۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
السيدة خديجة الكبرى

حوزہ/ حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیھا السلام کا شمار مکہ مکرمہ کی مالدارترین شخصیات میں ھوتا تھا ، اور آپ کے در دولت سے یتیموں ، بیواؤں اور ناداروں کی مدد اور کفالت کا سلسلہ شب و روز جاری و ساری رہتا تھا۔

تحریر : مولانا ظہور مہدی مولائی

حوزہ نیوز ایجنسیحضرت خدیجۃ الکبریٰ علیھا السلام قبیلہ قریش کی نہایت معروف ، محترم ، عقیل و فہیم ، صاحب حیثیت ، باکردار اور باعظمت خاتون تھیں اور زمانہ جاھلیت میں بھی آپ طاھرہ اور سیدہ کے لقب سے جانی پہچانی جاتی تھیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ھے کہ آپ کی عظیم شخصیت بہت سے نسلی ، خاندانی ، سماجی اور اخلاقی و معنوی گرانقدرخصوصیات و کمالات کی مالک تھی ، لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ھوئے آپ کے روز وفات کی مناسبت سے یہاں صرف آپ کے پانچ چھ معنوی خصوصیات و کمالات کو ذکر کیا جارہا ھے :

۱۔ گہری شناخت و معرفت :
آپ آسمانی کتابوں کے مطالعہ اور اپنے عصر کے علما سے استفادہ کی وجہ سے خداوند متعال اور اس کے آخری پیغمبر کی گہری شناخت و معرفت رکھتی تھیں۔
یہ آپ کی گہری شناخت و معرفت ھی کا نتیجہ تھا ، کہ دنیوی زرق و برق اور ظاھری و مادی فریبندہ جلوؤں کو خاطر میں نہ لاتے ھوئے آپ نے الہی و انسانی معیارات و کمالات کو قدر و عظمت کی نظر سے دیکھا اور فقط اسی بنیاد پر اپنے شریک زندگی کے طور پر خداوند متعال کے آخری رسول ، عبد اللہ و آمنہ کے یتیم ، عبدالمطلب کے پوتے ، ابوطالب کے حقیقی بھتیجے اور فاطمہ بنت اسد کے خوش پروردہ نورنظر "حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " کو منتخب کیا۔
آپ نے اپنے اس عالمانہ و عارفانہ انتخاب سے بلاخوف تردید زمانہ جاھلیت کے جاھلی و مادی معیارات کو بڑی شجاعت کے ساتھ توڑ ڈالا ، اگرچہ انھیں توڑ ڈالنے کی یہ سنگین قیمت آپ کو ادا کرنی پڑی کہ عرب کی عورتوں نے اس حد تک آپ سے رابطہ منقطع کرلیا کہ ولادت حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے ھنگام بھی آپ کے پاس آنا گوارا نہیں کیا۔
لیکن آپ اپنے اس عالمانہ انتخاب پر اس قدر مطمئن بلکہ مفتخر تھیں کہ آپ نے سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقد ازدواج کے ھنگام ھی اس کا اظہار یوں فرمادیا تھا :
" یابن عم انی رغبت فیک لقرابتک و سعتک فی قومک و امانتک و حسن خلقک و صدق حدیثک "
اے میرے ابن عم ، میں آپ کی طرف قرابت و رشتہ داری ، قوم و قبیلہ میں آپ کی شرافت ، امانتداری ، آپ کے حسین اخلاق اور صداقت و راستگوئی کی وجہ سے مائل و راغب ھوئی ھوں۔(سیرہ ابن ھشام ، ج ۱ ، ص۲۰۱)

۲۔ پیغمبر خدا کا اکرام و احترام :
حضرت خدیجۃ الکبریٰ عرب سماج میں خاندانی شرافت و نجابت اور عفت و پاکدامنی کے ھمراہ عظیم اجتماعی و مالی حیثیت و موقعیت کی مالک تھیں ، لیکن اس کے باوجود آپ سرکار مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نہایت تواضع اور اکرام و احترام سے پیش آتی اور ذرہ برابر کسی قسم کی برتری کا اظہار نہیں فرماتی تھیں ، اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ آپ کی نگاہ میں خداوند متعال کا رسول ھونے کی وجہ سے سرکار کی اتنی عظمت و قداست تھی کہ آپ خود کو آنحضرت کی کنیز گردانتی تھیں ، جس کی ایک عشق و معرفت سے لبریز جھلک اس وقت نظر آئی ، کہ جب جشن عقد ازدواج منعقد ھونے کے بعد سرکار مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے عزیز چچاحضرت ابوطالب علیہ السلام کے گھر کی طرف چلنا چاہا ، تو ملکہ بطحا نے نہایت احترام و تواضع سے عرض کیا:
" فبیتی بیتک وانا جاریتک "تشریف لائیے یہ گھر ، آپ کا گھر ھے اور میں آپ کی کنیز ھوں۔(بحارالانوار ، ج ۱ ، ص۴)
بلاشبہ اس تواضع ، انکساری اور تعظیم و تکریم کا سرچشمہ فقط توحید خداوند احد سے متعلق بی بی خدیجہ وہ مکمل عرفان اور یقین و ایمان تھا کہ جو آپ کے قلب و روح میں رچا بسا اور پیوست تھا ، جس کی شہادت شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ نے بھی سفینۃ البحار میں دی ھے۔( سفینۃ البحار ، ج ۲ ، ص ۵۷۵)

