۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
جنت البقیع

حوزہ/ امام حسن مجتبی علیہ السلام کو جود و سخا ورثے میں ملی تھی۔ کوئی سائل آپ کے دروازے سے خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا تھا۔ اسی لئے آپ کریم اہلبیت کے نام سے معروف ہیں۔ آپ کی سخاوت کے چند نمونے ہم یہاں پرپیش کررہے ہیں ۔

حوزہ نیوز ایجنسی البدایہ والنہایہ میں ابن کثیر علمائے اہل سنت سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسن (ع) نے ایک غلام کو دیکھا جس کے پاس ایک روٹی تھی جس سے وہ ایک لُقمہ خود کھا رہا تھا اور ایک لقمہ پاس بیٹھے کُتے کو کھِلا رہا تھا۔ امامؑ نے جب یہ منظر دیکھا تو پوچھا: ’’اِس کام کا تجھے کس نے حکم دیا ہے؟‘‘ غلام جواب دیتا ہے: مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ میں خود کھاؤں اور اسے نہ کھلاؤں۔ امام حسن (ع) نے اس سے کہا: ’’کہیں جانا نہیں جب تک میں واپس نہ آؤں۔‘‘ امام  اُس غلام کے مالک کے پاس گئے اور اُس غلام کو اس باغ سمیت جس میں وہ رہتا تھا، خریدا اور پھر اُس کو آزاد کر دیا اور وہ باغ بھی اُسے بخش دیا۔
دیلمی ’’اَعلام الدین‘‘ میں ابنِ عباس سے روایت کرتے ہیں: میں امام حسن ابن علی علیہما السلام کی خدمت میں تھا اور آپؑ مسجد الحرام میں معتکف تھے اور طواف میں مشغول تھے۔ شیعوں میں سے ایک شخص امام (ع) کے پاس آیا اورعرض کی: اے فرزندِ رسولِ میں فلاں شخص کا مقروض ہوں اگر آپؑ مصلحت سمجھیں تو میرا قرض ادا فرما دیں۔ امامؑ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم! اِس گھر میں میرے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘ اُس نے کہا: اگر مصلحت سمجھیں تو اس شخص سے مجھے مہلت لے دیں، کیونکہ اس نے مجھے زندان بھیجنے کی دھمکی دی ہے۔ امامؑ نے طواف چھوڑا اور اُس شخص کے ساتھ چل پڑے۔

میں نے عرض کی: اے فرزندِ رسولِ کیا آپؑ بھول گئے کہ آپؑ حالتِ اعتکاف میں ہیں؟ فرمایا: ’’نہیں، لیکن میں نے اپنے والدِ محترم سے سنا ہے کہ رسولِ خدا فرماتے تھے: جس نے بھی اپنے مومن بھائی کی کوئی حاجت پوری کی گویا وہ ایسے ہے جیسے اُس نے نو ہزار سال تک، دن حالتِ روزہ میں اور رات عبادت میں بسر کی  ہو۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام دوست و دشمن سب کے ساتھ کریمانہ سلوک روا رکھتے تھے۔ ایک دفعہ امام حسنؑ ایک خوبصورت گھوڑے پر سوار تھے کہ ایک شاعر جس نے امامؑ کی ہجو اور مذمّت کی تھی، سامنے آیا اور کہا: اے حسن! کیا خوبصورت گھوڑا ہے! امامؑ نے رکاب سے پاؤں نکالے اور گھوڑا اُسے بخش دیا۔

صلح امام حسن مجتبی (‏ع) کے اسباب : 

باہمی تصفیہ اور رفعِ خصومت کرتے ہوئے دو متخاصم اور متحارب گروہوں میں نئے سرے سے دوستی، اتحاد، میل ملاپ اور امن و امان کے معاہدےکو ’’صُلح‘‘ کہتے ہیں۔ عالَم طبیعت میں پائیداری اور جاودانگی کی بنیاد ’’صلح‘‘ ہے، کیونکہ امن و امان کے قیام سے ہی حق و حقیقت کا بول بالا اور مادی و معنوی ترقی ممکن ہوتی ہے جبکہ صلح کی متضاد، یعنی جنگ اور مخاصمت کی حالت میں ترقی کا راستہ رُک جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں جنگ اور صلح دونوں کے ذریعے امن برقرار کرنے  کی نہایت اہمیت ہے اور اِس سلسلے میں پیغمبر اکرم(ص)  کی جنگیں اور صلح کے تاریخی معاہدے قابلِ ملاحظہ ہیں۔

حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی صلح کے اَسباب بیان کرنے سے پہلے تین نکات کی طرف اشارہ ضروری ہے:

۱۔ بعض لوگوں نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر صلح کے اِس معاہدے کی وجہ سے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام پر بےبنیاد اعتراضات کر کے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو بزدل ظاہر کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔

۲۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے حالات زندگی کے مطالعے سے بخوبی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپؑ پر یہ صلح مسلط کی گئی تھی؛ یعنی ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے تھے کہ امامؑ کے پاس صلح کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور اگر انہیں حالات میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی جگہ کوئی دوسرا بھی ہوتا تو صلح ہی کو انتخاب کرتا۔

۳۔ اِس صلح کے متعلق پیغمبر اکرم(ص) کی پیشین گوئی موجود ہے کہ ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور خداوندِ متعال اِس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا۔‘‘      
حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد عراقی عوام اور کوفہ میں موجود پیغمبر اکرم(ص) کے بزرگ اصحاب نے آغوشِ رسالت کے تربیت یافتہ، آنحضرتؐ کے سبطِ اکبر امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی بیعت کی، جبکہ مصر اور شام میں معاویہ کی حکومت قائم تھی۔ معاویہ نے جس طرح حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا اسی طرح امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی خلافت کو بھی تسلیم نہیں کیا اور حکومتِ علویؑ کے خلاف استعمال کیے گئے تمام حربوں اور چالبازیوں کو امام حسن مجتبیٰؑ کے مقابلے میں بھی جاری رکھا اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے پدرِ بزگوارؑ کی مانند دانشمندانہ حکمتِ عملی سے کام لیتے ہوئے اسلام کے وسیع تر مفادات کی خاطر صلح کا راستہ اختیار کیا۔
۱۔ سستی: جنگِ جمل، صفین اور نہروان کے بعد اہلِ عراق اور بطورِ خاص کوفہ کے لوگوں میں مزید جنگ کا جذبہ اور حوصلہ نہ تھا۔ جب کوفہ کی جانب شام کے لشکر کے بڑھنے کی خبر امام حسن مجتبی کو ملی تو آپ نے لوگوں کو مسجد میں جمع کرکے خطبہ دیا جس کے اختتام پر بھی لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ بالاخر محدود تعداد میں کچھ لوگ تیار ہوئے تو انہیں کوفے کے قریب نخیلہ نامی چھاؤنی میں منتقل کردیا گیا۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے لشکر میں امیرالمؤمنینؑ کے شیعہ، خوارج، موقع پرست افراد، قبائلی تعصُّب اور شک و تردید میں مبتلاء سبھی لوگ شامل تھے۔ امامؑ کے لشکر میں شامل موقع پرست افراد نے اپنے دُنیوی مفاد کی خاطر امامؑ سے خیانت کی اور معاویہ کو اپنی حمایت پر مشتمل خطوط لکھے اور اُسے یقین دلایا کہ جیسے ہی وہ عراق آئے گا یہ لوگ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو گرفتار کر کے معاویہ کے حوالے کر دیں گے یا قتل کر دیں گے۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے عبیداللہ ابن عباس کو ۱۲ ہزار سپاہیوں کے لشکر کا سپہ سالار مقرّر کر کے روانہ کیا اور حکم دیا کہ جہاں دشمن فوج سے سامنا ہو تو اُن کی پیش قدمی کو روکیں، لیکن عبیداللہ نے رات کی تاریکی میں دس لاکھ درہم کے عوض امامؑ سے خیانت کی اور دشمن سے جا ملا، سپہ سالار کی خیانت سے لشکر میں افراتفری پھیل گئی۔ معاویہ نے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے لشکر میں باقی سپہ سالاروں کی خیانت کی جھوٹی افواہیں پھیلا دیں اور جب مدائن میں دشمن فوج کے امامؑ سے مذاکرات ہوئے تو انہوں نے واپسی پر لوگوں میں خود امام حسن مجتبیٰؑ کی معاویہ سے صلح کی افواہ پھیلا دی، جس کے نتیجے میں امامؑ کے لشکر کے غیرسنجیدہ افراد نے آپؑ کے خیمے پر حملہ کر دیا اور سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام جب مدائن سے ساباط کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں خوارج نے آپؑ پر قاتلانہ حملہ کیا جس کے زخم کی شدّت کے باعث آپؑ کو دوبارہ مدائن منتقل کر دیا گیا اور معاویہ نے اِس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے سیاسی صورتِ حال کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور امامؑ کی باقی ماندہ فوج بھی بکھر گئی۔ اب اگر امامؑ جنگ کا عزم کرتے تو اِس جنگ میں امامؑ کے تمام مخلص ساتھی شہید کر دیئے جاتے لہٰذا آپؑ کو مجبوراً صلح کرنا پڑی۔

امام حسن (‏ع) کی ذکاوت  اور شجاعت کی داستان :
عالم تشیّع کے دوسرے پیشوا کی ولادت پندرہ رمضان المبارک کو مدینۃ الرسول میں ہوئی تھی ۔ علی و زہرا کے اس لال کی آمد کی خبر سے رسول اکرم (ص) کا وجود مسرتوں سے لبریز ہوگیا تھا۔ آنحضرت (ص) نے نومولود کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور ساتویں دن مبارک نواسے کے عقیقے کے لیۓ ایک گوسفند کی قربانی کی ، بچے کے بال تراشے اور بالوں کے ہم وزن چاندی کے سکّے ضرورت مندوں میں تقسیم فرمائے۔
امام حسن مجتبی نے سات سال تک اپنے جد کے زیر سایہ زندگی گزاری اور تیس سال والد بزرگوار کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے ۔ سن چالیس ہجری میں امیرالمؤمنین (ع) کی شہادت کے بعد دس سال تک  امامت کی ذمہ داری سنبھالتے رہے ۔ سن پچاس ہجری میں معاویہ کی  دشمنی و سازش کی بنا پر زہر سے شہید کر دیئے گئے ۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 48 سال تھی۔ آپ کی قبر جنت البقیع  نامی قبرستان میں ہے ۔

امام حسن (ع) کے فضائل :
سیوطی اپنی تاریخ میں لکھتا ہے : حسن ابن علی بہت سارے اخلاقی امتیازات  اور  انسانی فضائل  کے حامل تھے ، وہ   عظیم شخصیت کے مالک تھے ، بُردبار، با وقار، متین، سخی، اور ہر ایک کی  تعریف کا مرکز تھے۔ اور بالکل درست بھی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله کے  سبط اکبر کو ایسا ہونا بھی چاہیئے۔
بخاری میں ابو بکر سے منقول ہے : میں نے نبی اکرم صلی الله علیه و آله کو دیکھا کہ آپ  منبر پر تشریف فرما تھے ا ور حسن بن علی بھی آپ کی آغوش میں تھے، آپ   کبھی لوگوں کو دیکھتے تھے اور کبھی حسن کواور فرماتے تھے:  میرا یہ فرزند  سید و سردار ہے۔

عبادت و خوف خدا : 
اولیاء الهی کی کامیابی کا راز بندگی میں پوشیدہ ہے، صحیح معنوں میں بندگی وہ اکسیر ہے جسے پروردگار نے ہر ایک کی دسترس میں رکھا ہے ،  جس سے اکثر لوگ بے خبر اور بے توجہ ہیں، جب کہ ہر طرح کی عزت و سربلندی و افتخار ، بندگی کے ہی زیر سایہ ہے ۔ امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں  : جب کبھی تم  چاہو کہ ، عزت بغیر کسی ہمنوا کے پالو، اور  جاہ و جلال بغیر کسی سلطنت کے حاصل کرلو،  تو تمہیں چاہیئے کہ معصیت خدا کی پستیوں سے باہر نکل آؤ اور  پروردگارکی اطاعت والی عزت کا رُخ کرلو۔ پروردگارکے مقرب بندوں کی مکمل تصویر کا نام، امام حسن مجتبی علیه السلام ہے۔
آپ نے کبھی بھی اور کسی بھی حال میں خدا کو  فراموش نہیں کیااور اپنی  تمام عمر  یاد محبوب  میں گذار دی، دوست کی دوری اور اس کے خوف و عظمت  میں ڈوب کر اشکوں کی فریاد کے ساتھ حاضر رہتے، وضو ہو، حالت نماز ہو ،قرآن کی قرائت کا موقع ہو ... اور اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک ، حتی کہ جب  بستر شهادت  پر تھے،  آپ کے گریه  میں مزید اضافہ ہوگیا،  کسی نے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا آپ گریه فرماتے ہیں جب کہ  آپ محبوب رسول خدا  ہیں، اور آپ نے تو بیس بار پا پیادہ حج کرنے کا ثواب حاصل کیا ہے؛ آپ نے ارشاد فرمایا: میرا گریہ دو چیزوں کی وجہ سے ہے؛ جو سفر درپیش ہے اسکی وحشت سے، اور  اپنے چاہنے والوں کی جدائی سے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .