لغت لیبرل وہ شخص ہے جو آزادی چاہتا ہے مگر افسوس کہ یہ لفظ بھی استعمار کے لفظ کے پیچ و خم سے دو چار ہوکر سامراجیوں کے ہاتھوں اک کھلونا بن گیا اور اپنے اصلی معنی یعنی آزادی کا مفہوم کھو بیٹھا ۔ یہ با عزت لفظ اس معنی میں استعمال ہونے لگا کہ انسان تمام انسانی اور الٰہی ذمہ داریوں اور فرائض سے آزاد ہوکر استعمار کی قید و بند میں اسیر ہو جائے ۔
مغربی دنیا میںآج لیبرل ازم کے سایہ میں جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے اور جس کی تقلید تیسری دنیا کے مغرب زدہ افراد کر رہے ہیں اور روشن خیالی کے پرچم کے نیچے جس لیبرل ازم کا نعرہ لگایا جا رہا ہے اس کا مقصد انسانوں کوالٰہی قوانین سے آزاد کرا کے مادیت کا غلام بنانا ہے ۔ مغربی لیبرل ازم در حقیقت انسانوں کو فطرت الٰہی سے حیوانی خصلت کی طرف دعوت دیکر ان کو آزادی کے نام پر ہوا و ہوس اور خدا پرستی سے دور کرکے ثبوت پرستی دور کر کے شہوت پرستی کا شکار بنا دیا ہے ۔
ایران میں اسلام کشی کے سلسلے میں پہلوی حکومت کے اہم منصوبوں میں ایک منصوبہ یہ بھی تھا کہ وہ عوام کو مغربی لیبرل ازم کا شیدا بنا کر انھیں عبادت و عبودیت اور الٰہی قوانین سے دور کر دینا چاہتی تھی جو اسلامی تہذیب کا اصلی سرمایہ ہیں تاکہ سامراجی اپنے ناپاک مقصد سے حاصل کر سکیں ۔ ( اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص ۴۰)
(۵) انقلاب اسلامی کا اصل سبب
حقیقت تو یہ ہے کہ انقلاب اسلامی کا اصلی سبب حکومت اسلامی کے قیام اور حقیقی اسلام کے نفاذ کے سلسلہ میں ملت ایران کا اٹل ارادہ تھا ۔
ملت ایران جو حکومت اسلامی کے قیام کرنے کے سلسلہ میں گذشتہ ایک صدی سے کوشاں تھی اور اس کے لئے اس نے بے انتہا جانی و مالی نقصانات برداشت کئے تھے ۔ اس کے با وجود نہ یہ کہ صرف ناکام رہے ہوں بلکہ انہیں پورے طور سے یہ احساس ہو چلا تھا کہ سامراجی اور اسلام دشمن عناصر نے اس مدت میں جو تجربات کی روشنی میں انہوں نے اسلام مٹانے کے لئے جو منصوبے تیار کر لئے ہیں ان کی مدد سے اب تو وہ بڑی آسانی سے اسلامی تہذیب و ثقافت کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں ۔
ان حالات میں اب توحق کے لئے جد و جہد کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ سکتا اور قیام حکومت اسلامی کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور اس وقت اور پختہ ہو گیا جب پہلوی حکومت کو ایران میں اسلام مٹانے کی ذمہ داری سونپی گئی اور پہلوی حکومت نے اس سازش کو کامیاب بنانے کے لئے سامراجیوں کے بنائے ہوئے منصوبوں پر سختی کے ساتھ عمل کرنا بھی شروع کر دیا اور خود شاہ سمیت تمام پٹھو حکام عوام ہی کی گاڑھی کمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمہ تن مصروف ہو گئے ۔
دوسری طرف حقیقی اسلامی طاقتیں نیشنلسٹوں اور دوسرے نام نہاد قومی لیڈروں کے غلط رویے اور روش کے تلخ تجربات کی بنا پر کسی ایسی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لئے ہر گز تیار نہ تھیں جو اسلام سے دور ہویہی وہ وجہ تھی کہ ۲۵ ؍ خرداد ۱۳۳۲ش مطابق ۱۹؍ اگست ۱۹۵۳ء کی فوجی بغاوت سے لیکر ۱۹۶۱ء یعنی امام خمینی ؒ کی تحریک کے آغاز تک اس ملک میں کوئی بھی نمایاں تحریک وجود میں نہ آئی ہر چند نیشنلزم اور کسی حد تک مذہب کے طرفدار تحریک جاری رکھنے کے خواہشمند تھے ۔
لیکن امام خمینیؒ چونکہ حقیقی اسلام کے مظہر تھے اور عوام ان کی تحریک کو الٰہی تحریک سمجھتے تھے اس لئے اسلامی قوتوں کویکجا کرنے اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ امام خمینی ؒ نے ملت ایران کو ، جسے سامراجیوں نے اپنے ہتھکنڈوں کے ذریعہ سیاسی مسائل سے بے پرواہ بنا دیا تھا ، حرکت میں لے آئے اور انھیں پہلوی حکومت اور در حقیقت سامراج سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار کر دیا ۔ یہی وجہ تھی کہ ایرانی عوام نے ۱۵ ؍ خرداد ۱۳۴۲ش مطابق ۵؍ جون ۱۹۶۳ء کو پہلوی حکومت کی جانب سے امام خمینی ؒ کے گرفتار کر لئے جانے کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ایران کی تاریخ میں ایک ایسا عظیم مظاہرہ ثابت کر دیا جو عوامی اور اسلامی ہونے کے اعتبار سے بے نظیر تھا ۔ ایران کی تاریخ میں غیر مذہبی قوتوں کی جانب سے اس طرح کا مظاہرہ دیکھنے میں نہ آیا تھا جیسا کہ پہلے ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ ۱۵ خرداد کا قیام فقط اور فقط مذہبی جذبے کے ماتحت تھا اور ایک ایسی عظیم تحریک کا آغاز تھا جو آخر کار ۲۳ بہمن مطابق ۱۱ فروری ۱۹۷۸ء کو ’’ انقلاب اسلامی ‘‘ کے نام سے کامیاب ہوا ۔ ( ( اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص ۴۳)
(۶) استنتاج :
ان حقائق کی روشنی میں بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ایران کے ’’ اسلامی انقلاب ‘‘ کا اصلی سبب اسلام کے احیاء ،اسلامی حکومت کے قیام اور حقیقی اسلام کے احکام و قوانین کے نفاذ کا وہ جذبہ تھا جس سے ایران کی مسلمان قوم سرشار تھی۔
منابع
(۱)لسان العرب ،علامہ ابن منصور ،ج۱۱،ص ۲۷۰،چاپ ۱۴۳۱
(۲)خرداد ازاسلامی انقلاب کا خونین قیام ،ص۱۴،مرکزتبلیغات پنجمین ساگرہ پیروزی انقلاب اسلامی ایران،چاپ ربیع الاول ۱۴۰۴ھ
(۳)عالمی سہارا رہبر انقلاب نمبر،چاپ نمبر ۹،جون ۲۰۰۷،ہفتہ،دہلی
(۴)اسلامی انقلاب تاریخ حاضر کا عہد آفرین موڑ،ص۲۴
(۵)اسلامی انقلاب تاریخ حاضر کا عہد آفرین موڑ،ص۲۴
(۶)اسلامی انقلاب تاریخ حاضر کا عہد آفرین موڑ،ص۲۴
(۷)اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص ۲۶،سازمان تبلیغات اسلامی،چاپ رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ
(۸)اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص ۲۷،سازمان تبلیغات اسلامی،چاپ رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ
(۹)اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص ۳۱،سازمان تبلیغات اسلامی،چاپ رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ
(۱۰)اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص ۳۲،سازمان تبلیغات اسلامی،چاپ رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ
(۱۱)اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص ۳۵،سازمان تبلیغات اسلامی،چاپ رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ
(۱۲)اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل ص۴۰،سازمان تبلیغات اسلامی،چاپ رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