۳۔ بندگی وعبادت میں تعاون :
حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیھا السلام گھر کے تمام امور و معاملات کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مرضی کے مطابق انجام دیتی تھیں اور خداوند متعال کی عبادت و بندگی کی طرف پیغمبر کی نہایت شدید رغبت کو دیکھتے ھوئے گھر کا ماحول اس کے لئے نہایت خوشگوار بنائے رکھتی تھیں ، نیز سرکار کی عبادت ، دعا ، مناجات اور الہی راز و نیاز میں ذرہ برابر مزاحمت ایجاد نہیں فرماتی تھیں۔
صرف اتنا ھی نہیں بلکہ جب آنحضرت گھر سے دور بالخصوص پورا ماہ رمضان " غارحراء" میں تفکر و تدبر اور طاعت و عبادت میں مشغول رہ کر گزارتے تھے ، تو آپ خداوند متعال کے عشق و محبت اور رضا و خوشنودی کی خاطر ان کی دوری کو خوشی سے تحمل فرماتی اور حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ آپ کو کھانا بھجواتی اور کبھی کبھی خود بھی غار حراء میں تشریف لے جاتی تھیں ، جیساکہ علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کے اس بیان سے پتہ چلتا ھے کہ:
"ایک ماہ رمضان ایسا آیا کہ آنحضرت غار حراء میں تھے تو آپ پر وحی نازل ھوئی اور آپ کی بعثت کا آغاز ھوا ، اس واقعہ کے وقت حضرت علی ، خدیجہ اور ایک غلام یہ تین افراد بھی غار میں موجود تھے۔( بحارالانوار، ج ۱۵ ، ص ۳۶۳)

۴۔ محکم و مضبوط ایمان و پیمان :
جب سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتہائی غربت و مظلومیت کی زندگی گزار رھے تھے اور غیر تو غیر اپنے رشتہ دار بھی اسقدر عداوت و مخالفت پر اتر آئے تھے کہ آپ کی شمع حیات گل کرنے کے درپے تھے ، اس وقت جناب خدیجۃ الکبریٰ آپ کی طرف مکمل طور پر متوجہ رھیں ، آپ نے آنحضرت کے دعوائے نبوت و رسالت کی کھل کر تصدیق کی، اس پر اپنے مکمل ایمان و یقین کا اظہار کیا اور بلا قیدو شرط ھرطرح سے آپ کی نصرت وحمایت کا ایسامضبوط دائمی عہد و پیمان باندھا کہ جس پر اپنی آخری سانس تک استوار رھیں ، اسی لئے تو سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک پر ان کی تکریم و تمجید میں بار بار یہ فقرے آتے رہتے تھے " این مثل خدیجۃ۔۔۔۔۔۔" کون ھے خدیجہ کی مثل و نظیر۔۔۔"۔( قاموس الرجال ، ج ۱۰ ، ص ۴۳۲)

۵۔و سیلہ سکون و راحت :
مکہ کے کفار و مشرکین نے سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اتنا آزارو اذیت میں مبتلا کیا تھا کہ آنحضرت خود فرماتے ہیں:
مااوذی نبی بمثل اوذیت " جتنا مجھے ستایا گیا ، اتنا کسی نبی کو نہیں ستایا گیا۔( بحارالانوار، ج ۳۹ ، ص ۱ )
تاریخ شاھد ھے کہ بے پناہ آلام و مصائب کے اس خطرناک ھجوم میں خدیجۃ الکبریٰ کی ذات تھی ، جو اس رنجور و مظلوم پیغمبر کو اس طرح تسکین اور دلاسہ دیتی تھی کہ آنحضرت کے غمزدہ چہرے پر امید ، نشاط اور مسرت کا نور پھیل جاتا تھا۔
ابن ھشام لکھتے ہیں :
اللہ نے ان ( خدیجہ ) کے ذریعہ پیغمبر کو سکون عطا فرمایا ، اس طرح کہ جب بھی حضرت رد و تکذیب جیسی کوئی ناگوار و رنج آور خبر سنتے تھے تو اللہ خدیجہ کے ذریعہ آپ کا غم غلط فرمادیتا تھا ، جب خداوند عالم اپنے رسول کو خدیجہ کی طرف پلٹاتا تھا تو دشواریوں کو ان پر آسان اور ان کی تصدیق و تائید فرماتا تھااور لوگوں کے اعمال ( جو اذیت رساں ھوتے تھے ) انھیں آنحضرت کی نگاہ میں بے اھمیت بنادیتا تھا، رحمت خدا ھو ان ( خدیجہ ) پر ۔( سیرہ ابن ھشام ، ج ۱ ، ص ۲۴۹)
بلاشبہ یہی وہ شریک حیات ھے جو " لتسکنواالیھا" کا ایک جیتاجاگتااور اعلیٰ و ارفع مصداق ھے۔

۶۔ انفاق مال و ثروت :
حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیھا السلام کا شمار مکہ مکرمہ کی مالدارترین شخصیات میں ھوتا تھا ، اور آپ کے در دولت سے یتیموں ، بیواؤں اور ناداروں کی مدد اور کفالت کا سلسلہ شب و روز جاری و ساری رہتا تھا۔
اہل تاریخ نے آپ کی دولتمندی کے حوالے سے لکھا ھے کہ اسی (80) ھزار اونٹ آپ کے تجارتی سازو سامان کواٹھانے اور اٍدھر ادھر لے جانے پر مامور تھے ۔۔۔۔اور چار سو غلام اور کنیزیں آپ کے اقتصادی و شخصی امور کو ادارہ کرتے تھے۔( بحارالانوار، ج ۱۶ ، ص ۲۲)
لیکن جیسے ھی آپ کا عقد مبارک سرکار مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ھوا ، اس کے فوراٌ بعد آپ اپنے چچا " ورقہ ابن نوفل " کے پاس پہنچیں اور بہت سارا مال و منال دے کر ان سے کہا کہ : اسے محمد کے پاس لے جائیے اور ان سے کہئے یہ آپ کے لئے ہدیہ ھے ، چاھے جیسے اسے استعمال فرمائیے ، اور سارے املاک ، غلام ، کنیز اور خدم و حشم بھی آپ کے ہیں۔
یہ سن کر ورقہ کعبہ کی طرف بڑھے اور انھوں نے زمزم اور مقام ابراھیم کے درمیان کھڑے ھوکر بلند آواز سے یہ کہا :
اے عربو! جان لو کہ خدیجہ تمھیں گواہ بناتی ہیں کہ وہ خود اپنےکو اور اپنے تمام اموال و املاک غلاموں ، کنیزوں ، حیوانوں ، ہدیوں اور مہر کو محمد کے نام کر رھی ہیں اور یہ سب وہ ھدیہ ہے جسے محمد نے قبول فرمالیا ھے اور یہ کام خدیجہ نے محمد سے عشق و محبت کی وجہ سے انجام دیا ھے ، تم سب اس پر گواہ رہنا اور اس کی گواھی دینا۔( بحارالانوار، ج ۱۶ ، ص ۷۵ تا ۷۷)
افسوس صد افسوس کہ جس سخی و کریم بی بی نے بالخصوص دین اسلام اور اس کے ظہور سے قبل عرب سماج کی عظیم خدمتیں انجام دی تھیں ، وہ شعب ابوطالب میں بحال ناداری و مظلومیت درختوں کے پتے چباچباکر دنیا سے گزر گئی ، البتہ راہ حق و صداقت میں صبرو استقامت کے ایسے چمکدار اور گہرے نقوش چھوڑ گئی ، کہ جن کی چمک دمک سینہ تاریخ سے آج بھی خراج نور وصول کر رہی ھے۔
دس ماہ رمضا ن، خدا ئے رحمان و رحیم کی اسی مخلص و محبوب کنیز، محسنہ اسلام ، عارف و عاشق رسول اکرم ، ام المومنین و جدۃالمعصومین حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیھا السلام کا حسرتناک روز وفات ھے، لہذا اس موقع پر ھم ان بی بی کی عظیم قربانیوں اور جانثاریوں کو یاد کرتے ہوئے " ومن یعظم شعائراللہ فانھا من تقوی القلوب" کے تحت ان کی تعظیم و تکریم بجالاتے ہیں اور اس المناک مناسبت پر فرزند پیغمبر و خدیجہ حضرت بقیۃ الاعظم علیہ الصلوۃ والسلام و عجل اللہ تعالی فرجہ کی ساحت قدس میں نذرانہ تسلیت عرض کرنے کے بعد جملہ اھل ایمان و اسلام کو بھی تعزیت پیش کرتے ہیں۔
سلام اللہ علیھا یوم ولدت و یوم ارتحلت و یوم تبعث حیۃ۔ آمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .