۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں جشن مولود امام حسن (ع) کا انعقاد

حوزہ/ رہبرمعظم حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی نے اپنی مسلسل تقاریر میں فرمایا: امام حسن ؑ کی ذات وہ بے مثال ذات وصفات ہے جسکی تاریخ میں نظیر نہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قرآن وعترت فاونڈیشن کے بانی وموسس حجۃالاسلام والمسلمین سید شمع محمد رضوی کی اطلاع کے مطابق، ۱۴ رمضان المبارک ۱۴۴۲ہجری میں حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای،بھیک پور،بہارمیں ولادت امام حسنؑ کے موقع پر ایک زبردست علمی فکری،ثقافی،اورایک عالی جشن کااہتمام کیا گیا۔

مولانا موصوف نے کہا کہ اس وباکے زمانے میں آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چاہنے والوں پر مزید سنگین ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسےماحول کوعلمی،فکری،دینی اورثقافتی ماحول سےرونق بخشیں ،ایمہؑ کی سیرت کامطالعہ فرماکرلوگوں میں خدمت کاجذبہ عنایت کریں؟خصوصا ماہ مبارک کے ایام جو برکت،رحمت اور مغفرت کا مہینہ ہے سبھی ان فیوضات سے بہرہ مند ہوسکیں،بہترین موقع ملا جو ولادت باسعادت امام حسن ؑ کی تاریخ آئی،یہ حقیقت ہے امام حسن علیہ السلا م کی ولادت باسعادت تمام بشریت کے لئے مزیدرحمت کا دروازہ کھلنا ہے، سلسلہ امامت کی دوسری کڑی پڑاگرچہ لوگوں کی سعی وتلاش جاری ہے مگرابھی بھی دنیاکے کے ہر گوشہ وکنارمیں آپکی سیرت پرہرمقام پرایک عظیم اجلاس کی ضرورت ہے،آجکی دنیامیں اس بات کے سبھی قایل ہیں جوعلمی بیداریاں جمہوری اسلامی انقلاب نے پوری دنیا میں پھیلائی ہیں اسکا کوئی ثانی نہیں؟ لہذا اس مسئلے میں اس اہم ملک سے رابطہ نہات ضروری ہے،جنکے ذریعے سے ایمان محکم ہوتاہے عقیدہ مضبوط ہوتاہے اور فقہ وفقاہے سے سبھی کا گھر خوشبودار ہوا کرتا ہے۔

رہبرمعظم حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی نے اپنی مسلسل تقاریرمیں فرمایا!امام حسن ؑ کی ذات وہ بے مثال ذات وصفات ہے جسکی تاریخ میں نظیر نہیں،ہمارے رہنما اورپیشوانے کئی بارفرمایا! لفظ ثروت کوزبان سے دہراناآسان ہے یعنی کسی کوروپیہ پیسہ دیناجسکے پاس ہے وہ کسی کودیتے ہیں جب توقیق الٰہی شامل حال ہوتی ہے مگر؟اگرکوئی اپنی زندگی کوفداکردے یہ بہت بڑاکمال ہوتاہے،امام حسن ؑ کے لئے ملتاہے انہوں نے چندباراپنی مالی زندگی کوبھی لٹادیا،اسے کمال کہتے ہیں اسے بخشندگی اورخداکی رضایت پاناکہتے ہیں،ایسے گھرانہ کہاں پائے جاتے ہیں جو اسلام کی اس اندازسے ترویج کرنا،پیغمبر اسلام ص کی تقویت کرنا،یہ پورا کاپوراگھرانہ عظیم ایثارواستقامت کاگھرانہ ہے ابھی ۴روزقبل حضرت خدیجہ سکی وفات کی تاریخ گزری آپ کی زندگی میں بھی یہ ملتاہے اپناپوراکاپورامال اسلام پہ لٹادیا!آپکی ذات گرامی یقینامظلوم ہے،رسول اسلام صکی اوربھی محترمہ ہمسرگرامی ہیں لیکن جوحضرت خدیجہ نے سختیاں جھیلیں وہ کسی اورنے نہیں،پیغمبراسلام کی ہمسرگرامی نے دراوج تبلیغ رسالت کےیہ رنج ومصیبت انلوگوں نے نہیں دیکھی،دس سال حضرت محمدص مدینہ میں تھے عزت تھی احترام تھااس وقت کےحساب سےاس وقت آرام زندگی تھی جناب خدیجہسنے ایام رنج ،دوران سختی میں بھی ساتھ دیااورتحمل وصبر سے کام لیا،شروع کی زندگی بھی ملاحظہ کی جائے توسب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ س اور امیرالمومنین حضرت علیؑ تھے یہ بھی امتیازآپکونصیب ہوا،یہ آسان بات نہیں ہے،ایک عقیدے سے جہاں مدتوں انلوگوں کے ساتھ زندگیاں گزاری ہوں دوسرےعقیدے کوقبول کرنا اور بنحواحسن اس پہ عمل کرنا آسان نہیں؟ ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں جانااورکامیاب بن جانایہ آسان نہیں ہوتاہے،چونکہ ہم اورآپ اس راہ سے گزرے نہیں اسلے درک کرناآسان نہ ہو،اگرصبر،تحمل،ایثار،مقاومت اورخداپربھروسہ نہیں ہوتوکامیابی نہیں ملتیں؟آپ نے صدق قضیہ،حقانیت پیغمبرصکوسوچ اورسمجھ لیا پھروادی میدان پاک میں قدم رکھا،جب حضرت پیغمرصغارحراسے اس حالت (معروف اورمذکورکتاب) میں واپس آئے توبغوردیکھایہ آسان شیعنہیں بلکہ مہم حادثہ ہے،لہذاآپکاقلب مبارک مجزوب ہوا اور پھرصاحب ایمان ہوئیں،اوریہی نہیں بلکہ اپنے ایمان پہ استقامت کے ساتھ باقی رہیں ،ساری ثروت دین اسلام میں خرچ کردی،اورپھر بعدمیں مشکلات کاسامنابھی کرناشروع کیا،کہ جسمیں سے ایک شعب ابوطالب ہے،کتنی سختیاں گزاریں اسے تاریخ کبھی بھی بھلانہیں سکتی،رہبرمعظم نے حضرت خدیجہ سپرمزید روشنی ڈالی،کہ فقط آپ ۱۱امام کی ماں نہیں بلکہ ۱۲اماموں کی ماں ہیں،امیرالمومنین حضرت علی ؑ کی آپ نے اپنی آغوش میں تربیت کی،،اگرکمال وشرف چاہیے توہم سبھی کے لئے ضروری ہے خاندان عصمت سے اپنی زندگی نورانی کریں۔                                 

مولانا موصوف کی رپورٹ کے مطابق، ان ایام کی تیاری ۱۰ روزسے زوروشورپہ جاری تھی جسکی اکثرکارکردگی مخلص متدین اورتمام مومنین کی خدمت میں پیش کیاجارہاہے تاکہ خود بھی فایدہ اٹھائیں اوردوسروں کو اس معنوی نعمت سے بھرپورسیراب کرسکیں؟۔

حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای کے برجستہ طلاب نے جشن امام حسن ؑ کے نام سےعلمی پروگرام میں پوری توانائی سے بھرپورحصہ لیا۔ ان مناسبتوں میں پرسش وپاسخ ،سوال وجواب کابھی بہترین پروگرام ہوا،جسمیں کوششیں کی گئیں کہ مطالب پیش ہوسکیں۔

مولوی مہدی رضا! سوال:دوسرے امام امام حسنؑ کی مختصر زندگانی منابع اہل تسنن سے پیش فرمائیں؟۔

مولوی فیضان علی ! جواب: دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام ١٥ رمضان المبارک  ٣ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ، ان کے والد ماجد حضرت علی ابن ابی طالب  اورمادر گرامی حضرت فاطمہ زہرا ہیں انہوں نے سات سال اپنے نانا پیغمبر اسلام ۖ اور ٣٠ سال والد محترم حضرت علی کے پاک و پاکیزہ سایہ ٔعاطفت میں گزارے۔٢١ رمضان المبارک چالیس ہجری حضرت علی کی شہادت کے بعد دس سال منصب امامت پر فائز رہے اور ۵۰ ہجری میں اڑتالیس سال کی عمر میں زہر دغاسے شہید کردئے گئے اور بقیع کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ 

مولوی مہدی رضا!سوال: دوسرے امام امام حسنؑ کی زندگی میں لوگوں کی مددکا کیاطریقہ تھا؟                             

مولوی فیضان علی !جواب: میرے بھائی آپنے بہت پیاراسوال کیا جسکی معاشرہ میں سخت ضرورت ہے۔دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام محتاجوں کی فریاد رسی۔ اسلامی قوانین میں محتاجوں کی مدد کرنا مالداروں کی ذمہ داری ہے کیونکہ تمام مسلمان معنوی رشتہ کے تحت آپس میں بھائی ہیں آنحضرت ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے فقط اس کی تاکید ہی نہیں کی ہے بلکہ اپنے اپنے زمانوں میں فقیروں کی ضرورت اور احتیاج کو پورا بھی کرتے رہے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے دوسرے امام نہ تنہا علم و تقویٰ، زہدو بردباری اور حلم و تواضع کے حامل تھے بلکہ جود وسخا میں بھی آپ کا جواب نہیں تھا، آپ بے نظیر تھے ۔ کوئی فقیر آپ کے درسے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا ۔ سیوطی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ حسن بن علی  بہت سی عظمتوں کے حامل تھے جودوسخا میں سب سے آگے تھے فقیروں کو اتنا دیتے تھے کہ ان کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی اور دوسرے کے دروازوں پر جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی ۔توجہ طلب بات :امام حسن غریبوں اورفقیروں کو ایک مرتبہ میں ہی ایک اچھی رقم عطا کردیا کرتے تھے جو لوگوں کے لئے باعث تعجب تھا اس جودوسخامیں جواہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ امام حسن اس عمل کے ذریعے فقیر کو ہمیشہ کے لئے بے نیاز کر دیتے تھے اور وہ فقیر اس بات پر قادرہوجاتا تھا کہ اپنی ضروریاتِ زندگی کو بر طرف کر سکے اورایک آبرومندانہ زندگی گذار سکےنیز اپنے لئےایک سرمایہ مہیّا کرسکے امام اس بات کو گوارہ نہیں فرماتے تھے کہ فقیرکواتنی ناچیزرقم دی جائےجو ایک دن کے لئے بھی ناکافی ہو جس کے نتیجے میں وہ مجبور ہو کر ہرروز اپنے پیٹ کی خاطر دوسروں کے سامنے دستِ نیاز دراز کرے۔

مولوی مہدی رضا! سوال: امام  حسنؑ کی سخاوت اور جودوبخشش کے کلمے کیاخلیفہ حضرات نے بھی پڑھے؟     

مولوی فیضان علی ! جواب: اس سلسلے کا یہ بھی بہت مہم سوال ہے۔ میں آپکویہ بتاتاچلوں یہ خانداب بہت ہی خاندان علم و فضیلت ہے:ایک روزحضرت عثمان مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی فقیرنے ان سے کچھ طلب کیا،حضرت عثمان نے اسے ۵ درہم دئیے اس فقیر نے کہا: ہمیں زیادہ کی ضرورت ہے کسی ایسے کے پاس بھیجوجو ہماری ضرورت کو پوراکردے حضرت عثمان نےامام حسنؑ ،امام حسین اورجناب عبد اللہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ان لوگوں کے پاس جائو اوراپنی حاجت طلب کرو ۔فقیر نے ان لوگوں کے پاس آکراپنی حاجت بیان کی امام حسنؑ نے فرمایا:صرف تین موقعوں پر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا جائز ہے؟خون کی دیت گردن پر باقی ہو جس کا ادا کرنا اختیار سے باہر ہو ۔....٢۔ قرض اتنا زیادہ ہو کہ اسے ادا نہیں کر سکتے .....٣۔ایسا فقیر جس کی حاجت روائی نہ کی گئی ہو ۔ اب بتائو ان تینوں میں سے کس مشکل میں گرفتار ہو؟      اس نے کہا: اتفاقاً انہیں تین میں سے ایک کا،امام حسنؑ نے اسے ۵۰ درہم عطا کئے اورامام حسینؑ  اپنے بھائی کی پیروی کرتے ہوئے انتالیس دینار اور عبد اللہ بن جعفر نے اڑتالیس دینارعطا فرمائے،فقیر جب بھر پورحاجت پوری کرکے پلٹا تو اس کا گذرعثمان کے پاس سے ہوا،عثمان نے پوچھا :کیا ہوا؟۔ جواب دیا: تم سے میں نے مدد مانگی تم نے پوری کی لیکن تم نے رقم مانگنے کی وجہ نہیں پوچھی لیکن جب ان حضرات کے پاس پہونچا انہوں نے اس کے مصرف کے بارے میں سوال کیا اور ہم نے وجہ بتائی تو ان میں سے ہر ایک نے اس مقدار میں میری جھولی بھر دی ،عثمان کو کہنا پڑا: یہ خاندان صاحب کرامت اور فضیلت والا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے!۔

بے مثال سخاوت : مورخوں نے لکھا ہے کہ امام حسن کی سخاو ت بے نظیر تھی ہر ایک خاص و عام ان کے در سے جھولی بھر کے جاتا تھا حضرت نے اپنی عمر میں دو بار تمام مال کو راہ خدا میں لٹایا اور تین بار اپنے مال و دولت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جس کا آدھا حصہ خود کے لئے رکھا اور آدھا اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔

مولوی مہدی رضا! سوال: دوسرے امام امام حسنؑ کی سخاوت اورجھولی بھرنے کے کسی اورطریقے پرروشنی ڈالیں ؟

مولوی فیضان علی !جواب: دوسرے امام حسن بن علی علیہ السلام کے اس عمل پہ بہت ساری کتابیں شاہدہیں مگرتنگی وقت کی خاطرانکے انوکھے اندازکوبھی پیش کررہاہوں۔ مددکا منفرد انداز:ویسے تو یہ فیاض گھرانہ ہے لیکن اس میں بھی حضرت کی مدد کا ایک نیا انداز تھا کوئی سوالی خالی ہاتھ واپس نہ ہوا حضرت اس کی جھولی یا خود بھرتے تھے یا دوسروں کی طرف راہنمائی کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک روز فقیر آیا اور مدد مانگی اتفاقاً اس روز حضرت کے پاس درہم و دینار نہیں تھے لہٰذا وقتی طور پر شرم محسوس کی اورفقیر سے کہا: میں تم کو ایسے شخص کے پاس بھیج رہا ہوں جہاں سے اپنی مراد پا لو گے ۔یاد رکھو آج کے دن خلیفہ کی بیٹی دنیا سے گذر گئی اور خلیفہ عزادار ہے ابھی کسی نے بھی اسے پرسہ نہیں دیا ہے ۔ تم خلیفہ کے پاس جائو اور جیسے میں کہوں اسی طرح پرسہ دینا۔ اس نے پوچھا کس طرح؟ امام  نے فرمایا :جب تم خلیفہ کے پاس پہونچنا تو کہنا : ''الحمد للّہ الذی سترھا بجلوسک علی قبرھا و لا ھتکھا بجلوسھا علی قبرک'''' تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے تمہاری بیٹی کو اٹھایا اور قبرمیں دفن ہوئی تو کم از کم باپ کا سایہ تو اسے ملا لیکن اگر بر عکس ہوتا تو تیری بیٹی دربدر ہو جاتی ''فقیر نے ایسا ہی کہا ان جملوں نے خلیفہ پر ایسا اثر کیا کہ حکم دیا اسے انعامات دیئے جائیں ،پھر خلیفہ نے اس سے پوچھا : کیایہ جملے تیرے اپنے ہیں؟ فقیر نے کہا: نہیں مجھے حسن بن علیؑ نے سکھایا ہے ۔ خلیفہ نے کہا سچ کہتے ہو ان کے منھ سے فصیح اور شیریں باتوں کا چشمہ پھول ہیں۔

مولوی مہدی رضا!سوال: یہ واقعات توشیعی کتب میں کثرت سے ملتے ہیں کیااہل سنت کی کتابوں کےحوالے بھی پیش کرسکتے ہیں؟  مولوی فیضان علی !جواب: ضروربالضرور،ہم نے جوحوزہ علمیہ آیۃ اللہ بھیک پور ،بہارمیں ۹سالہ زندگی جوگزاری ہے اسمیں  تاریخی کتب میں ایک کتاب سیرہ پیشوایان ہے جومہدی پیشوائی صاحب کی اعلیٰ درجہ کی کتاب میں جسکا  ۱۵سال قبل اس حوزے کے موسس حجۃالاسلام والمسلمین سید شمع محمد رضوی نے ترجمہ کیااسمیں اسکے حوالے جات بھی پائے جاتے ہیں جویہاں پربھی ذکر کئے دیتاہوں۔ اہل تشیع کی کتابیں " (۱: شریف القرشی باقر حیاة الامام الحسن ،ج١،ص ٣٠٢ )(٢: مجلسی ،بحار الانوار،ج٤٣،ص ٣٣٣ ) اہل تسنن کی کتابیں " (۱:ابن اثیر اسد الغابة فی معرفة الصحابة:ج٢،ص ١٠) (۲:ابن حجر عسقلانی ، الاصابة فی تمییز الصحابہ ،ج١،ص ٣٢٨،)(۳:تاریخ الخلفائ، ص١٨٩) ۴:سیوطی ،تاریخ خلفاء ،ص١٩٠۔۔۔(۵:تاریخ یعقوبی،ص ٢١٥)۔۔۔۔(۶:سبط ابن جوزی تذکرة الخواص ،ص١٩٦) اس پروگرام میں تقاریرکابھی خاص خیال رکھا گیا،،خطیب اہل بیت عالیجناب مولاناسید تقی رضا رضوی نے اپنی تقریر کو شجاعت امام حسن ؑ کا محور بنایا آپ نے فرمایا!

امام حسن علیہ السلام کی شجاعت: امام حسنؑ کی شجاعت کو تین مقدموں میں بیان کیا جائے،امامت سے پہلے امام کی شجاعت کے نمونے تاریخ بتاتی ہے کہ امام حسن  بہت بہادر تھے ذرا سا بھی خوف نہیں کھاتے تھے ہمیشہ اسلام پہ جان قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔۱؎:۔ایک جنگ میں:  کتاب(با قر القرشی،ج١،ص ٣٠٢ ،ط٢،ابن شہر آشوب ،ج٤،ص ٢١ ۔)میں ہے کہ حضرتؑ نے اس جنگ میں بھی اپنےوالد ماجد کےساتھ رہ کردشمنوں پربڑھ بڑھ کرسخت حملے کئے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے حضرت علیؑ کے حکم کےتحت عماریاسراورچند سپاہیوںکےہمراہ کوفہ میں جاکرلوگوںکوجنگ کی دعوت دی( ابن واضح تاریخ یعقوبی،ج٢،ص ١٧٠ ، ۔ابن قتیبہ دینوری ،الامامة و السیاسة ،ج١،ص ٦٧ )اور جب حضرت کوفہ میں داخل ہوئے تو۔ اس کتاب (ابو حیفۂ دینوری ،الاخبار الطوال،ص١٤٤۔١٤٥ ،ط١، قاہرہ ، دار احیاء الکتب العربی۔ ابن اثیر الکامل فی التاریخ ، ج٣،ص ٢٣١) کی بنیاد پر ابو موسیٰ اشعری جو اس دور والوںکی طرف سے حاکم بنے حضرت علی کی عادلانہ حکومت کی مخالفت کررہا تھا لیکن اس کے باوجود بھی) کوفہ سے ٩ہزار لوگوں کو جنگ کے لئے لے آئے ۔

جنگ صفین: اسی طرح جنگ صفین کے لئے جس سے جنگ ہوئی تھی اسکے خلاف کوفہ میں ایسی زبردست تقریر کی جس کی وجہ سے اسکی ساری سیاستیںناکام ہو کر رہ گئیںاور اس کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے آگیا اور خود جنگ صفین میں دلیرانہ حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے جسکی وجہ سےحضرت علیؑ کو اپنے صحابیوں سے کہنا پڑا کہ حسن و حسین علیہما السلام کو مزید آگے بڑھنے سے روکو کہیں ایسا نہ ہو نسل پیغمبر منقطع ہوجائے ۔( ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ،ج١١،ص ٢٥ (خطبۂ ٢٠٠) ،قاہرہ) (نصر بن مزاحم وقعة صفین،ص١١٣ ،ط٢،)۔ ۳؎۔امام حسن  کاان لوگوں کو جھڑکنا(ڈانٹنا):   حضرت حق بیانی میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے علی الاعلان آواز بلند کرتے تھے جس سے اس وقت کے لوگوںکا راز فاش ہو جاتا تھا، طبری احتجاج ،ص١٤٤ ۔١٥٠نے لکھھ دیا کہ عمر وعاص،عتبہ ،ولید بن عقبہ ،مغیرہ بن شعبہ اورمروان جیسے انکے طرفدارسبھی اس حقیقت کے شاہد ہیں۔ طبری،احتجاج ،ص٦ وغیرہ نے لکھاکہ صلح کے بعد جب دشمن کی طاقت اور بھی بڑھ چکی تھی اور اس کی حکومت مستحکم ہو گئی تھی جب وہ کوفہ میں آیا توآپ منبر پرگئے اورصلح کے اسباب کو بیان کرنے کے ساتھھ ساتھھ خاندان حضرت علیؑ کی فضیلتوں اورمخالفوں کی خراب کاریوںکو سب کے سامنے پیش کیا اور لوگوں کوان سے آگاہ کیا۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ،ج،٥،ص٩٨ ،قاہرہ ،دار احیاء الکتب العربیة ١٩٦١،نے لکھاکہ حضرت علیؑکی شہادت اور امام حسنؑ  کے صلح کرنے کے بعد تمام خوارج جب معاویہ سے مقابلہ کے لئے اٹھھ کھڑے ہوئےاور جب معاویہ کو اطلاع ملی کہ حوثرۂ اسدی (جو انہیں خوارج سے ہے) اس نے لوگوں کو اپنے اطراف میں جمع کر کے ہمارے خلاف قیام کیا ہے ۔ تو حضرت امام حسنؑ کو اپنا مطیع سمجھھ کر اس وقت خط لکھا جب آپ مدینہ کے لئے عازم تھے '' پہلے شورش کو ختم کر دیں پھر مدینہ کی طرف جائیں ۔ ''تو امام نے جواب دیا :  ''فانی ترکتک لصلاح الامة ''مسلمانوں کے خون نہ بہنے کی وجہ سے میں نے تم سے جنگ نہیں کی اس کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ تمہاری طرف سے ہر کسی سے جنگ کرتا رہوں ۔اور اگر یہی طے ہو کہ میں جنگ کروں تو مجھھ پر لازم ہے کہ سب سے پہلے تم سے جنگ کروں ۔

حجہ الاسلام والمسلمین سبط حیدراعظمی نے بھی اپنی تقریر کو ایک اہم گوشہ کی طرف موڑا اور کہا آیئے اس موقع پرامام کی صلح پر ایک عالمانہ اورتحقیق آور نگاہ کی جانب سے دیکھاجائے،سب سے پہلے اس صلح کی وجہ کو دیکھا جائے؟۔

صلح امام حسن کے اسباب وعلل: امام کی زندگی کا سب سے حساس اور اہم لمحہ صلح کا ہے اب سوال یہ ہے کہ آپ نے صلح کیوں کی؟ کیا حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد آپ کے بابا کے چاہنے والوں نے آپ کی بیعت نہیں کی ؟۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ امام حسینؑ نے جوبعد میں انجام دیا اسے امام حسنؑ پہلے ہی انجام دے دیتے اور دشمن کے مقابلہ میں قیام کر لیتے؟۔ اس کے لئے بہت سے دندان شکن جوبات موجود ہیں لیکن وقت نہ ہونے کی وجہ سے مختصر طورپہ وضاحت ضروری ہے،ایک شخص نے پانچویں امام محمد باقر علیہ السلام سے گفتگوکرتے ہوئے امام حسنؑ کی صلح پر اعتراض کیا جس کا جواب امام نے اس طرح سے دیا کہ اگر امام صلح نہ کرتے تو ایک بہت بڑا خطرہ پیش آتا۔

ملک کی داخلی سیاست : اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی سپہ سالار اور کمانڈر میدان جنگ میں دشمنوں پر غلبہ اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب اس کے فوجی تشکیلات تمام طورپہ فراہم ہوں؟مرتبط ہوں اگر ایسا نہ ہو تو فوج کو کامیابی نہیں مل سکتی،امام حسن  کی صلح کے اسباب کی وجہ فوج کے داخلی مسائل تھے ۔ چونکہ اہل عراق امام حسن  کے زمانے میں نہ توقلبی و روحانی آمادگی رکھتے تھے اور نہ ہی متحدو ہم فکر تھے۔جنگوں کی تھکان :تین جنگوں کی بیحد تھکان  اور اسی طرح کی دوسری جنگیں جو اصحاب امیر المومنین  کے درمیان حکمیت کے مسئلے کے بعد عراق و حجاز اور یمن میں ہوئیں، ان کی وجہ سے اصحاب حضرت علی  میں ایک طرح کی تھکن اور صلح کی خواہش پیدا ہو گئی تھی ۔اس لئے کہ پانچ سالہ خلافت حضرت امیر کے زمانے میں آپ کے اصحاب نے کسی وقت بھی ہتھیار زمین پر نہ رکھے اور ہمیشہ دوسری جنگ میں شرکت کے لئے آمادہ رہے ۔ تاریخ یعقوبی ،ج٢،ص ١٢٢ کے مطابق ایک جنگ میں ٣٠ ہزار سے زیادہ افرادمارے گئے تودوسری جنگ نہروان میں (تاریخ یعقوبی ،ج٢،ص ١٨٢) کے مطابق،خوارج سے ٤ ہزار افراد مارے گئے۔اریخ مسعودی ،مروج الذہب ،٢،ص٣٩٣، ط١، بیروت ،دار الاندلس ،١٩٦٥کے تحت اگر دونوں طرف سے جانی نقصان کو شمار کیا جائے تو ایک لاکھ دس ہزار کی جمعیت پہونچتی ہے۔ پھردوسری دلیل شمس الدین ، محمد مہدی ،ص١٩٧،٢٠٠،(ثورة الحسین ) مہدی پیشوائی کا ترجمہ ، دوسری طبع ،قم ،ڈاکٹر طٰہ،کے مطابق حجاز و یمن اور عراق کے اطراف و اکناف میں حملہ آور ہونے والی شام کی مختلف فوجوں سے جنگ کرنے میں عراق کی عوام سستی اور بے توجہی کا مظاہرہ کر رہی تھی ۔ یہ تمام باتیں عراقی عوام کی بے انتہا تھکن کو بیان کر رہی ہیں۔علامہ مجلسی ،بحار الانوار ،ج٤٤ ،ص١،تہران ،المطبعة الاسلامیة ،١٣٨٣ھ کتب تاریخی(آئینۂ اسلام ،ترجمہ محمد ابراہیم آیتی بیرجندی ،ص٢٥٠،)میں لکھاملا کہ: حضرت علی لوگوں کو ہمیشہ جراٰت ،ہمت اوراستقامت کی طرف دعوت دیتے تھے اور اس بات کی تاکید فرماتے تھے جب لوگوں نے سننے میں کوتاہیاں کیں تو ایک دن آپ نے ایک خطبہ میں فرمایا: تم نے اپنی نا فرمانیوں کے ذریعہ میری تدبیر کو برباد کر دیا جس کی وجہ سے بات یہاں تک پہونچ گئی کہ قریش کہنے لگے: ابو طالب کاجوان ایک دلیر مرد ہے۔

حولہ(ابو الفرج الاصفہانی ،مقاتل الطالبین ،ص٣٩، ط٢،نجف، منشورات المکتبة الحیدریہ ،١٣٨٥ش ۔ ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ، ج١٦،ص ٣٨، قاہرہ ،دار احیاء الکتب العربیہ ،  ١٩٦١ئ۔ احمد بن یحییٰ البلاذری ،انساب الاشراف ، ص٦٠ ،)کے مطابق،حضرت امیر المومنینؑ  کی شہادت کے بعد جب امام حسنؑ نےخلافت کی باگ دوڑسنبھالی توآپکے لشکرنے بھی انتہائی سستی کا مظاہرہ کیا بالخصوص جب آپ نے لوگوں کو اہل شام سے جنگ کی دعوت دی تو لوگوں نے بے رغبتی کا اظہار کیا۔ جب امام حسن کوکوفہ کی طرف بنےخلیفہ کی فوج کے کوچ کی خبرملی تو آپ نے حکم دیا کہ لوگ مسجد میں جمع ہوں پھر آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اوراسکی خبر دیتے ہوئے لوگوں کو راہِ خدا میں جہاد ، استقامت اور باطل کے پرستاروں سے جنگ کی دعوت دی اور آپ نے صبر و تحمل اور ایثار و فداکاری کی سفارش کی یہ واقعہ اتنا افسوسناک تھا کہ  انمیں سے ایک نے سستی اور بے توجہی کے اظہار پرتمام اصحاب کی مذمت کی اور ان کو جھوٹا، ڈر پوک جنگجواور بزدل کا نام دیا اور ان کو اس بات کی دعوت دی کہ رکاب امام  میں اہل شام سے جنگ کے لئے آمادہ ہو جائیں۔ آخر کار امام حسن جنگی تحریکوں اور تقریروں کے بعد اپنے چند جلیل القدر اصحاب کے ہمراہ کوفہ سے کوچ کر گئے اور وہاں سے نخیلہ نامی ایک مقام پر خیمہ لگایا،نخیلہ میں تازہ دم فوجیوں کی آمد کے انتظا رمیں دو دن گذارنے کے بعد کل ٤ ہزار سپاہی آپ کے نزدیک جمع ہو سکے یہاں پریہ حوالہ( آل یاسین ، شیخ راضی ، صلح الحسن ، ص١٠٢ ، ط٢،) بتارہاہے کہ عراق کی عوام کس حد تک سستی اور تھکن کا شکار تھی اور ان میں استقامت اور جذبہ و ہمت کی آگ بجھھ چکی تھی اور وہ ہرگز جنگ کرنے کے لئے آمادہ نہ تھے ۔لہٰذا امام مجبور ہوئے کہ کوفہ واپس جائیں اور فوج کو جمع کرنے کے لئے نئی تحریک شروع کریں۔  اسلام میں صلح کے قوانین؎ :اسلام میں ہرچیزکا قانون ہے یعنی جس طرح سے جنگ کے قانون ہیں، وہی یہ بھی کہتا ہے کہ اگر ہدف مؤثر نہ ہو تو صلح کرنا چاہئے۔ حضرت محمدمصطفےٰص کے دونوں نواسوں نے ناناکی اہم اورمہم چیزلی ایک نے صلح تودوسرے نے جنگ کی۔۔ابن اثیر الکامل فی التاریخ ،ج٣،ص ٤٠٩،نے ذکر کیاپیغمرص کی حیات میں دورخ ملتے ہیں۔ آنحضرت ۖ نے جنگ بدر ،احزاب اورحنین وغیرہ میں تلوار اٹھائی کیونکہ دیکھھ رہے تھے کہ کامیابی مل سکتی ہے ۔ لیکن جب یہ دیکھا کہ ہدف تک پہونچنا مشکل ہے اورکامیابی ناممکن ہوتی جارہی ہے تو پھر بنی اشجع ،بنی ضمرہ اور اہل مکہ سے حدیبیہ میں صلح کرنے پر تیار ہوگئے۔ یہی وجہ تھی کہ جب امام حسنؑ  نے صلح کی تواس موقع پرایک شخص نے اعتراض کیا جس کے جواب میں آنحضرۖت کی صلح کو پیش کیا کہ جس دلیل کی بنیاد پر آنحضرت ۖنے صلح کی اسی دلیل کی بنیاد پرمیں نے بھی صلح کی یعنی امام حسنؑ جو ہراعتبار سے دوسروں سے زیادہ باخبر تھے انھوں نے بھی اسلامی مصلحت کی بنا پر صلح کی اور آنحضرۖت کے طریقۂ کارکونمونۂ عمل بنایا،امام حسنؑ کی صلح کے مقاصد کو سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تاکہ یہ مسئلہ تاریخی چھان بین سے واضح ہو سکے،کیونکہ اسلامی ملک کے خارجی وداخلی حالات جنگ کی اجازت نہیں دے رہے تھے جسے مندرجہ ذیل بحثوں سے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ملک کے باہر کی سیاست؎ :مشرقی روم کا بادشاہ جس نے اسلام سے بہت ضربت کھائی تھی ہمیشہ موقع کی تلاش میںرہتا تھا تاکہ اسلام کو نقصان پہونچا سکے۔ جب اسے امام حسنؑ اور مخالف کی فوج آرائی کی خبرملی تو اس نے سوچا کہ مجھے بہترین موقع ملاہے لہٰذا ایک عظیم فوج لے کر حملہ کی غرض سے مسلمانوں کے ملک میں داخل ہوگیا تاکہ مسلمانوں سے اپنا بدلہ لے سکے ایسے موقع پر امام حسنؑ  جو محافظ دین پیغمبر ۖ تھے ،کیا ان کے لئے صلح کے علاوہ کوئی اور راہ ِ حل تھا!؟۔ معروف مورخ یعقوبی کا بیان ہے کہ جب امام حسنؑ سے صلح کرنے کے بعد مخالف شام پہونچا تو اسے اطلاع ملی کہ مشرقی روم کا بادشاہ ایک بڑی فوج کے ساتھھ حملہ کی غرض سے چل چکا ہے شام کے لئے اسکا مقابلہ بہت سخت تھا لہٰذا رومی حکومت کوایک لاکھھ دینار دینے کا وعدہ کر کے صلح کر لی ۔( تاریخ یعقوبی ،ج٢،ص ٢٠٦)اس تاریخی واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر حضرت صلح کے بجائے جنگ کرتے تو نہ توامام کوکامیابی ملتی اور نہ ہی طرف مقابل کو بلکہ مشرقی رومی بادشاہ دوسری طرف سے حملہ کر دیتا اوراسے کامیابی مل جاتی لہٰذا اس عظیم ذمہ داری کو سنبھالنے کامظاہرہ کرتے ہوئے امام حسن نےصلح کی،تاریخوں میں ملتاہےکہ:امام حسنؑ کےسکوت اورامام حسینؑ کے قیام نے لوگوں کو ایک ایسے موڑپر پہونچادیا جہاں سے کثیف اورنہایت بدبودارلوگ باگ اوراسکی حکومت کی تمام پوشیدہ چیزیں واضح ہو گئیں ۔ یہ اسلام کی بے انتہا محبت تھی جس نے امام حسنؑ کے دل میں انگڑائی لی اوراسلام کوکامیابی کی منزل کی طرف لے چلے،اور یہی امامت کی مستحکم بنیاد تھی جس نےامام حسنؑ کے خون وجگر میں پل کرامام حسینؑ کے خون وجگرمیںضم اور منتقل ہو گئی۔ اس اہم مناسبت سے کافی لوگوں نے جان توڑمحنت دکھائی اورفعالیت کاسلسلہ انٹرویوکی وادی میں اسطرح سرشاررہا۔ایمہ معصومینؑ کوبشرکی نجات کے لئے دنیا میں بھیجاتاکہ اپنی خلقت کے اغراض ومقاصد پرصحیح سے غورو فکر کرسکیں؟آجکی دنیامیں جہاں ٹھنڈی سانس لینابھی پریشانی وہاں تعلیمات ایمہ معصومین ؑ پرصحیح سےعمل کیسے ہو، کیاکوئی پھروحی آئیگی،کیاکوئی فرشتہ آئیگا،کیاکوئی معجزہ ہوگا،خداوند عالم نے تمام امورہمارے سامنے پیش کیں اورکھلے الفاط میں کہہ دیاہم نے ہدایت کارستہ بالکل صحیح طریقے سے پیش کردیا اب چاہے عمل کرکے بندہ شاکر ہوجاویاناشکری کرکے کافر؟ اب توطے ہوگیاہمیں تلاش کرنا ہےہمیں کنواں بھی کھودناہے ہمین پانی بھی پیناہے،انہیں اسباب کے تحت حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای،بھیک پور،بہار،ہند نے اس ماہ رحمت وبرکت ومغفرت میں اپنے دروازے کوکھول رکھاہے کہ امورمذکورہ کاخاص خیال کیا جاسکے۔ اس ماہ میں ولادت امام حسنؑ تمام بشرکے لئے ایک بڑی خوشی کامقام ہے،حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای نے فعالیت کاایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایک نیارخ اپنایااورپھرمصاحبہ ،انٹرویو کی وادی میں قدم رکھ دیا،جوایک جگھ پرمندرجہ ذیل پیش خدمت ہے:سوال:آپ یہ بتائیں کہ ماہ مبارک کی آمد سے قبل اس ماہ کے بارنمیں اماموں نے کیافرمایا؟۔

جواب:عیوں الرضامیں ملتاہے کہ!امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں جنہیں حضرت اباصلت نقل فرماتے ہیں کہ:اے اباصلت یہ ماہ شعبان کاآخری جمعہ ہے اسکے باقی ماندہ دنوں میں پہلے کی کوتاہیوں کی تلافی کرواورجوچیزبہت مہم ہے اسے بجالاو؟تمام لوگوں کے لئے ان آٹھ اہم پہلوکوبھی ذکرکرتاہوں جسپرعمل پیراہونانہایت ضروری ہے(۱):زیادہ سے زیادہ دعاکرو(۲):زیادہ سے زیادہ استغفارکرو(۳):زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرو(۴): جوامانتیں تمہاری گردن پہ ہیں اسے اداکرو(۵):اپنے گناہوں پرخداوند عالم سے توبہ کروتاکہ پاک وصاف ہوکرخداکے مہینے میں داخل ہوسکو(۶):مومنوں کی دشمنی سے دل کوپاک اورصاف کرو (۷):تقویٰ اورپرہیزگاری اختیارکرو،اللہ پہ بھروسہ کرکے خلوت پسند ہو(۸):شعبان کے باقی ماندہ دنوں میں زیادہ سے زیادہ دعاکرواوریہ کہتے جاو؎اللھم ان لم تکن غفرت لنافیمامضی من شعبان فاغفرلنافیمابقی منہ،،خدایااگرماہ شعبان کے گزشتہ دنوں میں مجھے نہیں بخشاہے توباقی دنوں میں میری مغفرت فرما۔

سوال:کیاماہ مبارک کے سلسلے سے رسول اسلام(ص)سے کوئی حدیث نقل کرسکتے ہیں؟

جواب:جی ہاں ضرورحضرت محمدمصطفےٰص نے فرمایا!اے لوگوں رمضان المبارک کامہینہ آرہاہے،یہ وہ ماہ ہے جسمیں توبہ قبول ہوتی ہے،خداکے نزدیک سارے مہینوں میں یہ مہینہ افضل وبرکت والامہینہ ہے جسکی راتیں دوسرے مہینوں کے دنوں سے بہتراورجسکی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہترہیں،،اس ماہ میں سانس لینا گویاتسبیح پڑھنا،اورسوناعبادت کے برابرہے،اس مہینہ کی بھوک وپیاس کوقیامت والی بھوک وپیاس کاتصورکرو،چھوٹوں پہ رحم وکرم،بوڑھوں کااحترام اوررشتہ داروں کے ساتھ نرمی سے پیش ہونااس ماہ میں عظیم درجہ ہے۔

سوال:اس ماہ مبارک اورکیاکرناچاہئے؟

جواب:صبرواستقامت سے کام لینانہایت ضروری ہے،اوراس ماہ میں انسانیت۔

سوال:آپ یہ بتائیں کہ ماہ مبارک کی آمد سے قبل اس ماہ کے بارنمیں اماموں نے کیافرمایا؟

جواب: کاعلمبرداربننالازم اورضروری ہے،،روزہ فقط بھوک وپیاس کانام نہیں بلکہ دوسروں کی بھوک وپیاس مٹانے کانام ہے۔

سوال: متقین کسے کہتے ہیں؟

جواب:اسکی ۲صفت ہے ایک اعتقادی(خداوند عالم سے رابطہ رکھنااسپرایمان رکھنا) تودوسری عملی صفت(اپنے کردارسے معاشرے میں عبادتوں کوزندہ رکھنا)

سوال:دنیا میں بہت سے کام ہوتے ہیں جسمیں لوگ باگ مشغول ومصروف ہیں کیاہمیں اچھے کام اوراسکی برکت کے سلسلے سے آپ کچھ بیان فرماسکتے ہیں ۔   

جواب: جی ہاں؎وسایل الشیعہ ج ۹ص ۸۹،ح۱،امیرالمومنین حضرت علیؑ فرماتے ہیں!افعلوا الخیرولاتحقروا منہ شیا،فان صغیرہ کبیرہ،وقلیلہ کثیر۔۔۔ اچھے کام کیاکرو،اورکسی اچھے کام کوچھوٹانہ سمجھنا کیونکہ اچھاکام چھوٹا بھی ہوتوبڑا ہے اورکم بھی ہوتوزیادہ ہے۔

سوال:کیاسورہ بقرہ کی ۱۸۵ویں آیت(شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن ہدیٰ للناس وبینات من الہدیٰ والفرقان) کے بارنمیں کچھ روشنی دال سکتے ہیں۔

جواب:ماہ رمضان المبارک میں ۳ عشرے ہیں پہلابرکت والاعشرہ دوسرارحمت والاعشرہ تیسرامغفرت والاعشرہ،توضیح یہ ہدایت کامہینہ ہے جسمیں انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف دوسرے مہینوں کی بہ نسبت زیادہ متوجہ ہوتاہے اورہدایت کے راستے پر گامزن ہوتاہے،کیونکہ سب بڑی شی ع اس ماہ میں برکتیں نازل ہوتی ہیں،اس ماہ کانام گناہوں کومٹانے والاہے جورمض کے معنیٰ سے ہے یعنی ختم کرنا،مٹانا،روایت میں ہے ہرروز ہزاروں افراد کے گناہوں کواس ماہ میں معاف کیاجاتاہے اورعیدکی رات تک تمام لوگوں کےگناہوں کومعاف کیاجاتاہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .