۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ہندوستان میں مسلمانوں نے ہندو خاتون کی لاش کو کندھا دے کر انسانیت کی مثال پیش کی

حوزہ/ بہار کے امام گنج تھانہ حلقہ کے ارانی گنج میں واقع تیتریا گاؤں کی رہنے والی 58 سالہ خاتون کی موت ہوگئی۔ گھر والے کورونا وائرس کے خوف سے لاش کو ہاتھ لگانے سے ڈر رہے تھے۔ اس دوران گاؤں کے مسلم طبقہ نے انسانیت کی مثال پیش کرتے ہوئے لاش کو ارتھی دی اور آخری رسومات میں بھی پیش پیش رہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کورونا وائرس پوری دنیا کو اپنی زد میں لے چکا ہے۔ اس دوران ایسی تصویریں سامنے آ رہی ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ لوگ اپنوں کی لاش سے دوری بنا رہے ہیں۔ اس دوران کچھ تصویریں ایسی بھی آئی ہیں جس نے انسانیت کی مثال پیش کی ہیں۔ گیا ضلع کے امام گنج تھانہ حلقہ کے رانی گنج کے تیتریا گاؤں میں مسلمانوں نے ہندو خاتون کی لاش کو کندھا دے کر انسانیت کی زندہ مثال پیش کی ہے۔

58 سالہ خاتون کی موت جمعہ کے روز ہوگئی تھی۔ لاش تقریباً چار گھنٹے تک گاڑی میں پڑی رہی۔ خاتون کے شوہر اور دو بیٹوں نے لاش کو کورونا کے ڈر سے ہاتھ نہیں لگایا۔

گاؤں کے مسلمانوں کو جب اس بارے میں جانکاری ملی تو وہ لوگ مدد کے لیے آگے آئے۔ لاش کو گاڑی سے اتار کر گھر میں رکھا اور ہفتہ کی صبح آخری رسومات ادا کیں۔ مسلمانوں نے لاش کو شمشان گھاٹ تک لے جانے کے لیے ارتھی بنائی اور کندھا بھی دیا۔

خاتون کا نام پربھاوتی دیوی تھا۔ وہ دگ وجے کی بیوی تھی۔ پربھاوتی کافی وقت سے بیمار تھی۔ رانی گنج کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ان کا علاج چل رہا تھا۔ جمعہ کو ان کی طبییعت بگڑنے لگی تو ڈاکٹر نے کورونا ٹسٹ کرانے کو کہا۔ ٹسٹ میں خاتون کی رپورٹ منفی آئی۔ گھر لوٹنے کے دوران ان کی موت ہوگئی۔

گھر والوں کو ڈر تھا کہ موت کورونا وائرس کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اس خوف سے گھر والے لاش کو ہاتھ نہیں لگا رہے تھے۔ لاش کو گاڑی میں ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ رات 8 تک لاش اسی گاڑی میں پڑی رہی۔

اس بارے میں جب گاؤں کے مسلمانوں کو جانکاری ملی تو وہ لوگ دلاسہ دینے کے لیے پہنچے۔ لاش کو خود گاڑی سے اتارا۔ ہفتہ کی صبح بانس کاٹ کر ارتھی بنائی۔ یہ سب دیکھ کر خاتون کے شوہر دگ وجے پرساد، بیٹے نرنے کمار اور وکاس کمار بھی آگے آئے۔ اس کے بعد ارتھی کو دونوں بیٹوں اور مسلم سماج کے لوگوں نے کندھا دے کر شمشان گھاٹ پہنچایا۔

خاتون کی لاش کو کندھا دینے والے محمد کلام الدین انصاری نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رات کے آٹھ بجے ہم لوگوں کو اس واقعہ کے بارے میں جانکاری ملی۔ ان کی موت شام چار بجے ہوگئی تھی۔ کورونا کے خوف سے کوئی لاش کے پاس نہیں جا رہا تھا۔ ہم لوگوں نے مدد کی ییشکش کی۔ گھر والوں کی رضامندی کے بعد لاش کو گاڑی سے نکالا۔ ہفتہ کی صبح مرحومہ کے گھر والے اور ہم لوگ آخری رسومات کے لیے لاش کو ندی کنارے لے گئے۔

وہیں، محمد رفیق نے بتایا کہ گھر والوں کو کوئی حوصلہ دینے والا نہیں تھا۔ ان لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے اگنی دی جائے گی۔ کورونا کے خوف سے آس پاس کے لوگ مدد کے لیے نہیں آئے تھے۔ میں نے خود بانس کاٹا، ارتھی بنائی اور لاش کو کندھا دے کر ندی کے گھاٹ تک لے گیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .