۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
بھیک پور،بہار؛

حوزہ/ ١٠رمضان المبارک کادن وہ قیامت کادن ہےجس روزوفات جناب خدیجہ سلام اللہ علیھا سےخداوندعالم کی خاص کنیز حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کےسر سے ماں کا سایہ اٹھا۔جہاں دنیا بھر اس روز عزادار غم مناکر مجالس عزا قائم کرتے ہیں، وہیں حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای،بھیک پور،بہار،ہندوستان میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا پروگرام منعقد ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،١٠رمضان المبارک کادن وہ قیامت کادن ہےجس روزوفات جناب خدیجہ سلام اللہ علیھا سےخداوندعالم کی خاص کنیز حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کےسر سے ماں کا سایہ اٹھا۔جہاں دنیا بھر اس روز عزادار غم مناکر مجالس عزا قائم کرتے ہیں وہیں حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای،بھیک پور،بہار،ہندوستان میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا پروگرام منعقدہوا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید شمع محمد رضوی''بانی قرآن وعترت فاونڈیشن''  نے اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ۲۲اپریل۲۰۲۱بروز جمعرات مجلس عزا منعقد ہوئی۔اس پروگرام کا آغاز سب سے پہلے مولوی فیضان علی نے تلاوت قرآن مجیدسے کیا، اور سوز خوانی جناب غلام نجف اورانکے ہمنوانے اپنی عظیم شان و شوکت سے سامعین کے قلوب کوروشن اور منور کئے پروگرام میں پیش خوانی کاسلسلہ بھی قائم رہا جسے ممتازبھیک پوری اور انتظاربھیک پوری نے شعروشاعری کے دکھ ھرے لہجے سے وقت کے امام کو پرسہ پیش  کیا۔   

ان ایام میں ان عنوان پر بہت سے علمی مطالب بھی پیش کئے گئے جو بطور اختصار مندرجہ ذیل ہیں؛ 

 نام :خدیجہ(س)القاب:مبارکہ،طاھرہ،کبریٰ، کنیت:ام ہند،ام المومنین،ام الزہراء(س) والدین:خویلد بن اسد،فاطمہ بنت زائدہ، محل پیدائش:مکہ معظمہ، وقت و محل، رحلت:۱۰رمضان المبارک،مکہ معظمہ، مدت عمر: ٦٥ سال۔مرقد شریف:قبرستان معلیٰ(کہ جسکا نام قبرستان ابو طالب ہے) دوران عمر: تین بخشوں پر مشتمل ہے[۱]دوران قبل از ازدواج۔[۔٢]دوران ازدواج با پیامبر تا آغاز بعثت(ص) [۳] آغاز بعثت(طلوع اسلام) تا ہنگام رحلت،فرزندان:حضرت فاطمہ زہرا(س)،،وحضرت خدیجہ(س)کا خاندان: خدیجہ دختر خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب[حضرت خدیجہ (س) رشتے میں رسول اکرم(ص)کی چچا زاد بہن تھیں اور دونوں کا شجرہ نسب ،جناب قصیٰ بن کلاب سے جا ملتا تھا،حضرت خدیجہ کی ولادت و پرورش اس خاندان میں ہوئی تھی جو نسب کے اعتبار سے اصیل  ایثار پسند اور خانہ کعبہ کا  حامی و پاسدار تھا  اور خود حضرت خدیجہ(س)اپنی عفت وپاکدامنی میں ایسی مشہورتھیں کہ اس زمانےمیں بھی آپکو''سیدہ قریش'' کےلقب سےیاد کیاجاتا تھا۔آپکی عظمت پرامام حسن فرماتے ہیں :( حوالہ بحار الانوار ج ١٦،ص١٣۔١٢)۔ اورچوتھے امام حضرت زین العابدین  نے جب  دمشق میں خطبہ دیا تو اپنا تعارف بھی اس انداز سے کروایا ''میں  خدیجہ کا فرزند ہوں''۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔               

قبل  و بعد از اسلام حضرت خدیجہ(س) کی۵ عظمتیں:؎ 

١۔  آسمانی کتاب انجیل جو حضرت عیسیٰ پر نازل ہوئی اسمیں ملتا ہے کہ حضرت خدیجہ(س)جنت میں حضرت مریم (س)کےساتھ رہنے والی حضرت خدیجہ بھی ہیں،  حضرت خدیجہ اور آپکے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے ساتھ جو گفتگو ہوئی وہ اس طرح ہے: ورقہ بن نوفل نے کہا کہ:  آسمانی کتابوں میں آیا ہے کہ خداوند عالم حضرت عیسیٰ کے بعد ایک پیامبر(ص)کومبعوث کرے گا جویتیم ہوگا اورخاندان قریش کی ایک محترم خاتون انکے لئے ہرطریقے سے خصوصامال ودولت کےساتھ مدد گا رثابت ہونگیں( حوالہ بحار ج ١٨،٢٢٨)۔۔..............

۲،عصر جاہلیت میں بہت سی خواتین ایسی تھیں جو اپنے دامن پر لگے ہوئے داغ کو مٹا نہ سکیں،لیکن حضرت خدیجہ(س)اس وقت بھی پاک وپاکیزہ اور( مبارکہ،طاھرہ،کبریٰ) جیسے مبارک القاب سے مشہور تھیں۔.......

٣،آپکی شخصیت ہر خاص وعام کے نزدیک اس طرح محترم تھی کہ آپکو( سیدہ نسوان )کے نام سے پکارا جا تا تھا ....

۴،رسول اکرم(ص)بھی آپکو شادی کے بعد کبریٰ کے لقب سے یاد فرماتے تھے اور آپ ایسی با فضیلت اور با بصیرت خاتون تھیں کہ حضرت محمد(ص)اکثرمواقع پر آپ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔۔........                         

 ۵؎: دعای ندبہ میں آپکا نام( خدیجہ غراء )کےنام سےذکر ہے،حضرت ابو طالب نے بھی جب آپکا عقد پڑھا تو آپکی اسطرح توصیف فرمائی:  میرا بھتیجا تم سے  اس لئے شادی کرنا چاہتا ہے کہ تم پاکدامن  اور ایک شریف عورت ہو اور یہی نہیں بلکہ تم ان خاتون میں سے ہو جسکے فضل و کرم کا چرچہ ہر خاص و عام کے درمیان ہے۔( بحار جلد ١٦،ص ٦٩)....۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔           

اس پروگرام کی مجلس عزا کوخطاب کرتے ہوئےحجہ الاسلام والمسلمین مولاناسبط حیدر اعظمی مدظلہ العالی نے فرمایا!؃جناب خدیجہ علیہا السلام اپنےزمانہ کی نامور تاجرتھیں ،روایات کے مد نظر آپ کے خزانوں کی چابھیاں چالیس اونٹوں کی پشتوں پر لادی جاتی تھیں،ا جناب خدیجہ سلام اللہ علیہاکتنی مالدار تھیں؟ مالداری کے ساتھ ساتھ کیا آپ دولت طلب افراد کی صفوں میں شمار کی جاسکتی ہیں؟۔نہیں قارئین کرام! دولت تو جناب خدیجہ سلام اللہ علیہاکی کنیز بن چکی تھی (ان کے ہاتھوں کادھوون تھی)جیسے کہ آج بھی یہ مثل مشہور ہے کہ پیسے کی کیا حیثیت ہے ،پیسہ تو ہاتھ کا میل ہوتا ہے؛ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا  کو دولت کی کیا ضرورت تھی کہ اس کی متمنی ہوتیں؟ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہاکی جتنی بھی دولت تھی وہ آپ نے اسلام پر قربان کردی،جناب خدیجہ کے ایثار کی مثال ممکن نہیں، ان کی فدارکاری اپنی مثال آپ ہے: اگر اسلام کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے دو جز نظر آئیںگے: ١؃خون ابوطالب علیہ السلام     

٢؃ دولت خدیجہ سلام اللہ علیہا: یعنی اگر خلاصہ کیا جائے تو اسلام ہے اور اگر اسے پھیلایا جائے تو دولت خدیجہ کے ہمراہ خاندان ابوطالب علیہ السلام کے شاہکار۔شریعت اسلام ان دونوں ہستیوں کی مرہون منت ہے یعنی اگر ان دو ہستیوں کا وجود نہ ہوتا تو دین اسلام کب کا مٹ چکا ہوتا، یہی دو ہستیاں بقائے اسلام کی ضامن ہیں یہاں تک کہ خون ابوطالب آج بھی پردۂ غیبت میں بیٹھ کر دین اسلام کی حفاظت کررہا ہے۔۔۔ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کی شادی :...جب دین اسلام اپنے ابتدائی مراحل طے کررہا تھا ، جب پیغمبر اکرمۖ  تن تنہا حق کی تبلیغ میں مصروف تھے، جب کفار قریش اپنی دولت و طاقت کے بل پر حضورۖ کے مد مقابل آکر کھڑے ہوگئے تھے تو ایسے میں جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے حضور اکرمۖ سے ایسا محکم و مستحکم رشتہ جوڑا کہ ایوان ظلم میں زلزلہ بپا کردیا اور حضورۖ نے اس رشتہ کا استقبال بڑے پرجوش انداز میں کیا۔جو جملہ جناب خدیجہ (س)کی فضیلت میں سنہرے الفاظ سے لکھا جانا چاہیئے وہ یہ ہے کہ آپ کو پرآشوب دور جاہلیت میں بھی طاہرہ اور سیدۂ قریش جیسے القاب سے یا د کیا جاتا تھا۔(١)....

(٣)جناب خدیجہ سلام اللہ علیہااپنی  دولت کوہرکس وناکس کی نذر نہیں کرنا چاہتی تھیں بلکہ یہ چاہتی تھیں کہ ان کی دولت کسی کار خیر میں کام آئے اور ان کی یہی فکر اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اسلام دوست اور شریعت کی ہمدرد تھیں چونکہ اگر ایسا نہ ہوتا (یعنی شریعت اسلام کی ہمدرد نہ ہوتیں)تو نامور ہستیوں کے رشتے ٹھکراکر یتیم عبداللہ کے پاس اپنی شادی کا پیغام ہرگز نہ بھیجتیں ان کی دوراندیش فکر نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے اندرایسی خوبیاں دیکھیں کہ حضوراکرم ۖسے شادی کرنے پر مجبور ہوگئیں۔

(۴) جناب خدیجہ سلام اللہ علیہاکی ازدواجی زندگی، اگر جناب خدیجہ دولت جاہ وطلب وحشمت ومنصب کی خواہاں نہیں تھیں چونکہ شادی ایک یتیم سے کررہی تھیں چونکہ دورجاہلیت میں ایک یتیم کی حیثیت ہی کیا ہوتی تھی! لیکن آپ نے حضورۖ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد ایسا کردار نبھایا کہ تاریخ کو انگشت بدنداں ہوجانا پڑا، حضورۖ کے پاس کون سی ایسی دولت تھی کہ جس کی طمع میں جناب خدیجہ سلام اللہ علیہانے رشتہ جوڑا؟ کیا جناب خدیجہ سلام اللہ علیہاکے پاس دولت کی کمی تھی؟ ملکۂ عرب ہوتے ہوئے ایک تنگدست کی زوجیت میں کیوں؟ ان سب سوالوں کا جواب یہی ہوگا کہ آپکو کسی قسم کی دولت درکار نہیں تھی چونکہ آپ ملکۂ عرب تھیں، اگر آپکو کسی چیز کی ضرورت تھی تو وہ چیز تھی ایمانی کمال اوراسلامی وقار اگرگھرسےباہر جناب ابوطالبؑ رسول(ص) کی حمایت میں کھڑے تھے تو گھر کے اندر جناب خدیجہ (س)کی مہربانی و دلسوزی تھی کہ جو حضورۖ کی سپر تھی چونکہ آپ گھر سے باہر نکل کر تو حضورۖ کی حمایت نہیں کر سکتی تھیں لہٰذا اپنی ذات کو ایسے سانچہ میں ڈھالا کہ حضورۖ کی خاطر تسکین قلب اور راحت جاں بن گئیں۔             

(۵)اور قیامت تک آنے والی خواتین کو رشتۂ ازدواج نبھانے کا سلیقہ سکھادیاکہ دیکھو میں ملکۂ عرب ہوتے ہوئے اپنے شوہر کی اتنی زیادہ خدمت کرتی ہوں تو تم عام خواتین ہوتے ہوئے اپنے شوہر کو کیسے راضی نہیں رکھ سکتیں! جناب خدیجہ (س)تاریخ کی پہلی مومنہ :  جاہلیت کے تاریک دور میں، نور ایمان کا وجود ایک عجوبہ کے سوا کچھ نہیں تھا چونکہ اس دور کے لوگوں کی نگاہیں بتوں کی عادی ہوچکی تھیں ایسے دور میں جناب خدیجہ (س)کاایمان لانا ایک ایسا شاہکار ہے کہ جس کی نظیر ڈھونڈھے نہیں مل سکتی ،آپ ایمان میں سب سے آگے نظر آتی ہیں۔  ۔۔ یہی وجہ ہے کہ حضوراکرمۖ ان کے اس قدر دلدادہ ہوئے کہ اپنی حیات کے آخری لمحات تک جناب خدیجہ (س)کو یاد فرماتے رہے۔

(٦)حضور اکرمۖ، دین اسلام کی خاطر جناب خدیجہ (س)کی زحمتوں کو کبھی بھی فراموشی کی نذر نہیں ہونے دیتے تھے ، ایک دن حضور اکرمۖ نے اپنی دیگرازواج سے فرمایا: خداوندعالم نے مجھے خدیجہ سے بہترین زوجہ عطا نہیں کی جس وقت سب  مومن نہیں تھے اس وقت وہی تھیں جو میرے اوپر ایمان لائیں جب مجھے سب نے جھٹلایا تو اسوقت انہوں نے میری تصدیق کی اورجب مجھے سب نے محروم کردیا تو دولت خدیجہ نے سہارا دیا اور صرف تھوڑی بہت نہیں بلکہ انہوں نے اپنی ساری دولت نچھاور کردی اور خداوندعالم نے مجھے ان کے ذریعہ سے اولاد عطاکی۔(٧)(خداوندعالم نے مجھے ان کے ذریعہ اولاد عطاکی)۔                                                                                                             

جناب خدیجہ(س) کی وفات کا اثر: اگر کسی کا کوئی چاہنے والا دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو اسکی وفات بہت زیادہ متأثر کرتی ہے اور یہ اثر ایک جیسا نہیں ہوتا بلکہ مختلف درجوں کا حامل ہوتاہے اور یہ درجے ،محبت کے درجوں کے مدنظر ہوتے ہیں یعنی جو جتنا زیادہ چاہنے والا ہوگا اتنا ہی زیادہ متأثر و غمگین ہوگا ،اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک مومن کسی غیرمومن کی وفات سے غمگین نہیں ہوسکتا بلکہ مومن،مومن کی وفات سے ہی متأثر ہوتا ہے ...یعنی ہر چیز اپنی ہم ذات اور ہم جنس کے ساتھ رہتی ہے ،کبھی کسی کبوتر کو کسی باز کے ساتھ پرواز کرتا ہوا نہیں پاسکتے چونکہ باز ، کبوتر کو کھاجائے گا، اسی طرح مومن وغیرمومن میں کیا نسبت؟ کسی غیرمومن کے مرنے پر کوئی مومن غمگین کیوں ہوگا؟ وہ تو خوش ہوجائے گا کہ اچھا ہوا کہ میرا ایک دشمن کم ہوگیا ۔حضوراکرمۖ کا جناب خدیجہ (س)کے فراق میں غمزدہ ہونا،ان کے ایمان کی مستحکم دلیل ہے چونکہ خدا کا رسول کسی کافر یا کسی دولت طلب کی خاطر گریہ نہیں کرے گا۔حضرت محمد(ص) ہمیشہ ان عظمت والی بی بی کاقصیدہ پڑھتے تھے؟ حضورۖ آپ کی وفات پر اتنے زیادہ غمگین ہوئے کہ صرف یہی نہیں کہ گریہ و زاری میں مشغول رہےاورحضرت (ص) کویاد فرماتے رہے، بلکہ جس سال جناب خدیجہ (س) کی وفات ہوئی اس پورے سال کا نام عام الحزن (یعنی غم کا سال)رکھ دیا۔

(٨)  آخر ایساکیوں؟ کیا یہ غم والم ایک زوجہ کے کھودینے کے مدنظر تھا؟ کیا حضورۖ شادی نہیں کرنا چاہتے تھے؟ کیا عرب میں لڑکیوں کی قلت تھی جو حضورۖ اتنے زیادہ غمگین نظر آئے؟ ۔نہیں قارئین کرام! خدیجہ(س) کے گذرجانے کے بعد حضورۖ کے پاس دولت و شہرت کی کوئی کمی نہیں تھی، جس لڑکی سے چاہتے وہ شادی کرنے کو تیار ہوجاتی، اور حضورۖ نے جناب خدیجہ(س) کے بعد کئی شادیاں کی ہیں؛توحضورۖ کے تمام رنج و الم کا مطلب بالکل آشکار ہے کہ حضورۖ اس لئے غمزدہ نظرآتے تھے کہ اسلام کا ایک اساسی و بنیادی رکن منہدم ہوگیا۔پیغمبرۖ کا یہ رات دن گریہ و بکا کرنا اور پورے سال کوخدیجہ (س)کے غم میں سوگوار کردینا جناب خدیجہ(س)کے ایمان کی سب سے آشکاردلیل ہے اگر قید تحریر میں لائے گئے پورے مضمون کو چند الفاظ میں سمیٹنا چاہیں تو شاید اس طرح کہنا بہتر ہوگا کہ جناب خدیجہ (س)وہ تن تنہا خاتون تھیں کہ جنھوں نے جاہلیت کی رسموں سے خوف نہ کھاتے ہوئے ،پیغمبر اسلامۖ کی دعوت اسلام پر لبیک کہا اور صرف یہی نہیں کہ خود مومنہ ہو گئیں بلکہ اپنی رفتار و گفتار اور اپنے کردار کے ذریعہ دیگر خواتین کو بھی اسلام کی جانب رغبت دلائی اور جہاں پر اخلاق و کردار نے کام نہیں کیا وہاں ان کی دولت نے سہارا دیا تو قارئین کرام! اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب خدیجہ (ص)کے پاس بے شمار دولت تھی لیکن چونکہ آپ نے یہ دولت حلال راستہ سے حاصل کی تھی لہٰذا ساری دولت و ثروت دین اسلام پر نثار کردی۔                                                                                                                               پالنے والے! ہمیں دین اسلام کے اصلی خادموں میں محشور فرما(آمین)۔                                  

حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسبط حیدرسمندپوری مد ظلہ العالی کی خطابت کے بعدعزاداروں نے نوحہ خوانی کرتے ہوئے اگلے سال تک کے پروگرام کو ملتوی کیا۔

بھیک پور،بہار؛ حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں وفات حضرت خدیجہ (س) کی مناسبت سے پروگرام منعقد

بھیک پور،بہار؛ حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں وفات حضرت خدیجہ (س) کی مناسبت سے پروگرام منعقد

تبصرہ ارسال

You are replying to: .