تحریر: مرزا حیدر
حوزہ نیوز ایجنسی | امام حسن علیہ السّلام کی زندگی کے تقریباً ۱۷ سال پیامبر اعظم کے ساتھ گزرے، پیامبر اکرم ان تمام ایام میں ان دونوں فرزندوں سے نہایت محبت کرتے اور ہمیشہ افراد زمانہ کو ان دو فرزندوں سے روشناس کرواتے، اسی ذیل میں رسول کی ایک نایاب حدیث امام حسن کے حوالے سے بیان ہوئی رسول الفاظ زمانہ سے ماورا ہوتے ہیں رسول کی نظر وہ دیکھ رہی تھی جو عام نظر دیکھنے سے قاصر تھی رسول نے ایک عجیب و غریب حدیث بیان فرمائی: لَوْ كانَ العَقْلُ رَجُلا لَكانَ الْحَسَن ’’اگر عقل بصورت انسانی جلوہ گر ہو تو وہ یقیناً حسنؑ کی صورت میں جلوہ نما ہوگی، اس حدیث کا رسول کے زمانہ میں تفسیر کرنا اس زمانہ کے افراد کے لئے شاید محال تھا، کیونکہ اس جملہ کی تفسیر محتاج زمان و مکان تھی ۔یعنی کوئی ایسا وقت آنا تھا جب لوگ امام حسنؑ کی عقل پر اشکال کرینگےاوراس وقت رسول کے جملات اس زمانہ کے لئےھادی بنے گےاور لوگوں کو یہ احساس دلائنگے کہ جس ذات پر وہ اشکال کر رہیں وہ کوئی معمولی ذات نہیں بلکہ مجسم عقل ہے، جس سے بے تعقلی کا تصورایک امر محال ہے ۔
امام حسن مجتبیٰ کا دور خلافت اور آپ کا معاویہ کے ساتھ ایسامعاملہ کرنا جسے صلح کا نام دیا گیا تاریخ اسلام کا ایسا انقلابی طریقہ کار تھا جس کی مثال و بدیل ہمیں نہیں ملتی یہ واضح ہے کہ امام کا معاویہ سے صلح کرنا فقط امام حسن ؑ کا رد عمل نا تھا بلکہ اس معاملہ میں امام حسن کے ساتھ ان کے بھایی حسین ابن علیؑ بھی شریک تھے بس فرق یہ تھا کہ امام حسن نے آگے بڑھ کر اس نامہ پر دستخط کئے اور حسین ابن علی نے پیچھے رہ کر امام کا ساتھ دیا, کئی واقعات اس بات کے شاھد ہیں جیسا کہ جب امام حسن کےعمل پر حجر بن عدی نےاشکال کیا تو آگے بڑھ کر امام حسین نےتند نظر سے انہیں خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور وہ خاموش ہو گئے اس بات سے یہ واضح ہے کہ حسن بن علی اس عمل میں تنہا نہ تھے بلکہ حسین بن علی کا مکمل ساتھ تھا ۔
اب یہاں سؤال یہ اٹھتا ہے کہ کیوں امام نے معاویہ سے صلح کی کیوں امام حسین کی طرح قیام نہ کیا ؟ تو تاریخی اعتبار سےسب بڑی وجہ واضح ہے وہ یہ کہ زمانہ امام حسن میں افراد، معاویہ کواصحاب پیامبر و کاتب وحی میں شمار کرتے اور سادہ لوح انسان اتنی آسانی سے معاویہ کی اصل ماھیت و حقیقتت سےآشنائی حاصل نہیں کر سکتا ۔لہاذا معاویہ کا اصل چہرہ آشکار کرنا ناگزیر تھا۔
دوسری جانب اصحاب کی بےوفائی یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جو زمانہ رسول سے اسلام کی اساس و بنا کو کھوکلا کر رہا تھا ، امام علی کی شھادت کے بعد جب لوگ امام حسنؑ کے گرد جمع ہوئے اور ان سے وفائے عھد کے دعوے کئے تو امام نے فرمایا : کذبتم واللہ ما وفیتم لمن کان خیرا منی فکیف تفون لی أو کیف أطمئن الیکم ولا أثق بکم ’’تم جھوٹ بول رہے ہو اگر تم وفادار ہوتے تو اس کے ساتھ وفا کرتے جو مجھ سے زیادہ بہتر تھا (امیرالمؤمنین) تو جب تم نے اس سے وفا نہ کی تو مجھ سے تم کیسے وفا کروگے اور میں کیسے تمہارے اس دعوے پر مطمئن ہو جاؤاور وثوق حاصل کروں ‘‘۔ امام کا یہ خدشہ بھی تعبیر پذیر ہوا اور اصحاب امام نے امام کا ساتھ چھوڑ دیا ۔
شیخ مفید کے بقول صلح نامہ کی ابتدا یہاں سے ہوئی کہ جنگ سے قبل تمام حیلہ و سازشوں کے بعد معاویہ دستخط کئے ہوئے صلح نامہ کے ساتھ بروز جمعہ نخیلہ پہنچا اور بھرے مجمع میں بعد نماز جمعہ خطبہ دیا اور کہا میری تم سے نماز ،روزہ، حج و زکاۃ کے لئے جنگ نہیں کیونکہ میں جانتا ہوںآپ اہل نماز و روزہ ہیں میری جنگ اس خاطر ہے تاکہ میں آپ پر اپنے حق و سلطہ کو ثابت کردوں اور میں نےحسن بن علی کو صلح کی دعوت دی ہے ۔۔۔۔‘‘ ۔ خطبہ کے اس فقرہ سے یہ بات واضح ہے کہ معاویہ خود کولایق خلافت گردانتا تھا اور اپنے آپ کو علی بن ابی طالب کے مد مقابل سمجھتا تھا حضرت علیؑ کے زمانہ میں اس کی کارکردگی اس بات کی شاھد ہے اور ساتھ ہی وہ حیلہ بھی جو جنگ صفین میں قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کر کےچلا تھا امام حسن سے جنگ سے پہلے ہی صلح کی صورت انجام دیا اور جنگ سے خستہ افراد پر یہ واضح کر دیا کہ وہ جنگ نہیں چاہتا جیسا کہ صفین میں قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کر کے لوگوں پر یہ ظاھر کیا تھا کہ وہ جنگ نہیں چاہتا بلکہ قرآن مجید سے فیصلہ چاہتا ہے !!پس یہاں صلح نامہ کے بعد اگر امام حسن ؑجنگ پر مذر رہے تو معاویہ تمام عالم میں یہ منادی کر وا دے گا کہ دیکھو بنی ھاشم حکومت کے خواہاں ہیں اور اس طلب میں انہیں مسلمانوں کی جان کی کوئی فکر نہیں اور ھدایت بشر فقط ایک بہانہ ہے تاکہ دنیاوی حکومت کا حصول ہو سکے جبکہ میں معاویہ، نے امام کو صلح کی دعوت دی ہے ۔
تحلیل حال یہ ہے اگر امام (ع) جنگ میں داخل ہوتے تو صورت حال دو امکانات میں سے ایک ہوتی: فتح یا شکست۔
پہلا پہلو فتح ہے:
اب چونکہ معاویہ نے ابتدا میں صلح کی تجویز پیش کی تھی، اگر امام علیہ السلام جنگ جیت بھی جاتے تو آج ہر شخص اسلام اور اس کے قائدین کی سخت تصویر پیش کرتا۔دوسری جانب لوگ جنگ پر آمادہ نہ تھے جیسے کہ ابن أثیراپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں بیان کرتے ہیں کہ صلح نامہ کے ملنے کے بعد امام حسن اپنی فوج کے سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا : ألا أنّ معاویة دعانا لأمر لیس فیه عزّ ولانصفة، فإن أردتم الموت رددناه علیه و حاکمناه علی الله –عزّوجل- بظبی السیوف و إن أردتم الحیاة قبلناه و أخذنا لکم الرضی. فناداه النّاس من کلّ جانب: البقیّة، البقیّة۔
جان لو کہ معاویہ نے مجھے ایسی دعوت دی ہے جس میں نہ عزت ہے اور نہ انصاف، اب اگر تم قتل ہونے اور عزت سے مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ تو میں اس کی دعوت کو ٹھکرا دوں گا اور اگر تم اپنی دنیا سے محبت کرتے ہو اور ذلت کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو تو میں اس کی دعوت کو قبول کر کے تمہارا اطمینان حاصل کروں گا۔ اس وقت وہ پکار اٹھے: زندگی، زندگی (دنیا میں رہنے کے لیے)۔
دوسرا پہلو شکست
شکست کی دو صورتیں ہیں پہلی یا تو امام جنگ کرتے اور جنگ میں شکست کھاتے یہ صورت عقلا و شریعت مقدس کی رو سے ممدوح ہے اور اس میں کوئی قباہت نہیں لیکن شکست کی دوسری صورت یہ ہے کہ آپ جنگ میں داخل ہونے سے پہلے جان لیں کہ آپ ہاریں گے، اور اس قسم کی شکست خودکشی ہےیعنی ، مالی اور انسانی وسائل کو تباہ کرنااور یہ صورت عقل و شرع دونوں اعتبار سے مذموم ہے ۔
امام حسن کے حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام اگر جنگ میں داخل ہوتے تو شکست کی دوسری صورت ہوتی چونکہ امام جانتے تھے کہ اگر جنگ میں شرکت کی تو یقینا شکست ہوگی ۔
اب یہاں ممکن ہےتاریخ کے ظریف پہلوؤں پر نظر نہ رکھنے والےسادہ ذھن بشر میں یہ خدشہ خطور کرے کہ امام حسین کے زمانہ میں بھی یہی حال تھا جبکہ امام حسین ؑ نے جنگ میں حصہ لیا ؟ لیکن اگر ان ظریف پہلوؤں پر نظر کی جائے تو بات واضح ہو گی کہ امام حسن اور امام حسین کے زمانہ میں نہایت اختلاف ہے امام حسین کے زمانہ میں بنی امیہ کی حکومت کا اصل چہرہ اور ان کے ناپاک ارادہ لوگوں کے سامنے کھل کر عیاں ہو گئے تھے پس ایک ضرب رہ گئ تھی جو امام حسینؑ نے اپنی اور اپنی ساتھیوں کی قربانی دے کر کےبنی امیہ کی حکومت کا قلعہ ومہ کر دیا !!
دوسرے اعتبار سے اگر امام حسن ؑ یہ جانتے ہوئے کہ وہ شکست کھائے گے جنگ میں داخل ہو جاتے تو معاویہ امام کو قتل نا کرتا اور نہ ہی انہیں اسیر کرتا بلکہ امام کو آزاد کر کے وجاہت اہلبیت و رسول کو نابود کر دیتا اور اس زمانہ کا بدلہ لے لیتا جب رسول اکرم نے معاویہ کے خاندان والوں کو فَاذْهَبُوا فَأنْتُمُ الطُّلَقاء کہہ کر آزاد کر دیا تھا اور رہتی دنیا تک اس خاندا ن پر ابناء الطلقاء کی مہر لگا دی تھی ، یہ یقینا ایک ظریف پہلو تھا ،معاویہ اس چال سے بنی امیہ کی وجاہت چاہتا تھا لیکن اس نکتہ پر امام کی نظر تھی ۔ دوسری جانب معاویہ کا صلح نامہ کی تجویز پیش کرنا تو صرف ایک سازش تھی اس کا گمان تھا کہ امام اس معاملہ پر اپنی مہر نہیں لگائے گیں اور جنگ میں داخل ہو جائنگے اور اگر وہ صلح کرتے ہیں تو معاویہ اپنے باطل ارادوں میں کامیاب ہو جائےگا ۔
لیکن امام حسنؑ نے اس صلح نامہ پر ایسے ظریف و شائستہ شرایط رکھے جس سے بنی امیہ کے باطل قدم متزلزل ہو گئے اور معاویہ اپنے باطل ارادوں میں کامیاب نا ہو سکا گر چہ معاویہ نے ان شرایط کی پابندی نہ کی اس کےباوجود امام نے ان شرایط سے امام حسین کی راہوں کو ھموار کیا اور بعد امام حسنؑ ، امام حسین کی قربانی جو رنگ لائ اور نتیجہ بخش تھی وہ امام حسن کی دور نظری اور تعقلی تھی وگرنہ امام حسین کے زمانہ میں بھی وہی حال ہوتا جو امام حسن کے زمانہ کے حالات تھے۔
یہی وجہ تھی کہ جب ابو سعید نے امام سے صلح نامہ کو قبول کرنے پر سؤال کیا تو امام نے فرمایا اے ابو سعید کیا تم نے رسول سےنہیں سنا : حسن و حسین دونوں امام ہیں قام او قعد اور پھر فرمایا جس طرح رسول نے قبیلہ بنی ضمرہ و قبیلہ اشجع اور مکہ والوں سے صلح کی تھی یہ صلح بھی ویسی ہی ہئ بس فرق یہ ہے کہ رسول نے ان سے صلح تب کی تھی جب وہ نزول قرآن کےمخالف و کافر تھے اور آج میری بنی امیہ سے صلح اس لئے ہے کیونکہ وہ تفسیر و تأویل قرآن کے کافر ہیں !! امام حسن نے اس کارنامہ سے نہ صرف شیعہ حضرات کی جان پچایی بلکہ اسلام اور خدا و رسول کی وجاھت کو بھی خطرے میں پڑنے سے بچایا !!
پروردگار سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسا ایمان عطا کرے جس میں ہم اپنے آئمہ پر شک وشبہات نہ کریں کیونکہ ایمان کی تکمیل ہی یہی ہے جیسا کہ اصول کافی میں بیان ہے : لا یَکُونُ العَبْدُ مُؤمِناً حَتّی یَعْرِفَ اللهَ وَ رَسُولَهُ وَ الْأئِمَّةَ کُلَّهُمْ وَ إمامَ زَمانِهِ وَ یَرُدَّ إلَیْهِ وَ یُسَلِّمَ لَهُ بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ خدا، اس کے رسول اور تمام ائمہ اور اپنے زمانے کے اماموں کا علم نہ رکھتا ہو اور ان سے رجوع نہ کرتا ہو اور ان کے تابع نہ ہو۔
آپ کا تبصرہ