ہفتہ 8 فروری 2025 - 10:33
ماڈرن زمانے کی دوڑ میں کھوئے ہوئے انسان کی حقیقت!

حوزہ/آج کے جدید دور میں انسان اپنی ذات کو سمجھنے اور پہچاننے کے بجائے دنیا کی چمک دمک اور فریب میں عجیب طرح سے کھو گیا ہے؛ سوشل میڈیا، ٹیکنالوجی اور بے شمار ذرائع سے ملنے والی معلومات نے انسان کو اتنا مشغول کر دیا ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے بیگانہ ہو چکا ہے خود کی تلاش ایک ایسی ضرورت بن چکی ہے جسے انسان روز بروز نظر انداز کرتا جا رہا ہے، اور اس کی قیمت اُس کی ذہنی سکون اور خوشی کی صورت میں ادا ہو رہی ہے۔

تحریر: ملک توفیق حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| آج کے جدید دور میں انسان اپنی ذات کو سمجھنے اور پہچاننے کے بجائے دنیا کی چمک دمک اور فریب میں عجیب طرح سے کھو گیا ہے؛ سوشل میڈیا، ٹیکنالوجی اور بے شمار ذرائع سے ملنے والی معلومات نے انسان کو اتنا مشغول کر دیا ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے بیگانہ ہو چکا ہے خود کی تلاش ایک ایسی ضرورت بن چکی ہے جسے انسان روز بروز نظر انداز کرتا جا رہا ہے اور اس کی قیمت اُس کی ذہنی سکون اور خوشی کی صورت میں ادا ہو رہی ہے؛ اس جدید دور میں انسان کھوئی ہوئی معمولی چیز کو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اخبارات، سوشل میڈیا، نیوز ایجنسیوں کو مطلع کرتا ہے حتی FIR بھی اندراج کرواتا ہے، لیکن اپنے واسطے کچھ کرنے سے قاصر کیوں؟ کھویا رہنا ایسا مرض ہے جو طاقتور ترین انسان کو منٹوں میں توڑ دیتا ہے، منٹوں میں ہر خوشی کو چکنا چور کرتا ہے خود کی تلاش انسان کی اصل حقیقت ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں ہم اپنے اندر کی دنیا کو نظر انداز کرتے ہوئے، باہر کی دنیا کی طرف دوڑتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور نیوز ایجنسیوں کی آفاقی موجودگی نے ہماری زندگیوں کو ایسے پیچیدہ بنا دیا ہے کہ ہم خود سے بے خبر ہو گئے ہیں۔ ہر روز کی خبروں، اپ ڈیٹس، اور فالوورز کی دوڑ نے ہمیں اس قدر مشغول کر لیا ہے کہ ہم اپنی اصل ضروریات اور جذبات کو سمجھنے سے قاصر رہ گئے؛ مظفر وارثی کے بقول:

سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہیں لاشوں کی طرح

اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے

آج کل سوشل میڈیا نے بھی انسان کی زندگی میں ایک نیا پہلو شامل کیا ہے، مگر اس کا اثر صرف سطحی خوشیوں تک محدود نہیں رہا۔ اس نے انسان کو ایسا ماحول دیا ہے جہاں "لائکس"، "شیئرز" اور "فالوورز" کی دوڑ نے اس کی حقیقت کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ لوگوں نے اپنی زندگی کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو دوسروں کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا، لیکن یہ نہ جانتے ہوئے کہ اس سے خود کی اصلی پہچان دھندلا گئی۔ سوشل میڈیا نے انسان کو اپنے اندر کی دنیا سے دور کر دیا ہے اور اس کی شناخت کو باہر کی دنیا کی بنیادوں پر استوار کر دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے اصل جذبات اور خواہشات سے بیگانہ ہو گیا ہے۔آج کے دور میں انسان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ صرف دنیاوی کامیابیاں اور مشغولیات ہی سکون اور خوشی کی ضمانت نہیں بن سکتیں۔ انسان خود کو وقت دینا چاہئے اپنے اندر جھانکنا چاہیے، اپنی ذات کے ساتھ جڑنا چاہیے، اور اس کے بعد ہی وہ حقیقی خوشی اور سکون حاصل کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان سوشل میڈیا یا دوسرے ذرائع سے دور ہو جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو پہچانے اور ان تمام چیزوں سے آزاد ہو کر اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دے ،ہم نے اس نے بیرونی دنیا کے فریب میں اپنے اندر کی حقیقت کو بھلا دیا ہے اگر انسان سچائی اور سکون کی خواہش رکھتا ہے تو اسے اپنے اندر کی دنیا کو سمجھنے اور اس سے جڑنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کو حقیقت میں خوشحال اور کامیاب بنا سکتا ہے۔

