۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 379568
14 اپریل 2022 - 01:27
صادق حسین مناوری

حوزہ/ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت اور غم کے بوجھ کے ساتھ گھر تشریف لائے تو خدیجہ نے آپ کو تسلی دی اور آپ کی  پریشانی دور کردی۔  حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی جائیداد اور مال و دولت  شروع سے ہی اسلام کی خدمت اور  ترقی کے لئے استعمال ہوتی رہی۔ 

تحریر: صادق حسین مناوری

حوزہ نیوز ایجنسی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ 24 سال اکٹھے رہنے کے دوران حضرت خدیجہ (س) نے ان کے لئے اور دین اسلام کے لیے بہت سی خدمات انجام دئے ہیں۔ جب مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یک و تنہا کیا تھا تو حضرت خدیجہ نے آپ کو سہارا دیا تھا اور مشرکین کے ظلم و ستم اور آزار و اذیت سے آپ کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پیغمبر اکرم سے شادی کے بعد حضرت خدیجہ نے اپنی تمام جائیداد اور مال و دولت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بخش دی تاکہ پیغمبر جیسے چاہیں اس کو استعمال کریں۔ آپ نے فرمایا کہ : جتنی خدیجہ کی دولت میرے لئے فائدہ ثابت ہوئی اتنی کوئی اور چیز میرے لئے منافع بخش ثابت نہیں ہوئی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نہ صرف اپنے دل کی گہرائیوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن پر ایمان لایا بلکہ مشرکوں اور بدخواہوں کی تکالیف کے مقابلے میں آپ کی مدد کی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت اور غم کے بوجھ کے ساتھ گھر تشریف لائے تو خدیجہ نے آپ کو تسلی دی اور آپ کی پریشانی دور کردی۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی جائیداد اور مال و دولت شروع سے ہی اسلام کی خدمت اور ترقی کے لئے استعمال ہوتی رہی۔

حضرت خدیجہ عفت و پاکدامنی کے حوالے سے مشہور تھیں اور اسی بنا پر انہیں طاہرہ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ان کی تجارت کا یہ عالم تھا کہ ان کے تجارتی قافلے ہمیشہ سفر میں رہتے تھے ۔ ان باتوں کے باوجود انہیں مال و دولت جمع کرنے کی کوئی ہوس نہ تھی اور وہ ضرورت مندوں اور محتاجوں خاص طور پر یتیموں کی ہمیشہ مدد کرتی تھیں۔لاحاصل قبائلی جنگوں میں مرنے والوں کے یتیم بچوں کا آخری سہارا جناب خدیجہ کا گھرتھا جہاں ان کی بھوک مٹانے کا انتظام ہوتا تھا ۔ حضرت خدیجہ یتیموں سے اس قدر مہر و محبت سے پیش آتی تھیں کہ بعض لوگ انہیں یتیموں کی ماں کے نام سے پکارتے تھے ۔ انہوں نے سچا‏‏ئی اور ایمان داری کے سلسلے میں پیغمبر کی شہرت سن رکھی تھی لہذا وہ اپنا مال تجارت ان کے حوالے کرنا چاہتی تھیں جب انہیں پتہ چلا کہ وہ ان کا تجارتی قافلہ لے جانے کے لئے تیار ہیں تو انہوں نے تاخیر کو جائز نہ سمجھا اور انہیں بلوا بھیجا ۔ جب جناب خدیجہ نے محمد امین کو اپنے سامنے دیکھا کہ شرم سے ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہیں تو محسوس کیا کہ انہیں کسی بھی اور شخص سے زیادہ ان پر یقین ہے وہ مکہ کے دوسرے لوگوں کی طرح جانتی تھیں کہ محمد کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی دوسروں کے مال پر ان کی نظر ہوتی ہے لہذا جناب خدیجہ نےاپنا مال تجارت پیغمبر کےسپرد کر دیا اور اپنے غلام میسرہ کو آپ کے ساتھ اس تجارتی سفر پر شام بھیج دیا ۔

حضرت خدیجہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ نہایت ذہین، عقلمند اور ہوشیار خاتون تھین۔ اس وقت جب پورا جزیرۃ العرب جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور خواتین کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا ایک ایسے ماحول میں حضرت خدیجہ کا شمار انتہائی پڑھی لکھی اور ادبی شخصیات میں ہوتا تھا۔ پیغمبر اکرم کی شان میں لکھے گئے یہ اشعار اس بات کی تائید کرتے ہیں:
فلو اننی امسیت فی کل نعمة و دامت لی الدنیا و تملک الاکاسرة
فما سویت عندی جناح بعوضة اذا لم یکن عینی لعینک ناظرة

اگر میرا دن دنیا کی تمام نعمتوں کے درمیان گزر جائے
دنیا اور بڑے بادشاہوں کی سلطنت مجھے دے دی جائے
اگر میری آنکھوں کا آپ کا دیدار میسر نہ ہو تو
یہ سب چیزیں میرے لئے ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے۔

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تریسٹھ سالہ حیات طیبہ میں اگرچہ اپنوں اور اغیار کی طرف سے کئی مصیبتیں، مشکلات، پریشانیاں، مصائب، رکاوٹیں اور سنگینیاں دیکھیں اور برداشت کیں لیکن ان میں غالب اکثریت پر حزن و ملال اور دکھ و اضطراب نہیں فرمایا بلکہ ہنسی خوشی اور اسلام کی ترویج و وسعت کا ہدف سامنے رکھتے ہوئے قبول فرماتے رہے۔ لیکن پیغمبر اسلام (ص) کی زندگی میں دو پریشانیاں ایسی آئیں جو آپ (ص) کو ناقابل تلافی صدمے سے دوچار کرگئیں اور ان مصیبتوں کے اثرات تادم آخر موجود رہے اور وہ مصیبتیں اپنے سرپرست و مربی چچا حضرت ابوطالب (ص) اور اپنی شریکئہ حیات اور مشکل ترین اوقات کی ساتھی حضرت خدیجتہ الکبری (ص) کی وفات ہے۔

حضرت خديجہ(س) 65 سال کی عمر میں ماہ رمضان کی دس تاریخ میں وفات پا گئیں۔ بعثت کے دسویں سال شعب ابی طالب کے باہر ان کا انتقال ہوا اور انھوں نے جان، جان آفرین کے سپرد کر دی رسول خدا (ص) نے ذاتی طور پر غسل، کفن، دفن اور حنوط وغیرہ کے تمام کاموں کو اپنے عہدے پر لیا۔ رسول خدا(ص) حضرت خدیجہ (س) کو دفن کرنے سے پہلے خود قبر میں گئے، پھر حضرت خدیجہ کو قبر میں رکھا اور پھر سنگ لحد کو رکھ کر قبر کو بند کر دیا اور خود اشک آلود آنکھوں سے قبر سے باہر نکل آئے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .