تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی | ملیکة العرب ، ہمسر رسول ، مادر بتول ، غریبوں اور ناداروں کی پالن ہار ، عظمتوں کا ہمالیائی پروت، فخر عرب ، نبی رحمت کی پہلی محبت، عروس فکر مودت، محور انسانیت ، شرافت و طہارت کی ملکہ یعنی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا گلشن اسلام کو سینچا حضرت عمران ع کے خون نے اور خوشبو کی طرح پھیلایا شہزادی حضرت خدیجہ س نے تاسیس اسلام اور ترویج اسلام میں دونوں ذاتوں کا برابر سے احسان رہا مال خدیجہ س نے دیا تاسیس کے لیے آل ابو طالب نے دی ترویج کے لیے اس ملے جلے سنگم کے احسان کا بدلہ پیغمبر اسلام نے غدیر کے چوراہے پر چکا یا جب دستار من کنت سر اقدس شاہ لا فتی پر سجائی طہ کا تاج کرامت ، مزمل کی قبا ، یاسین کا شاہانہ پیراہن ، بشیر و نذیر کے زیورات ، قل کفی کا تکلم ، ھل آتی کی عطا، والفجر کا رخ زیبا ، واللیل کی کالی زلفیں، والشمس کی پیشانی ، والنجم کی چشم بدور، والقمر کا حسن، قرآن کا چہرہ، عترت کی صورت، ولایت کی وراثت کا وارث و امین یا ایھا الرسول بلغ کے حکم ربانی سانچہ میں بنایا، اور اس طرح کے صفات جمال و جلال وکمال کو خطبہ غدیر کے سنہرے اوراق پر بکھیر کر مصداق جلی حضرت علی کو دونوں ہاتھوں پر بلند کر کے وجہ اللہ کو پہچنوا دیا هَلْ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ(1) کے فریضہ کو ادا کر کے خون و خوشبو , آل و مال کی خدمتوں کے صلہ کو تسلسل بخش دیا اب قیامت تک اسلام ان دو ذاتوں کا مرہون منت رہے گا اور جب دنیا خون کو خاک میں ملانا چاہے گی تو قدرت خاک کو خاک شفا بنا کر افلاک کی عظمتوں سے بالا کر دیگی اور جب خوشبو کو بکھیرنا چاہے گی تو قدرت پورے گلشن کی خوشبوؤں کوغیبت کے گلدستہ میں سمیٹ کر عترت کو قرآن کا وارث بنا کر محفوظ کردیگی تاکہ رہتی دنیا تک کو خون و خوشبو کا احساس بیدار رہے اور ہر با ضمیر با شعور مسلمان کو کلمہ شہادتین میں دو گواہیوں کی بقا کی قربانیاں بھی یاد رہیں ورنہ یہ دین کے ساتھ غداری ہوگی اور غدار نسل سفیان تو ہو سکتی ہے مسلمان نہیں۔
خدیجہ اس عظیم ذات کا نام ہے جس کے ذکر کو قدرت نے اپنے رسول پر لازم قرار دیا وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ(2) فحدث فعل امر ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے گویا دہن پیغمبر سے ذکر جناب خدیجہ ذاتی محبت قلبی لگاؤ یا خواہشوں کی تکمیل کا استعارہ نہیں ہے بلکہ حکم رب امر الہی کے امتثال کی بجا آوری ہے، یوں تو فحدث کی فاء عربی گرامر کے اعتبار سے فاء جزائیہ ہے مگر حقیقتا بھی یہ فاء اس عمل کی جزاء ہے جو حضرت خدیجہ کی خدمات ہیں اسکا صلہ ہے امر ربی لہذا فحدث کا صیغہ امر رسول مقبول سے ذکر خدیجہ (س) کا تقاضا کرتا ہے اور رحمت للعالمین نے با حسن و خوبی اس فریضہ کو انجام دیا جب کسی حاسدہ کینہ پرور سیاسی زوجہ نے ذکر خدیجہ بزبان مرسل آعظم پر اعتراض کا نشتر چبھویا تو رحمت کی پیشانی پر غضب کے آثار نمایاں ہوئے اور فرمایا؛ خَدِيجَةُ وَ أَينَ مِثْلُ خَدِيجَةَ صَدَّقَتْنِي حِينَ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَ آزَرَتْنِي عَلَى دِينِ اللَّهِ وَ أَعَانَتْنِي عَلَيهِ بِمَالِهَا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَمَرَنِي أَنْ أُبَشِّرَ خَدِيجَةَ بِبَيتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبِ الزُّمُرُّدِ لَا صَخَبَ فِيهِ وَ لَا نَصَب.خديجہ اور کون خدیجہ کی طرح ہو سکتا ہے ! اس نے اس وقت میری تصدیق کی، جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور دین خدا پر اس نے میری مدد کی اور اپنے تمام اموال کے ساتھ میری حمایت کی۔ خداوند نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں خدیجہ کو جنت میں موجود، زمرد سے بنے ہوئے ایسے محل کی خوشخبری دوں کہ جس میں کسی قسم کی کوئی تکلیف و زحمت نہیں ہو گی۔
(الموفق ابن احمد بن محمد المكي الخوارزمي (متوفي 568هـ)، المناقب، ص 350 ، تحقيق : الشيخ مالك المحمودي مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط – بيروت) ؛ ج43 ؛ ص 131، دار إحياء التراث العربي – بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.) خدیجہ نے مجھے اس وقت غنی کیا جب غربتیں دامن گیر تھی اسوقت میرے شجر تمنا ء پر کوثر کا ثمر کھلایا جب عرب کے بدو مجھے ابتر کا طعنہ دے رہے تھے میری مونس تنہائی میری ہمدم ہر دم بلکہ دم بدم ساتھ دینے والی ذات ہے خدیجہ خبردار اسکے ذکر پر اب کبھی اعتراض نہ ہو۔ یہ وہ شہزادی ہے جس نے شعب ابی طالب میں مشکلوں کے ساتھ شب و روز گزارے اور لبوں پر شکر ہی رہا کبھی شکوہ نہ آیا دولت و ثروت کے شیش محلوں میں رہنے والی رانی نے کبھی کچھ طلب نہیں کیا جبکہ ہوس کے قبرستانوں سے آنے والی سیاسی بیویاں ہمیشہ خواہشوں کا کٹورا لیے پیغمبر اسلام سے بھیک مانگتی رہیں اور فتح خیبر کے بعد مال دیکھ کر رال ٹپکنے کا ذکر تو قرآن نے بھی بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے۔
بہرحال ٹیڑھے دل والیوں سے شفاف قلب مطہر کا کیا مقابلہ (هَلْ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ( 3) خدیجہ کی بصارت و بصیرت کہاں اور فقد صغت قلوبکما کی مصداق عمیاں کجا چہ نسبت خاک را افلاک، ذرہ کا مقابلہ سورج سے خزانہ کا مقابلہ کھوٹے سکہ سے خدیجہ ثروتوں کا وہ بے بہا خزانہ تھیں جسے راہ خدا میں لٹا دیا گیا تاکہ اسلام پروان چڑھے اور راہ کے کھوٹے سکوں کو نبوت نے سیاست کی مجبوری سے گھر میں پناہ دی تاکہ اسلام سازشوں اور سوزشوں سے محفوظ رہ سکے لھذا خدیجہ اس عدیم المثال ذات کا نام ہے جس کا مقابلہ کسی بھی خاتون سے ممکن نہیں ہے۔
جسے زمانۂ جاہلیت میں طاہرہ کہا جائے جس سرزمین پر بچیوں کو در گور کردینا باعث فخر ہو جہاں عورت کا کوئی وقار نہ ہو اس دور پر فتن میں تاریخ کہتی ہیکہ یقال لھا طاھرہ حضرت خدیجہ طاہرہ کہی جاتی تھیں یہ تو نظام قدرت تھا کہ آیت تطہیر کے نزول سے پہلے جانب رب صعود فرما چکی تھیں ورنہ آیت میں اگر کوئی زوجہ بحیثیت طاہرہ جگہ پا سکتی تو حضرت خدیجہ س کی ذات والا صفات تھی اگرچہ مفسرین نے آیت کے سیاق و سباق میں بہت سے قرائن کے روشن دان کھولنے کی کوشش کی تاکہ انھیں امت مسلمہ روشن خیال مفسر کا لقب دے سکے مگر القاب کی تمنا کا کشکول لیے وہ بھکاریوں کے دروازوں پر گئے اگر یہی کشکول تمناء لیے در خدیجہ پر آتے تو دامن مراد بھر جاتا مگر وای ہو شومئی قسمت پر کہ صحیح در کی شناخت ابھی تک نہ ہو سکی۔
دعا ہے بارگاہ۔ رب قدیر میں کہ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے اور امت کو راہ جناب خدیجہ ع پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے -
______________________________
حوالہ جات :
1) سورہ رحمن :آیت 60
2)سورہ الضحٰی :آیت 11
3)سورہ الزمر :آیت 9