انسان نے ہر چیز کے حصول میں جو بے شمار جدوجہد کی، اس کا نتیجہ دراصل اس کی داخلی حقیقت سے دوری کی صورت میں نکلا۔ جتنی تیز رفتاری سے وہ جدید سے جدید تر ہونے کی کوشش کرتا گیا، اتنا ہی وہ اپنی ذات کی گہرائیوں سے بیگانہ ہوتا چلا گیا۔ دنیا کی چمک دمک، کامیابی کی دوڑ، اور ہر لمحہ بڑھتی ہوئی مشغولیات نے اسے اس قدر مغرور اور بے خود بنا دیا کہ وہ خود کو اپنی حقیقت سے بے خبرکر بیٹھا۔ ہزاروں دوستوں، جان پہچان والوں اور بے شمار روابط کے باوجودانسان ہر لمحہ اپنے اندر کی تنہائی کا شکار رہتا ہے۔ اس کی زندگی کی ہر محفل میں ایک خلا، ایک سناٹا چھپا ہوتا ہے، جو اس کی روح کی گہرائیوں میں ان کی کہی کہانیاں سنا رہا ہوتا ہے۔آج کا انسان اپنی خود ساختہ دنیا میں گم ہے، اس کی حقیقت باہر کی دنیا کے فریبوں میں دفن ہو چکی ہے۔ وہ اپنی اصل کو جاننے کے بجائے، دنیا کی جھوٹی چمک میں اپنی شناخت تلاش کرتا ہے۔ وہ اس سمندر میں غرق ہے جہاں ہر لہر ایک نئی الجھن، ایک نئی مشغولیت بن کر اس کی ذات کو مزید دھندلا کر دیتی ہے۔ وہ اتنا کھو چکا ہے کہ اپنی ذات کا کوئی سراغ تک نہیں پاتا، اور یہ کھو جانے کا عمل اس کی زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہو چکا ہے۔ وہ اپنی حقیقت کے کھوج میں اتنا محو ہے کہ اب وہ خود کو ہی تلاش نہیں کر پاتا، اور اس کا ہر لمحہ، ہر قدم اس کے اندر کی خاموش پکار کے باوجود، اس کی ذات سے دوری کی ایک نئی داستان سنا رہا ہوتا ہے۔پرانے زمانے میں لوگ اپنی زندگی کے لمحے خدا کی عبادت اور مخلوق کی خدمت میں گزار دیتے تھے ان کی محنت صرف اپنے اور دوسروں کے پیٹ بھرنے تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ روحانی سکون اور فلاح کی تلاش میں جیتے تھے۔ مگر آج کا انسان صرف اپنے ذاتی مفاد کی فکر میں گم ہے، اور اس کی یہ دوڑ اس کی ذات کو مزید خالی کر دیتی ہے۔ نہ خدا کی رضا ملتی ہے، نہ انسانیت کے ساتھ تعلق استوار ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی حقیقت سے جڑ پاتا ہے؛ اپنی خواہشوں کے پیچھے اتنے محو ہیں کہ دوسروں کی خوشی کو روندتے ہوئے اپنی خوشی کی تلاش کرتے ہیں۔ یہی خود غرضی اور دوسرے کی خوشی کے قتل کا عمل ہماری بے سکونی کا سب سے بڑا سبب بن چکا ہے اور ہم خود اپنے آپ کو پریشانیوں کے گہرے گڑھے میں ڈوبو چکے ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha