تحریر : مولانا سید ذاکر حسین جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی । حضرت امام حسن (ع) کی ولادت رسول اکرم (ص)کے گھرمیں اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی
حضرت امام حسن مجتبی (ع)15/ رمضان 3 ہجری کی شب مدینہ منورہ میں پیداہوئے، حضرت امام حسن (ع) کی ولادت رسول اکرم (ص)کے گھرمیں اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔
آپ کی ولادت نے رسول اکرم (ص)کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کردیا اور دنیاکے سامنے سورہ کوثرکی ایک عملی اوربنیادی تفسیر پیش کردی۔
حضرت امام حسن (ع) کی ولادت کے بعد آپ کا اسم گرامی حمزہ تجویز کیا جارہا تھا لیکن سرور کائنات نے خدا کے حکم سے،حضرت موسی (ع)کے وزیر حضرت ہارون کے فرزندوں کے شبروشبیرنام پرآپ کانام حسن اوربعد میں آپ کے بھائی کانام حسین رکھا۔
علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن(ع) کی ولادت ہوئی اورآپ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تورسول کریم (ص)بہت ہی خوش ہوئے اوران کے دہن مبارک میں اپنی زبان اقدس دیدی ۔ آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کوآغوش میں لے کرپیارکیااورداہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہنے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسن (ع) زبان رسالتمآب کوچوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایااس کواوراس کی اولادکواپنی پناہ میں رکھنا ۔
ابو محمد، اور سبط اکبر، زکی، مجبتی آپ کے مشہور القاب تھے، پیغمبر اسلام کو حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کے ساتھ خاص محبت اور الفت تھی۔ جب تک پیغمبر اسلام زندہ تھے امام حسن وامام حسین علیہماالسلام ان کے ہمراہ تھے۔
امام بخاری اورامام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خداامام حسن کوکندھے پربٹھائے ہوئے فرمارہے تھے خدایامیں اسے دوست رکھتاہوں توبھی اس سے محبت کر ۔
امام حسن مجتبيٰ علیہ السلام باوقار اور متین شخصیت کے حامل تھے۔ آپ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ راتوں کو ان کے درمیان کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ اسی لئے سارے لوگ بھی آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں دو بار اپنی ساری دولت و ثروت غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کردی تھی۔ تین بار اپنی جائد اد کو وقف کیا تھا جس میں سے آدھی اپنے لئے اور آدھی راہ خدا میں بخش دی تھی۔
حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں : "مجھے تعجب ہے اس شخص پر کہ جو جسمانی غذا کے متعلق توغور و فکر کرتا ہے لیکن روحانی غذا کے لئے نہیں ۔ نقصان دہ غذاؤں کو اپنے شکم سے دور رکھتا ہے لیکن ہلاک کرنے والے مطالب کو اپنے قلب میں جگہ دیتا ہے " ۔
حضرت امام حسن مجتبی (ع) نے معاویہ کے سیاسی و نفسیاتی دباؤ اور صلح قبول کرنے کے بعد عوام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: معاویہ یہ تصور کرتا ہے کہ شاید میں اسے خلافت کے لئے سزاوار سمجھتا ہوں اور میں خود اس کا اہل نہیں ہوں معاویہ جھوٹ بولتا ہے ہم کتاب خدا اور پیغمبر اسلام کے حکم کے مطابق خلافت اور حکومت کے سب سے زيادہ حقدار اور سزاوار ہیں اور پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد سے ہی ہم پر ظلم و ستم کا آغاز ہوگیا۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے صلح کرکے معاویہ کا مکروہ چہرہ دنیائے اسلام کے سامنے پیش کردیا۔