منگل 18 مارچ 2025 - 17:01
عقیدۂ توحید: دین کی بنیاد

حوزہ/اسلام کی سب سے بنیادی اور اہم حقیقت توحید ہے۔ یہی وہ پہلا اصول ہے جس پر ایمان و عمل کی پوری عمارت قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین کے بغیر نہ کوئی عبادت معتبر ہے ، نہ کوئی عقیدہ ، اور نہ ہی کوئی نیکی قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔ قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات یہی ثابت کرتی ہیں کہ توحید کے بغیر کسی عمل کی کوئی حیثیت نہیں۔

تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین سید کرامت حسین جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| اسلام کی سب سے بنیادی اور اہم حقیقت توحید ہے۔ یہی وہ پہلا اصول ہے جس پر ایمان و عمل کی پوری عمارت قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین کے بغیر نہ کوئی عبادت معتبر ہے ، نہ کوئی عقیدہ ، اور نہ ہی کوئی نیکی قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔ قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات یہی ثابت کرتی ہیں کہ توحید کے بغیر کسی عمل کی کوئی حیثیت نہیں۔

توحید: ایمان کی پہلی شرط

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ”(اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ ہے اور سب کا قائم رکھنے والا ہے۔) (سورہ البقرہ: 255)
اسی طرح ارشاد ہے:“وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ”(اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔) (سورہ البقرہ: 163)
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ایمان کی بنیاد اللہ کی وحدانیت ہے۔ اگر توحید پر ایمان نہ ہو، تو دین کا کوئی بھی حصہ معتبر نہیں رہتا۔

توحید اور دین کے دیگر اصول

اسلام کے تمام اصول و فروع، یعنی نماز، روزہ، حج، زکات، جہاد اور دیگر عبادات سب توحید پر مبنی ہیں۔ اگر کسی کے عقیدے میں توحید کی کمی ہو تو اس کے تمام اعمال بے معنی ہو جاتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:“اَلتَّوْحِيْدُ رَأْسُ الدِّيْنِ”(توحید دین کا سر ہے۔)

امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:“مَنْ عَرَفَ اللّٰهَ وَوَحَّدَهُ، وَعَرَفَ رَسُوْلَهُ وَوَالَاهُ، وَعَرَفَ اِمَامَهُ وَاتَّبَعَهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ”(جو اللہ کو پہچانے اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کرے، رسول کو پہچانے اور ان سے محبت کرے، اور امام کو پہچان کر ان کی پیروی کرے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔)

یہی وجہ ہے کہ اہل بیتؑ سے محبت اور ولایت صرف تب فائدہ مند ہے جب وہ توحید کی بنیاد پر ہو۔

توحید : نہ غلو اور نہ ناصبیت و شدت پسندی

عقیدۂ توحید ایک انتہائی نازک اور اہم مسئلہ ہے۔ اگر اس میں ذرا سی بھی غلطی اور لغزش ہو جائے تو انسان کو شرک یا شدت پسندی میں جا گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے، کچھ لوگ غلو میں جا کر اللہ کے برگزیدہ بندوں کو الوہیت کے درجے تک پہنچا دیتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اللہ کی مخلوق کی عزت و احترام اور خدا تک پہونچنے میں اُن کے وسیلے کو بھی شرک قرار دینے لگتے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا کہ کچھ لوگوں نے اللہ کی عظمت کو اس قدر محدود کر دیا کہ انہیں بات بات میں شرک نظر آنے لگا۔ اُن لوگوں نے اللہ کے فضل و کرم اور اس کی لامحدود قدرت کو سمجھنے سے قاصر ہونے کی بنا پر ، انبیاء و اولیاء کے اختیارات اور فضائل سے انکار شروع کر دیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو جو عزت اور مقام دیا ہے، وہ خود اللہ کی قدرت کا اظہار ہے۔

غلو اور ناصبیت :

بنی امیہ کے وارث معاویہ نے امام علیؑ کی دشمنی اور اسلام کی بیخ کنی میں ایک ایسا فرقہ تیار کیا جسے نصیری اور غالی کہا جاتا ہے۔ اور ایسی جعلی احادیث اور روایات گھڑ کے اس فرقے میں رائج کی گئیں کہ جن میں امام علیؑ کو (نعوذ باللہ) الوہیت کے درجے تک پہنچا دیا گیا۔ بظاہر یہ امام علیؑ اور اہل بیتؑ کی محبت کے نام پر کیا گیا، لیکن حقیقت میں یہ اسلام کو بگاڑنے کی ایک چال تھی۔ اس سازش کا نتیجہ یہ نکلا کہ کم علم لوگ شرک اور غلو میں جا پھنسے اور یوں نصیری اور غالیوں کا ایک نیا فرقہ وجود میں آگیا۔

جبکہ حضرت علیؑ نے خود سختی سے اس عقیدے کی مخالفت کی اور فرمایا:“إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِيَّ، كَمَا غَلَتِ النَّصَارَى فِي ابْنِ مَرْيَمَ، فَإِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَابْنُ أَمَتِهِ”(میرے بارے میں غلو نہ کرو، جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں غلو کیا۔ میں اللہ کا بندہ اور اس کی کنیز کا بیٹا ہوں۔) (نہج البلاغہ)

دوسری طرف ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوھاب جیسے لوگوں نے اسلام میں ناصبیت اور شدت پسندی کو رواج دیا۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو اتنا سخت بنا دیا کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں کی عزت اور محبت کو بھی شرک قرار دینے لگے۔

یہ لوگ دراصل یہودی اور عیسائی استعماری طاقتوں کے آلۂ کار تھے ، مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق پیدا کرنے اور ایسے نظریات عام کرنے جو مسلمانوں کو انبیاء و اولیاء سے دور کر دیں کے لیے ان لوگوں کو باقائدہ تیار کیا گیا تھا اور انہیں اسلامی مقدس لباس جبہ و دستار سے ملبس کر کے مسلمانوں میں محترم مقام پر بٹھایا گیا ۔

ان لوگوں نے نبوت و امامت کی حیثیت کو کمزور کرنے اور امت مسلمہ کو انبیاء و اولیاء سے دور کرنے کے لیے ناصبیت کو فروغ دیا۔ آج انہی نظریات کا نتیجہ داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے، جو اسلام کے نام پر خونریزی کر رہے ہیں۔

جبکہ قرآن واضح طور پر کہتا ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ

ترجمہ:“اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس (تک پہنچنے) کے لیے وسیلہ تلاش کرو ”

یہ آیت وسیلہ (اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ) اختیار کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے، جو اسلامی عقیدے میں دعا، عبادات، اور برگزیدہ ہستیوں کے توسط سے قربِ الٰہی حاصل کرنے کے مفہوم کو بیان کرتی ہے
“أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ”
(خبردار! بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔) (سورہ یونس: 62)

انبیاء ، اولیاء اور نبی ص اور آپ کے اہل بیتؑ کی محبت ایمان کا حصہ ہے، شرک نہیں۔

امام علیؑ کے خطبات میں توحید

حضرت علیؑ نے توحید کی حقیقت کو بہترین انداز میں بیان کیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:“لَمْ يُولَدْ فَيَكُونَ فِي العِزِّ مُشَارِكًا، وَلَمْ يُولَدْ فَيَكُونَ مَوْرُوثًا هَالِكًا”(نہ وہ کسی سے پیدا ہوا کہ اس کا کوئی شریک ہو، اور نہ وہ خود پیدا ہوا کہ فنا ہونے والا ہو۔) (نہج البلاغہ، خطبہ 1)

آپؑ مزید فرماتے ہیں:“مَنْ عَبَدَ اللَّهَ بِالتَّوَهُّمِ فَقَدْ كَفَرَ، وَمَنْ عَبَدَهُ بِالتَّشْبِيهِ فَقَدْ أَشْرَكَ”(جو اللہ کی عبادت وہم و گمان کے ساتھ کرے وہ کافر ہے، اور جو اسے کسی مخلوق سے تشبیہ دے وہ مشرک ہے۔) (نہج البلاغہ، خطبہ 186)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عقیدۂ توحید اسلام کی بنیادی شرط ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ غلو میں پڑیں، نہ شدت پسندی میں۔ ہمارا معیار قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہیں، نہ کہ غالیوں کے باطل نظریات اور ناصبیت کے استعماری ایجنڈے۔

توحید کے تعلق سے ہمارے پاس امام علیؑ کے خطبات ارشادات اور آپ کی سیرت کے بہترین نمونے موجود ہیں جنہیں اپنا کر ہم اپنے ایمان کو ناصبیت اور شرک و غلو کی نجاست سے پاک رکھ سکتے ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha