۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا تقی عباس کلکتوی

حوزہ/ موجودہ زمانے میں خواتین عالم خاص کر اگر ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بہوئیں حضرت خدیجۂ کبریٰ  سلام اللہ علیہا سے  عفت و پاکدامنی ، اعلیٰ اخلاق و کردار، صوم و صلوٰۃ کی پابندی، ذکر و فکر کے آداب شوہراور بچوں کی تیمہ داری اور زندگی گذارنے کے دیگر طور طریقے سیکھیں اورآپ ؑ کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ بنائیں تو ان کی فردی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ ساتھ دین و دنیا دونوں سنور سکتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اہل بیت (ع) فاؤنڈیشن ہندوستان کے نائب صدر حجۃ الاسلام مولانا تقی عباس رضوی نے کہا کہ دس ماہ مبارک رمضان 10 بعثت ،ام المؤمنین ،حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؑ ، پیغمبر اکرمؐ کی اولین زوجہ اور حضرت زہراؑ کی مادر گرامی  کا یومِ وفات ہے ۔اور اس دن اور سال کو تاریخ نے عام الحزن سے یاد کیا ہے ۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ  ؑبعثت سے پہلے محبوب دوعالم ؐ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے والی پہلی خاتونِ اسلام  ہی نہیں بلکہ آپ اسلام کی سچی مخلص و ہمدرد  اور  نبوت کی ناصر و مددگار، پشت پناہ  اور نبی رحمت کے لئے سراپا رحمت بھی تھیں ۔حُسن سیرت و اخلاق، بلندی کردار، سخاوت، جود و کرم، غریبوں، مفلسوں سے محبت و ہمدردی اور یتیم پروری  آپ کی نمایاں خصوصیات میں شامل تھی۔

مزید کہا کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؑ ذاتی شرف و کمال اور اعلیٰ حسب و نسب کی  باعظمت، مالدار اور اپنے زمانے کے مؤثر خواتین میں سے تھیں لہذا آپ کو آپ کی عظیم خوبیوں  اور خصوصیتوں کے سبب ملکیۃ العرب(عرب کی ملکہ)، ناصرۂ  رسولؐ،(رسول ؐ خدا کی ناصر و مددگار)، محسنہ اسلام(اسلام کی مددگار)، ام الاضیاف (مہمان نواز )ام المساکین (مسکین نواز )ام الایتام (یتیم پرور) کے القابات  سے یاد کیا جاتا ہے ۔

مولانا تقی عباس نے کہا کہ آپ کے ان القابات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدمتِ خلق ،حق کی حمایت، شوہر کی خدمت اور نفع رسانی آپ کی حیات طیبہ کا اولین  کا مقصد تھا کیونکہ ایک خاتون وہ چاہے دنیا کی ذہین، سمجھدار، ذمہ دار، تعلیم یافتہ، ملازمت یافتہ ، مالدار عورت ہی میں کیوں نہ شمار ہوتی ہو مگر رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد وہ پہلے  ایک بیوی ہے بعد میں اس کےسارے رشتہ اور ناطے ہیں اس لئے کہ بیوی اپنے شوہر کی اطاعت گذار،فرحت کا باعث اور غیاب و حضور میں اس کی خیرخواہ ہوتی ہے ۔آپؑ کی عائلی زندگی اور شوہر داری کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا حق بجانب ہے کہ شوہر اور بیوی کے مابین الفت و محبت کا رشتہ ہے اور ایک بیوی اپنے شوہر کے لئے راحت و آرام ‘ سکون و اطمینان کا ذریعہ ہے۔آپؑ نے شوہر کے ہر وہ حقوق اداکئے جو ایک بیوی کے ذمہ ہوتا ہے  ۔ عرب کی شہزادی اور مالکہ ہونے کے باجود اپنے شوہر کی اطاعت و فرماں برداری اور اپنی نور نظر سیدہ فاطمہ زہرا علیہا السلام کو بہترین اور مثالی تعلیم و  تربیت  سے آراستہ کرکے تاقیامت آنے والی صنف نسواں کو یہ پیغام دیا کہ: مضبوط خاندان مضبوط  معاشرہ  کے پیش نظر اولاد کا صالح ہوناضروری ہے ۔جس کی اولاد تعلیم و  تربیت  سے آراستہ نہ ہو وہ   گھر و خاندان  اورمعاشرہ کبھی مضبوط و مستحکم نہیں ہوسکتا۔

انہوں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شادی پسند کی ہو یا غیر پسند کی  ،شادی کا بنیادی معیار دینداری ،تقویٰ اور نیکی ہونا چاہئیے ۔عورتیں ،انتخاب شوہر  میں دولت و ثروت نہیں بلکہ ایمان و  حسنِ اخلاق، حسنِ سیرت، رَہن سہن کے سلیقے اور عادات و اَطور کو بھی مدِّ نظر رکھیں اورشوہر کے جائز کاموں اور راہ  ِ خدا میں  اس کے  اٹھتے قدم کی ہر حال میں حمایت  کرے ۔آج کی عورتوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ   خداوندعالم  نےمرد کو عورت کا حاکم و محافظ بنایا ہے، اور اپنے فرائض و ذمہ داریوں کی وجہ سے مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے۔ اگر بیوی کو خدا کے بعد کسی کوسجدہ کرنا جائز ہو تا تو وہ اُسکا شوہر ہوتا۔میاں بیوی کے تعلقات کی درستگی ہی کے باعث کوئی بھی  گھر ،خاندان  اورمعاشرہ مضبوط و مستحکم رہ سکتا ہے ۔

ہندوستان کے برجستہ عالم دین کا کہنا تھا کہ جناب خدیجۃ الکبریٰ  ؑ نے خاندان کو مضبوط ومستحکم بنانے کی راہ میں جو مؤثر قدم اٹھائیں وہ خواتین عالم  کیلئے قابل تقلیدومشعل راہ ہے اور اس سے مستفید ہونا ہر دور کی ضرورت ہے۔ آپ ؑ نے وہ کردار اداکیا کہ آپ کی شان و منزلت اور عظمت و بزرگی   میں لسانِ نبوت سے نکلے ہوئے جمالات ایسے ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ازواج مطہرات میں کسی ایک کے لئے نہیں ملتے ۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ام المؤمنین حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کے متعلق ارشاد فرمایا کرتے تھے: انّی رُزِقتُ حُبَّها۔ خداوندعالم نے خدیجہ کی محبت میں میرا رزق و روزی رکھا ہے...۔ خدا وندعالم نے خدیجہؑ سے بہتر کوئی عورت مجھے نہیں دی۔ جب لوگ مجھے جھوٹا کہتے تھے، تو وہ میری سچائی کی گواہی دیتی اور جب لوگوں نے مجھ پر پابندیاں لگائیں تو اس نے اپنی دولت کے ذریعے میری مدد کی۔ورزقنی اللہ الولد منہا ولم‌یرزقنی من غیرہا۔  اور خدا نے اس سے مجھے ایسی اولاد عطا کی جو دوسری زوجات سے عطا نہیں کی۔

یقیناً !آپ کی سیرت امت مسلمہ کے لئے فخر و مباہات کا باعث  اور قابل قدر و لائق ستائیش ہے کہ آپ نےاپنی ساری دولت اسلام کی راہ میں خرچ کرنے کے بعد بارگاہ خداوندی میں دست دعا بلند کردئیے کہ اے کاش ! میرے پاس اور دولت ہوتی تو میں اسلام اور بانی اسلام پر لٹاتی رہتی تاکہ کفر و الحاد اور جہالت کی تاریکیوں میں میرا اسلام زیادہ سے زیادہ نورِ ہدایت بکھیر سکتا اور اسلام کے آئین و اصول اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت  لوگوں کے دل و دماغ میں اتر جاتی!۔

اہل بیت (ع) فاؤنڈیشن ہندوستان کے نائب صدر نے کہا کہ آپ کی  مالی امداد ہی کی بدولت رسول خداؐ غنی اور بے نیاز ہو گئے۔ آپؐ کو اپنی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے: وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى۔اور (خدا نے) آپ کو تہی دست پایا تو مالدار بنایا) نیز اللہ کے حبیب ؐ خود بھی فرمایا کرتے تھے: ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة ۔ کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہؑ کی دولت نے پہنچایا۔رسول خداؐ نے جناب  خدیجہؑ کی ثروت سے مقروضوں کے قرض ادا کئے؛ یتیموں، تہی دستوں اور بے نواؤں کے مسائل حل کئے۔شعب ابی طالبؑ کے محاصرے کے دوران حضرت خدیجہؑ کی دولت بنی ہاشم [اور بنی المطلب] کی امداد میں صرف ہوئی۔ یہاں تک کی  متعد د روایات و احادیث میں آیا ہے کہ: أنفق أبو طالب وخديجة جميع مالہما"۔ ابو طالبؑ اور خدیجہؑ نے اپنا پورا مال (اسلام اور قلعہ بند افراد کی راہ میں) خرچ کیا۔

آخر میں کہا کہ موجودہ زمانے میں خواتین عالم خاص کر اگر ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بہوئیں حضرت خدیجۂ کبریٰ  سلام اللہ علیہا سے  عفت و پاکدامنی ، اعلیٰ اخلاق و کردار، صوم و صلوٰۃ کی پابندی، ذکر و فکر کے آداب شوہراور بچوں کی تیمہ داری اور زندگی گذارنے کے دیگر طور طریقے سیکھیں اورآپ ؑ کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ بنائیں تو ان کی فردی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ ساتھ دین و دنیا دونوں سنور سکتے ہیں اور ملک میں عورت کے انسانی وقار کے منافی تمام قبیح رسم و رواج کا قلع قمع کرکے طلاق اور اس سے متعلق مسائل و جرائم جو معاشرے میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں  اسے کافی حد تک ختم کیا جاسکتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .