تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری، مدیر شعور ولایت فاونڈیشن
حوزہ نیوز ایجنسی | امام حسن مجتبی علیہ السلام انتہائی مظلوم شخصیت کا نام ہے ، دوسروں کو چھوڑئیے خود اپنوں نے آپ کی شخصیت کی شناخت میں کوتاہی سے کام لیا ہے اور کما حقہ معرفت حاصل نہیں کی ہے ،آپ کے حالات زندگی کے بارے میں لکھاتو بہت کچھ گیا ہے لیکن مختلف سطح اور رجحانات کے مختلف لوگوں نے مختلف انداز سے آپ کی شخصیت اور حالات زندگی پر قلم فرسائی کی ہے، جس کی وجہ سے حقائق گڈمڈ ہو کر رہ گئے ہیں ۔ آپ کے نازش آفریں کارنامہ''صلح '' کی بھی یہی صورت حال ہے ، سب نے اپنے اپنے انداز فکر سے صفحہ ٔ قرطاس کو سیاہ کیاہے ۔
کچھ لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ امام حسن علیہ السلام نے اس لئے صلح کی تھی کہ وہ راحت طلب ، آرام پسند اور عیش و عشرت کی زندگی گذار نے کے روادار تھے ۔ یہ قول تاریخ میں کسی قسم کی اہمیت کا حامل نہیں اس لئے کہ مستشرقین اور کچھ جدید دور کے لکھنے والوں نے انتہائی کمزور روایتوں کو بنیاد بناکر اس طرح کی خیال آرائیاں کی ہیں ۔(١)
اس کے برخلاف کچھ لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کو امن پسند ، صلح کا حامی اور نرم خو انسان کی حیثیت سے پیش کیا ہے جو شروع سے سیاست و حکومت سے بیزار دکھائی دیتے ہیں اس لئے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان خون کا ایک قطرہ بھی بہنے کے مخالف ہیں۔(٢)اس نظریہ کے پیش نظر امام حسن علیہ السلام کا احترام کیاگیا ہے اور انہیں امت مسلمہ کے درمیان اتحاد کے ایک علمبردار کے طور پر پیش کیاگیا ہے ۔لیکن اگر غور و فکر کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ نتائج ہیں جنہیں تاریخ و سیرت پر قلم اٹھانے والوں نے صلح امام حسن اور اس سے متعلق واقعات و حالات سے اخذ کیا ہے ، لہذا یہ نظریہ بھی اتنا معتبر اور قیمتی نہیں جنتا اعتبار اور وزن خود ان تاریخی حالات و واقعات اور امام حسن علیہ السلام کے سیاسی اقدامات کو حاصل ہے ۔
آئیے ان ذاتی نظریات اور مذہبی تعصبات سے ہٹ کر تاریخی حقائق اور مستند حالات کی روشنی میں امام حسن کی صلح کا جائزہ لیں ۔
صلح ، اسلام کی نظر میں
اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں صرف جنگ و جہاد ہی کا قانون نہیں ہے بلکہ جس طرح دین ایک خاص موقع پر مسلمانوں کو دشمنوں سے جنگ کرنے کا حکم دیتاہے اسی طرح حالات کے پیش نظر صلح کا بھی فرمان دیتاہے ، رسول خدا(ص)کی حیات کا جائزہ لینے سے یہ دونوں رخ سامنے آتے ہیں ، آپ نے جہاں جنگ بدر ، خیبر اور احزاب و حنین کی مثال پیش کی ،وہیں صلح حدیبیہ کا اعلی نمونہ بھی پیش کیا ، جنگ اس لئے کی کہ حالات جنگ کا مطالبہ کر رہے تھے اور صلح اس لئے کی کہ حالات و ماحول صلح کا مطالبہ کر رہے تھے ۔
چنانچہ اسلام کی مصلحت کے پیش نظر جس طرح آنحضرت نے صلح کی ، اسی طرح امام حسن علیہ السلام نے بھی اسلامی مصلحتوں کو پیش نظر رکھ صلح انجام دی ، اس کا اندازہ آپ اس حیثیت سے لگا سکتے ہیں کہ جب معاویہ سے صلح کے اقدام پر ایک شخص نے امام حسن علیہ السلام پر اعتراض کیا تو آپ نے جواب میں رسول خدا(ص)کی صلح کو بعنوان مثال پیش کیا کہ جس دلیل کی بنیاد پر آنحضرت نے صلح کی تھی اسی دلیل کی بنیاد پر میں نے معاویہ سے صلح کی ہے ۔
صلح کے اسباب
امام حسن علیہ السلام کی صلح کے اسباب کو سمجھنے کے لئے اس وقت کے سیاسی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے ، امام حسن علیہ السلام اس وقت کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں :
''اے عراق کے لوگو! مجھے تمہارے ان اشخاص کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے ،جو اس وقت میرے ہمراہ ہیں ؟ یہ قیس کا خط ہے جس نے مجھے آگاہ کیاہے کہ تمہارے شرفاء تک معاویہ سے مل چکے ہیں ، میرے والد کی وفات کے بعد تم خود سے میرے پاس آئے تھے اور اپنی پسند سے میری بیعت کی تھی ....اے عراق کے لوگو! جو کچھ میں تم سے جھیل چکا ہوں وہ کافی ہے ، مجھے میرے دین میں دھوکہ مت دو ...''۔(٣)
ایک دوسری جگہ فرمایا :
'' اس ذات کی قسم !ہمیں اہل شام کے خلاف دوبارہ جنگ شروع کرنے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں لیکن کل جب تم میدان صفین کی جانب جارہے تھے تو تمہارا دین دنیا پر غالب تھا مگر آج تمہارا حال یہ ہے کہ تمہاری دنیا تمہارے دین پر غالب ہے ...''۔(٤)
ایسے ہی آستین کے سانپ سے مجبور ہوکر آپ نے صلح کی تھی ، جس کا آپ نے متعدد مقامات پر اظہار فرمایاتھا ، چنانچہ ایک جگہ جب آپ پر اعتراض کیاگیا تو فرمایا :''میں نے حکومت کی باگ ڈور معاویہ کے حوالے اس لئے کر دی کیونکہ میرے پاس اس سے جنگ کرنے کے لئے اعوان و انصار نہیں تھے ، اگر میرے پاس یاور و انصار ہوتے تو اس سے روز و شب جنگ میں مصروف رہتا یہاں تک کہ بات نتیجے تک پہونچ جاتی ، میں کوفیوں سے بخوبی آشنا ہوں اور بارہا میں نے انہیں آزمایا ہے ، وہ ایسے فاسد لوگ ہیں جو اصلاح نہیں چاہتے نہ وفادار ہیں ، نہ اپنے عہد و پیمان کے پابند ہیں اور نہ ہی ان میں سے دو آدمی بھی آپ میں متحد ہیں ، ظاہری طور سے تو ہمارے لئے اظہار محبت و اطاعت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہیں ''۔(٥)
ان خطبوں سے اس بات کا اندازہ تو ہو ہی جاتاہے کہ امام حسن علیہ السلام کی صلح کا اہم ترین سبب ''انصار کی سستی اور عدم حمایت '' تھی ، چنانچہ صلح کے بعد آپ نے نام نہاد طرفداروں کی مذمت میں جو فرمودات پیش کئے ہیں ان سے حقیقت حال کا پتہ چلتاہے ، ایک جگہ فرمایا :اگر میں معاویہ سے جنگ کرتا تو یہ لوگ میری گردن پکڑ کر اسیر کی طرح مجھے معاویہ کے حوالے کردیتے ۔(٦)
یہ تاریخی اقتباس صلح کے بارے میں امام حسن علیہ السلام کے موقف کی عکاسی کرتا ہے ، آپ نے اس وقت تک صلح پر رضامندی ظاہر نہیں کی جب تک آپ کے سپاہیوں نے اپنی نالائقی کا عملی ثبوت پیش نہ کردیا ، ان کے سرداروں نے آپ سے خیانت نہ کی اور آپ کے سپاہیوں نے آپ کی تمام تر وضاحت کے باوجود آپ سے صلح کا مطالبہ نہ کرلیا۔
آپ قطعی صلح نہیں کرنا چاہتے تھے ، لیکن حالات ایسے پیش آئے کہ صلح کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا کیونکہ آپ شام و عراق کے درمیان جاری اس کشمکش کو ختم کرکے امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق برقرار کرنا چاہتے تھے ۔
صلح کے شرائط
صلح کے شرائط بھی آپ کے اس موقف کی وضاحت کر رہے ہیں ، آپ نے اپنے صلحنامہ میں جہاں اپنے موقف کی وضاحت فرمائی وہیں اس وقت کے سیاسی حالات اور اموی مظالم پر بھی روشنی ڈالی ہے ، یہاں بعض شرائط نقل کئے جارہے ہیں :
١۔حسن بن علی علیہما السلام حکومت کی باگ ڈور اس شرط پر معاویہ کے سپرد کر رہے ہیں کہ معاویہ قرآن مجید اور رسول خدا کی روش پر عمل کرے گا ۔
٢۔ معاویہ کے بعد خلافت و حکومت حسن بن علی علیہما السلام کے سپرد کر دی جائے گی اور معاویہ کو یہ حق نہیں ہوگا کہ اپنے بعد کسی کو جانشین معین کرے۔
٣۔ نماز میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام پر سب و شتم اور لعن طعن نہیں کیاجائے گا اور ان کو صرف نیکی کے ساتھ یاد کیاجائے گا ۔
٤۔ اللہ کی زمین میں اس کے بندوں کو چاہے وہ کہیں بھی ہوں مکمل تحفظ حاصل ہوگا ۔
٥۔ حسن بن علی علیہما السلام اور ان کے بھائی حسین اور رسول خدا ۖ کے خاندان و اہل بیت کے دوسرے افراد کے خلاف کسی قسم کی خفیہ اور علانیہ سازش نہیں کی جائے گی
٦۔ حضرت علی علیہ السلام کے ماننے والوں کی جان ، مال اور عزت کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہونچایاجائے گا ۔(٧)
مذکورہ صلح کے تمام شرائط کے پیش نظر اس وقت کے حالات کو آسانی سے سمجھاجاسکتاہے ، اگر اس وقت امام صلح نہ کرتے تو حضرت علی علیہ السلام کے ماننے والے بے دریغ قتل کردیئے جاتے ، امام نے صلح کرکے جہاں دین اسلام کا تحفظ فرمایا وہیں اپنی اور حضرت علی کے حقیقی چاہنے والوں کی حفاظت بھی کی ، نیز اس صلح کے ذریعہ آپ نے اموی دور سلطنت کا حقیقی چہرہ بھی لوگوں کو دیکھادیا کہ ان کی حکومت کا اصل مقصد کیاہے ، اگر امام علیہ السلام صلح نہ کرتے تو معاویہ کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے نہ آتا، وہ اسلام کا ظاہری لبادہ اوڑھ کر یوں ہی اسلام کے ساتھ کھلواڑ کرتا رہتا لیکن صلح کے بعد لوگ سمجھ گئے کہ اسے اسلام اور اس کی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں ، وہ تو صرف اپنا الو سیدھا کرنا چاہتاہے اور بس۔
نتائج
١۔جس طرح امام حسین علیہ السلام کا قیام دین کی بقا اور اسلام کی حقیقی تصویر کو باقی رکھنے میں کافی موثر ثابت ہوا اسی طرح امام حسن علیہ السلام کی صلح بھی بقائے دین و شریعت اورحقیقی اسلام کو زندہ و پائندہ رکھنے میں کافی موثر ثابت ہوئی ۔امام حسن مجتبی علیہ السلام نے عاقلانہ سیرت و روش کو اختیار کرکے معاویہ سے صلح کر لی جس معاہدہ کی پہلی شرط یہ تھی کہ قرآن کے قانون اور رسول خدا(ص)کی سیرت کی بنیاد پر حکومت کا نظام استوار ہوگا ۔ جس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ امام کا ہدف حکومت کرنا نہیں تھا بلکہ اصلی مقصد اسلامی قوانین کی حفاظت تھا ۔
٢۔ اس وقت کے سیاسی حالات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ امام نے شوق و رغبت کے تحت صلح نہیں کی تھی بلکہ آپ نے مجبوری میں صلح کی تھی ، اگر ان کے سپاہی ان کا بھرپور ساتھ دیتے تو دینی ریاست کی طرح آپ زمام اقتدار بھی اپنے ہاتھ میں رکھتے ۔
٣۔ آپ نے امت مسلمہ کے درمیان وسیع پیمانے پر خون خرابہ ہونے سے روک دیا ، آپ اپنے چاہنے والوں کی جان و مال اور عزت و ناموس کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب رہے اور قرآن و سنت کے کسی اصول سے انحراف بھی نہ کیا ۔
٤۔ مسلمانوں کو امام حسن علیہ السلام کی صلح اور ان کے دوسرے اقدامات سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ انہوں نے کس طرح ملوکیت کی سرگرمیوں کو محدود کردیا اور اپنے قول و فعل کے ذریعہ سے لوگوں کو قرآن و سنت سے دور نہ ہونے دیا ، ان کا اخلاق ،ان کا کردار یہاں تک کہ ان کی آخری وصیت بھی مسلمانوں کو قرآن و سنت پر جمع رہنے اور تفرقہ سے پرہیز کا درس دیتی ہے ۔
منابع و مآخذ
١۔دائرة المعارف اسلامیہ ، مصر ج٧ ص ٤٠٠
٢۔صحیح بخاری ج٢ ص ١١٤، دار المعرفة بیروت
٣۔انساب الاشراف بلاذری ج٣ ص ٣٩؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٦ ص ٢٢
٤۔تاریخ ابن خلدون ج٢ ص ١٨٧
٥۔بحار الانوار ج٤٤ ص ١٤٢
٦۔بحار الانوار ج٤٤ ص ٢٠
٧۔انساب الاشراف ، بلاذری ص ٤٢؛ الاصابة فی تمیز الصحابة ص ٣٣١